جنابِ حَرف ۔ بلحاظِ صرف
(Ahmed Nisar Syed, India)
اکثر و بیشتر لوگ لفظ حرف کو اپنے اپنے
حساب سے تلفظ کرلیتے ہیں۔ کبھی حَرف تو کبھی حَرَف۔ کبھی حُرَف تو کبھی
حُرُف۔ یہ تلفظ اکثر بولی میں پیش آجاتے ہیں۔ لیکن صرف کے لحاظ سے اس کا
تلفظ کیا ہونا چاہئے؟
یہ کشمکش مجھے پھر سے لغت اور دائرۃالمعارف کی طرف کھینچ لے گئی۔ دیکھا تو
اس کا تلفظ حَرف نظر آیا۔ دورِ حاضر کے اردو لغت اور دائرۃالمعارف میں تلفظ
کے پیش کردہ طریقہ کار کا کوئی خاص اہتمام نظر نہیں آیا۔ لغت اور
دائرۃالمعارف کو ہم Instant Food کی طرح ہلکے پھلکے استعمال کرنے کے عادی
ہوگئے ہیں۔ سوچا کہ کوئی پرانی ضخیم کتاب مل جائے جو کہ مستند بھی ہو، تو
اس میں تلاش کروں، یعنی کہ سو سال پہلے حلقۂ اردو میں قواعد اور اس کے اصول
کیا تھے۔ شکر اپنے آبا و اجداد کا کہ انہوں نے ایسے کتب اپنے ورثہ میں چھوڑ
گیے۔ اُسی میں تلاش و تحقیق کرنا شروع کیا۔ پرانی کتابوں میں بھی تلفظ کا
کوئی خاص طریقہ کار نہیں پایا گیا۔ لیکن اتنا ضرور دیکھا کہ تلفظ کیسے کیا
جائے بتایا گیا ہے۔ذرا طمینان ہوا۔بین الاقوامی سوتی ابجد (Internal
Phonetical Alphabets - IPA) کی طرح ہم نے اپنا کوئی خاصہ طریقہ ایجاد نہیں
کیا، جو کہ سخت ضروری ہے۔ یہ ساری چیزیں رفتہ رفتہ کرلیں گے، مگر فی الفوری
طور پر اتنا تو کرلیں کہ حرف کی داستان اور اس کی تحقیق ہوجائے۔یہ سوچ لے
کر آگے برھا۔
ذہن میں کئی سوالات تھے۔ انہیں ترتیب وار رکھ کے تیار ہوا اور حرف کے
روبروبیٹھ گیا، اس ارادے کے ساتھ کہ اس کام کو سلیقے سے انجام دوں۔
آنکھوں کے سامنے لفظِ حرف،
ایسا لگا کہ کوئی بزرگ ہستی آسان کرسی پر تشریف فرما ہے۔
میں : (سلام کیا) السلام علیکم جناب۔
جنابِ حرف : وعلیکم السلام، کون ہو برخوردار؟
میں : جی میں ایک طالب علم ہوں، اور میری خواہش ہے کہ آپ کے متعلق کچھ
معلومات حاصل کروں۔
جنابِ حرف : اچھا۔ نیک فعال ہے۔ چلو اچھا ہوا، اردو والے سرما خوابی سے
جاگے تو ہیں۔ ورنہ میں یہی سمجھ رہا تھا کہ انگریزی ہوائیں ہمیں اور ہمارے
وجود کو مسمار کردیں گی۔ تم کو دیکھ کر ایک امید کی کرن جاگی ہے۔ ویسے ہم
بھی سرما خوابی میں تھے۔ ہمیں بھی کوئی جگانے والا جو نہیں تھا۔ خیر۔ پوچھو
، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟
میں : جناب ، ذرا آپ کا تعارف آپ ہی کی زبانی ہوتو اچھا ہے، دیگر سوالات کا
سلسلہ آپ کی اجازت سے جاری رہے گا۔
جنابِ حرف : (مسکراتے ہوئے) ویسے میاں ہمیں بھی بڑا اشتیاق تھا کہ کوئی ہم
سے گفتگو کرے، ہمارے احوال پوچھے، ہماری تاریخ جاننے کی کوشش کرے۔ صرف میں
ہماری حقیقت و حیثیت جانیں۔ امثال و محاوروں سے روشناس ہوں۔ آج ہم بہت خوش
ہیں۔ ہمارا تعارف کچھ یوں ہے۔
٭٭ میرا نام حرف ہے۔
٭٭ میرا تلفظ ’’ حَرف ‘‘ ہے۔
٭٭ میرا جنس مذکر ہے۔
میں : جی اچھا، آپ کس زبان سے ماخذ ہیں؟
جنابِ حرف : میں عربی زبان سے ماخذ ہوں۔
میں : آپ کے خاص اور عام معنی کیا ہیں؟
