مسلم دنیا ایک خطرناک جنگ کی لپیٹ میں
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
نائن الیون کا حادثہ امریکہ میں ٹوین ٹاورز
کو ہوائی جہازوں سے اڑانے کی وجہ سے قیامت تک تاریخ میں زیر بحث رہے گا، اس
کے مضمرات ،پیش منظر وپس منظر اور اس پر مرتب ہونےوالی عالمی سطح کی
تبدیلیاں اس کے اہم موضوعات وابواب ہیں اور رہینگے ، یہ حملہ کس نے کیاتھا،
کیوں کیا تھا اور کیسے کیاتھا ،یہ بھی تاحال واضح نہیں ہیں ، اس لئے یہ بحث
بھی باقاعدہ موضوع سخن کے طور پر دنیا کے تجزیہ نگا روں اور اہل تحقیق کو
طویل عرصے تک کیلئے مشغول رکھے گی ، لیکن 2014 کے نائن الیون کوجدہ میں
قریبا ً 40 ملکوں کی ایک اہم میٹینگ جو امریکہ اور عرب لیگ کے اشتراک سے
منعقد ہوئی ، مشرق و مغرب اور بالخصوص عرب میڈیا میں زیر بحث رہی ، اس
اجتماع میں ’’داعش‘‘ خلاف عالمی برادری کو منظم کیا جارہاتھا ، تاکہ عراق
اور شام میں اسے کچلا جاسکے ۔
ابتدائی پلان کے مطابق امریکن فورسز صرف فضائی حملوں میں شریک ہوں گی ،جبکہ
عرب لیگ، ترکی او رایران کی فوجیں بری وبحری محاذوں پر اس تنظیم کے ساتھ
پنجہ آزمائی کرینگی ،شام کے کٹھ پتلی صدر بشار نے بھی اس عالمی کولیشن میں
انضمام کی درخواست دی تھی ، لیکن ان کی درخواست مسترد کرکے ان کے خلاف
میدان جنگ میں نبرد آزما’’ الجیش الحر‘‘ کو اس کولیشن کا حصہ بنا یا گیاتھا
، چونکہ شام میں اس تنظیم کے خلاف کا رروائی گویا بشار کے زیر کنٹرول علاقے
میں بھی ہونی تھی ، جس سے ان کی حکومتی عملداری کے متأثر ہونے کا قوی امکان
تھا ، ا س لئے ایران،چین اور روس نے یہاں سے داعش کے خلاف جنگی کا روائی پر
اپنے تحفظات کا اظہار کیاتھا ، کیونکہ چین کے آشیرباد سے روس نے شام میں
کسی بھی غیرشامی فوج کی کارروائی کو عرصۂ دراز سے باربار انٹرنیشنل
سیکورٹی کونسل میں ویٹو کیاہواہے ،لہذا آسانی سے وہ اپنے اس نظریئے سے رجوع
کے لئےکسی بھی عنوان تلے باقاعدہ فوج کی دخل اندازی پر تیار نہیں ہیں ۔
اندازہ یہ تھا کہ 40ملکوں پر مشتمل یہ جتھہ صرف داعش کے خلاف نبرد آزما
نہیں ہوگا، بلکہ مستقبل میں عالمی سطح پر سنی مجاہدین کے تما م گروپوں کو
سبق سکھانے اور ان کو کیفرِکردار تک پہنچانے کیلئے یہ اتحاد معرضِ وجود میں
آگیاتھا ، بالخصوص گیارہ ستمبرکی تاریخ میں کچھ خاص پوشیدگی اور اشارےہیں ،
کیونکہ لسٹ میں تنظیم الدالۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام ،جبھۃ النصرۃ ،
طالبان ، بوکو حرام ،احرار الشام ، القاعدہ ،لیبیا میں انصار الشریعۃ ، یمن
میں حوثیین، فلپائن میں جماعۃ ابی سیاف او رصومالیہ میں الحرکۃ الشبابیۃ سب
کا تذکرہ تھا ، آگے چل کر یہ بات کوہِ سیناء کے مجاہدین ،حماس اور چیچن
مزاحمت کاروں کے ساتھ ساتھ سنکیانگ کے علیحدگی پسندوں پر آنی تھی ۔
یہ ساری صور ت حال دیکھ کر ایک طرف امہ کے نوجوانوں او رشہادت وشجاعت کے
جذبات سے لبریز مجاہدین کے خلاف اس بے رحم جنگ پردل خون کے آنسوروتاہے ،
اور پریشانی وحیرانی میں دم گھٹنے لگتاہے، لیکن دوسری طرف ان ہی نوجوانوں
کی غیر اسلامی وغیر انسانی حرکتوں پر غیظ وغضب سے کلیجہ پھٹنے لگتاہے ،
مہران ایئر بیس اورکراچی ائیر پورٹ کے بعد ڈاکیارڈ پر حملے کو دیکھئے ،یہاں
پر حملہ سابقہ تمام حملوں سے کئی گنا خطرناک تصور کیاگیا ، کئی روز تک تو
اسے میڈیا سے مخفی رکھنے کی کوشش کی گئی، پھر جوکچھ دھیرے دھیرے چھن چھن
کرسامنے آیا ، وہ بہت ہولناک تھا ،کہ ایٹمی آبدرزوں کو حاصل کرکے سمندر کی
گہرائیوں میں موجود امریکن بیڑوں پر حملہ خوفناک معنی دارد۔
