بِین بجاؤں کہ بَین کروں

’’میاں صاحب کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔‘‘
’’اگر میاں صاحب کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کیونکہ وہ غلط کہہ ہی نہیں سکتے ۔‘‘
’’اگر وہ غلط نہیں کہتے تو پھرغلط کو وہ کیاکہتے ہیں؟‘‘
’’یہی تو مسئلہ ہے کہ وہ تو غلط کو غلط بھی نہیں کہتے۔جھوٹ تو گویا ان کی ڈکشنری میں ہی نہیں ہے۔‘‘
’’تبھی تو…… جھوٹ ڈکشنری میں نہیں ہے اسی لیے جھوٹ کو وہ سچ کہتے ہیں۔‘‘
’’اور سچ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ڈکشنری میں ہے۔‘‘
’’اگر ایسا ہے تو پھر یہ جواتنے سارے جھوٹ ہیں یہ کون کہتا ہے عوام سے؟‘‘
’’یہ جھوٹ نہیں وعدے ہیں ، وعدہ خلافی ہوسکتی ہے لیکن جھوٹ ……سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ‘‘
’’اچھا جی ……یہ بات ہے !! ‘‘
’’اور ہاں آپ نے سنا نہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں خدمت عبادت سمجھ کر کرتا ہوں۔‘‘
’’ہماری عبادات کا جو حال ہے آپ کو معلوم ہے ، ہم ہفتہ میں ایک بار نماز جمعہ کے لیے تشریف لے جاتے ہیں یا پھر عید کے عیداپنا چہرہ مسجد کو دکھاتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو حال عبادت کا ہے وہی خدمت کا ہوگا۔‘‘
’’یہ خدمت اور سچائی کی ہی اعلیٰ مثال ہے کہ عوام دنیا کا سستا ترین پیٹرول استعمال کررہے ہیں۔‘‘
’’ اگر آپ ہمیں یہ بات نہ بتاتے تو شاید ہمیں پتا ہی نہیں چلتا ۔‘‘
’’عوام کا پیٹرول نکالنے والے وزیر کہتے ہیں کہ عوام کو پیٹرول مفت پڑتا ہے بس ’تھوڑا‘ سا ٹیکس ہے جو انھیں ادا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’میں نے تو خزانہ بانٹنے والے وزیر سے یہ بھی سنا ہے کہ وہ کہہ رہے تھے ہمارے آنے والے دن بہتر ہوں گے۔‘‘
’’ آپ نے ٹھیک سنا ہے، صحافیوں نے بھی جب یہ کہتے سنا تھا تو ان کی خوشی کا بھی ٹھکانہ نہیں رہا تھا لیکن جب سوال کرنے کے لیے قریب پہنچے تو پتہ چلا موصوف اپنے بیٹے سے موبائل فون پر گفتگو فرما رہے تھے۔‘‘
’’فون سے یاد آیا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیکٹا کی ہیلپ لائن پر رواں سال 8160کالز موصول ہوئیں جن میں سے 8020نے گانا سننے کی فرمائش کی۔‘‘
’’اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا کس طرح جڑ سے خاتمہ ہوگیا ہے کہ اب عوام امن کی بانسری سننا چاہتی ہے۔‘‘
’’امن کی بانسری سننی ہو تو آپ سائیں سرکار سے سن سکتے ہیں۔‘‘
’’لیکن سائیں سرکار کو تو بِین پسند ہے کیونکہ اس سے نیند میں خلل نہیں پڑتا۔ورنہ پورا دن عوام کے بَین سن سن کر تنگ آجاتے ہیں۔‘‘
’’ بِین بھینس کے آگے بجائیں یا پیچھے دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن ہماری سائیں سرکار پیچھے پیچھے سب سنتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی آگے آکر بجائے تو اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔‘‘
’’ ایسا کیا ہوگیا ؟ ‘‘
’’آپ پورے شہر میں جہاں چاہیں کچرا پھینکیں لیکن اگر سائیں سرکار کے گھر کی سامنے پھینکیں گے تو آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا۔‘‘
’’وہ بھلے مانس انسان ہیں کبھی کسی بھی بات کا نوٹس نہیں لیتے لیکن اگر وہ ایسا نہ کرتے تو لوگ کہتے کہ وہ سوئے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے یہ اقدام مجبوری میں اٹھایا ورنہ وہ تو کسی کو بھی گرفتار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ ‘‘
’’گرفتار نہیں کریں گے تو کرپشن کا گند پورے ملک کو کھا جائے گا۔‘‘
’’میں تو کہتا ہوں کرپشن کا خاتمہ نہیں کرنا ہے تو اس کی بھی نجکاری کردی جائے ۔ ‘‘
’’شریف لوگ کبھی بھی اس کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔آپ خواہ مخواہ شریف لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔‘‘
’’اگر آپ شریف ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں بھی تنگ کرنا چھوڑ دیں ۔‘‘
’’اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر دونوں مل کر آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ‘‘
’’اب تمہیں کچھ نظر آرہا ہے؟‘‘
’’ نہیں …… ‘‘
’’اور مجھے بھی ……!!‘‘
٭……٭
Mir Shahid Hussain
About the Author: Mir Shahid Hussain Read More Articles by Mir Shahid Hussain: 49 Articles with 39371 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.