جنابِ حرف : میرے خاص معنی؛ وہ نشان جو آواز کو ظاہر کرتا ہے۔وہ لفظ جس کے
معنی بغیر دوسرے لفظ کے سمجھ میں نہ آئیں۔ عام معنی: لفظ، کلمہ، بات، سخن۔
کنارہ۔ سرا۔ پہاڑ کا بالائی حصہ۔ چٹان۔ چوٹی۔
میں : کچھ اور معنی ہوں تو بتائیے۔
جنابِ حرف : کچھ اور بھی معنی ہیں؛ قلم کا سرا جس میں ٹیڑھا قط ہو۔ ٹیڑھا
لکھنا۔ نقص۔ عیب۔ الزام۔ حیف۔ افسوس۔ طنز۔
میں : آپ واحد ہیں کہ جمع، اور دوسری صورت کیا ہے؟
جنابِ حرف : میں واحد ہوں۔ میری صورتِ جمع حروف ہے۔ حرفات بھی ہوا کرتی تھی
مگر آج مروج نہیں ہے۔
میں : جنابِ حرف، ذرا یہ بتاتے چلئے کہ حرفِ تہجی کیا ہے۔
جنابِ حرف : حرفِ تہجی رسم الخط اور صرف کے دائرے کے ہیں۔ کسی بھی زبان کے
ابجد یا الفابیٹ کو حرف تہجی کہہ سکتے ہیں۔ اردو کے حرفِ تہجی الف ب پ ت
وغیرہ۔ یعنی رسم الخط کے حروف۔
میں : بہت اچھے، ایک نہایت دلچسپ اور معلوماتی موضوع کی طرف لے جائیے، صرف
(Grammar) یا قواعد میں آپ کے خواص، نوعیت، استعمالات اور دیگر اہم باتیں
بتا کر ہمیں سرفراز فرمائیے۔
جنابِ حرف : ہا ہا ہا (ہنستے ہوئے) ، یہ وہ موضوع ہے جسے دھیان سے بولنا
بھی پڑے گا اور سننا بھی۔ میں تو اس کے لیے تیار ہوں۔ کیا تم تیار ہو؟
میں : جی بالکل، میں تو شوق سے تیار ہوں، آپ فرماتے جائیں۔
جنابِ حرف : تو سنو ۔ صرف یعنی صرف و نحو میں میرے کردار کچھ یوں ہیں؛
٭ حرف استثنا (صرف) : وہ حرف جو استثنا کا فائدہ دے۔ جیسے؛ لیکن۔مگر۔
٭ حرفِ استدراک: وہ حرف جو جواب کے لیے استعمال ہو۔
٭ حرفِ استفہام (صرف) : وہ حرف جو سوال کے لیے استعمال ہو۔
٭ حرفِ ربط (صرف) : وہ حرف جو فعل کو اسم کے ساتھ ملائے جیسے ؛ اور۔ یا۔
٭ حرفِ ساکن (صرف) : وہ حرف جس پر جزم ہو۔
٭ حرفِ صحیح (صرف): سوائے ا۔و۔اور ’ے‘ کے تمام حروف تہجی۔
٭ حرفِ عطف (صرف): وہ حرف جس سے ایک چیز کا حکم دوسری چیز پر پھیرا جاتا
ہے۔ پھر بھی۔ نیز اور۔
٭ حرفِ علت (صرف) : الف۔و۔اور یائے۔
٭ حرفِ متحرک (صرف): وہ حرف جس پر اعراب ہوں۔
٭ حرفِ غیر متحرک (صرف) : وہ حرف جس پر اعراب نہ ہوں۔
٭ حرفِ مجہول (صرف) : واؤ اور یے۔
٭ حرفِ مسروق (صرف) : وہ حرف جو لکھا جائے بولا نہ جائے۔
٭ حرفِ معروف (صرف) : و اور ی۔ جب کھینچ کر پڑھے جائیں۔
٭ حرفِ معنوی (صرف) : وہ حرف جو صرف ربط کے لیے آئے۔
٭ حرفِ ندا (صرف) : وہ حرف جو بلانے کے لیے استعمال ہو۔ اے۔ او۔
٭ حرفِ ندبہ (صرف) : وہ حرف جو افسوس کے لیے استعمال ہو۔ ہائے۔وائے۔ آہ۔
وغیرہ۔
٭ حرفِ نفی (صرف) : وہ حرف جو انکار کے لیے استعمال ہو۔ نہ۔ نہیں۔
میں : نہایت ہی خوب جناب۔ کچھ اور صورتیں بتلائیے۔
جنابِ حرف : شکریہ، یہ سنو، بی الترتیب اشکال صفات، لازم اور دیگر امثال
کچھ یوں ہیں۔ ویسے ان کی جانکاری اتنی اہم نہیں ہے مگر جان کر رکھ لو۔ ا ن
کو بشکل معنی و امثال استعمال کیا جاسکتا ہے۔
٭ حرف آشنا (صفت): مبتدی، نو آموز۔ وہ شخص جو تھوڑا سا پڑھ سکے۔
٭ حرفاََ حرفاََ (صفت) : ایک ایک حرف کرکے
٭ حرف انداز(صفت) : فریبی، مکار، چالاک۔