پھر پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ تو گویا پاکستان کا نائن الیون
تھا،پیرس کا اس سے شدید تر تھا،کیلی فورنیا کےواقعے نے تو سی آئی اے کے
بھی ہوش وحواس اڑادئے تھے،باچاخان یونیورسٹی میں حالیہ خون ریزی نے تو
آپریشن ضربِ عضب پربھی سوالیہ نشانات لگادئے،پاکستان اور عالم اسلام کو
کمزور کرنا اگر کسی تنظیم کے مفاد میں ہو ،تو ان کے خلاف جو بھی کولیشن بنے
،بنناچاہیئے ،سرکوبی ہونی چاہیئے ،لیکن ایک بات جوخرابی کی ہے ، وہ یہ کہ
اگر ہماری حکومتیں اور حکمران کمزور اور کٹھ پتلی نہ ہوتیں ، تو ان لوگوں
کو کیا ضرورت تھی کہ از خود بجنگ ٓامد ۔
ہمارے حکمرانوں کاکام حقیقت میں یہ تھا،کہ عافیہ صدیقی کا مسئلہ سنجیدگی سے
اٹھایا جاتا ، عراق میں جھوٹ کی بنیاد پر جو تباہی ہوئی اس کا معاوضہ
دلایاجاتا، شام میں جو قتل عام ہورہاہے، بروقت اس بیماری کی تشخیص او رعلاج
کیاجاتا، طالبان پر بلاثبوت جس طرح آتش وآہن کوبرسایا گیا تھا،اس کی جواب
طلبی ہوتی ، فلپائن ،چیچینیا ،فلسطین ،صومالیہ اور نائجیریا میں مسلمانوں
کو تہ تیغ کرنے پر مسلم حکمراں اپنا حقیقی اور نظر آنے والا کردار سامنے
لاتے ، بصورتِ دیگر جب تک صورت حال جوں کی توں رہیگی ، لاوا پکتاہی رہیگا ،
خون رستاہی رہے گا ، آبادیاں ملیامیٹ ہوتی ہی رہیں گی ،اگر ہمارے حکمراں
میرکی طرح سادھا بن کر اسی عطار کے لونڈے سے دوا کرائیں گے، تو مرض بڑھتاہی
رہے گا، دنیا بدل چکی ہے ، گلوبلائزیشن کا دور ودورہ ہے ،گریٹر مڈل ایسٹ کے
نئے نقشے سامنے آچکے ہیں، سمجھ میں نہ آئے، تو ہنری کسینجر کی بالکل نئی
کتاب ’’نظام العالم ‘‘ کو دیکھ لیجئے ، نئی اور گلوبل دنیا کے نقوش اور
خدوخال واضح طوپر اس میں موجود ہیں۔
جدہ میں 11/9/2014کے اجلاس کو جس قوم نے بھی مختصر مدتی لیا،اسے نقصان ہوگا
،کیونکہ صر ف ایک تنظیم ’’داعش ‘‘ کے خلاف 40 ملکوں کا مستقبل میں وسعت
پذیر اتحاد سمجھ سے بالا ترہے ، پھر سعودی عرب کی قیادت میں 34 اسلامی
ملکوں کا اس سے بھی زیادہ ہمہ جہتی تحالف،شام میں خون کی ندیاں بہہ جا نے
کے باوجود امریکہ وروس کے اس پر صرف نشستن خوردن وبرخاستن طرز کے
اجلاسات،گوادر کے راستے چین کی عالم اسلام کے قلب ‘‘خلیج عرب’’تک
رسائی،ایران وشام کے ذریعے روس کی بھی یہاں تک آمد،امریکہ کا پہلے سے یہاں
اندر تک اثر ونفوذ،گویا ترکی کا گھیراؤ،پاکستان پر گذرگاہ اور عالم عربی
میں از اول تا آخرمداخلت وماردہاڑ،اصل ماسٹر مائنڈ کو پہچانے بغیرداعش کو
ختم کرنے کی کوششیں تو ہورہی ہیں، لیکن میری معلومات کے مطابق مابعد داعش
زیادہ تباہ کن ہوگا،کیونکہ جب وہ ڈوبینگے تو صنم کو بھی لے ڈوبنے کی خطرناک
روِش پر چل پڑیں گے،یہ سب حال اورمستقبل کے سنگین خطرات ہیں،میدان ِکا رزار
کے مجاہدین ہوں یادہشت گرد ، ان کو بھی از سرنو اپنے عزائم ،اہداف اور
منصوبوں پر سوچنا ہوگا، کہ کہیں وہ اہل اسلام کیلئے دنیا بھر سے شرکی قوتوں
کو جمع تو نہیں کررہے ہیں ؟ اور یہ بھی کہ وہ جہاد وقتال کے مقدس نام کے
باوجود اغیار کو عالم اسلام میں دخل اندازی کے مواقع توفراہم تو نہیں کررہے
ہیں، نیز ارباب حل وعقد کو بھی گولی کے بجائے مذاکرات کی میز ہی پر ان
ناداں مگر مخلص نوجوانوں کو سمجھانا ہوگا، ہم سب کو مسلم دنیا میں نئی
سامراجی توڑپھوڑ کو بنظرِغائر دیکھناہوگا،سدّباب کےلئے سر جوڑ کر بیٹھنا
ہوگا،قبل اس کے کہ عالمی استعماری قوتیں پھرسے مسلم ملکوں کو ناکام ممالک
قرار دے کر استعمار کے پنجوں میں جکڑلیں ، اہل دانش اور علماء کو بھی اپنی
اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی ۔
|
|