٭ حرف اندازی (مونث) : چالاکی، مکاری۔
٭ حرف زن (صفت) : بولنے والا، باتیں کرنے والا۔ آواز دار۔ صوتی۔
٭ حرف زنی (مونث) : باتیں کرنا۔
٭ حرف گیر (صفت) : نکتہ چیں۔ عیب جو۔
٭ حرف شناس (صفت) : مبتدی۔ نو آموز۔
٭ حرف آنا (لازم): الزام آنا، عیب لگنا، حرف شناسی ہونا۔
٭ حرف اٹھنا (لازم) : پڑھا جانا۔ پڑھنے میں آنا۔
٭ حرف حرف نوکِ زباں ہونا(لازم) : پڑھا ہوایاد ہونا۔
٭ حرف و سخن (مذکر) : گفتگو۔ بات چیت۔
٭ حرف اڑانا (متعدی) حرف اُڑ جانا (لازم): حرف مٹنا
میں : بہت شاندار جناب۔ ذرا یہ بھی بتاتے چلئے کہ آپ کی جمع کی صورت یعنی
حروف کی بھی صورتوں پر بھی ذرا روشنی ڈالیے۔
جنابِ حرف : واہ، نہایت سنجیدہ موضوع ہے یہ۔ سنو؛
حَرف کی جمع حروف ہے۔
اس کا تلفظ حُرُوف ہے۔
اس کی قسمیں کچھ یوں ہیں؛
٭ حروفِ مغیّرہ (مذکر) : وہ حُروف جن کے پہلے اسماء اور صفات میں امالہ
واقع ہوجاتا ہے۔ جیسے، کا۔ کے۔ نے۔ میں۔ وغیرہ۔
٭ حروف مقطعات (مذکر) : وہ حروف جو قرآن شریف کی بعض سورتوں کے شرعو میں
آتے ہیں اور جن کے معنی کسی کو معلوم نہیں جیسے الم، حٰم، یس وغیرہ۔
٭ حروف ہجا (مذکر) : الف ۔ ب۔ کو حروفِ ہجا کہتے ہیں۔
میں : بہت ہی عمدہ معلومات جناب۔ بہت بہت شکریہ آپ کا۔
جنابِ حرف : کوئی بات نہیں برخوردار، سوشل میڈیا سے کچھ تو فائدہ ہورہا ہے۔
اردو والے بھی متحرک ہورہے ہیں۔ یہ ایک اچھی علامت ہے۔ مجھے پورا یقین ہے
کہ اردو کے سچے دوست و عاشق اردو کی فضا کو پراگندہ ہونے نہیں دیں گے۔ بی
الخصوص ایک سچی بات یہ بھی ہے کہ جیسے سچا مسلمان غریبوں میں دیکھا گیا،
ٹھیک اسی طرح اردو کا عاشق بھی یاتو غریبوں میں یا پھر چھوٹے چھوٹے اداروں
میں دیکھا گیا۔ بڑے اداروں سے اردو کے فروغ کی کوئی توقع نہیں، اردو کے نام
نہاد ادارے اور اشخاص، اردو کے منڈوے میں اپنی شادی کرکے چلے جاتے ہیں۔ خیر
ان تمام کی خدمت میں میرا آداب ضرور سناؤ جو اردو کے ورثہ کی بقا کے لیے بے
لوث اور ان تھک کام کرتے رہتے ہیں۔ میرا جی
چاہتا ہے کہ ان احباب کا بھی شکریہ ادا کروں جو میرے متعلق اتنی دلچسپی
رکھتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں۔
ایک شعر سنو اور اردو والوں کو بھی ضرور سناؤ۔
میں وہ نرگس نہیں جو اپنی بے نوری پہ روتی ہے
مجھے ہے فخر کہ ہر سو ہوئے ہیں دیدہ ور پیدا
میں : نہایت ہی عمدہ شعر جناب میں ضرور گوشۂ اردو کے ہر فرد کو یہ بات
سناؤں گا۔
جنابِ حرف : ویسے میں نے شعر اس لیے پیش کیا کہ اردو والے شاعری اور اشعار
کی بخار میں مبتلا ہیں۔ جب تک ان کو شاعری کا بخار رہے گا، شاعری ہی کی
زبان سمجھ میں آئے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نثر کا ورثہ موثر اور کار آمد
رہتا ہے۔ اس کا شعور اردو والوں کو جب تک نہ آئے گا، اردو لنگڑتی ہی رہے
گی۔ خیر۔۔۔۔۔ چلو کچھ اچھی امیدیں بھی کرتے ہیں۔
میں : آپ کی یہ بات بھی درست ہے جناب۔ امید کہ آپ کے خواب بھی تعبیری شکل
پائیں گے۔ خدا حافظ۔
٭٭٭٭٭ |
|