یہ ملک آزاد تو ہوگیا مگر؟؟؟
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
15 اگست 1947کو ہمارا ملک ہندوستان
انگریزوں کی سامراجی حکومت سے آزادتوہوگیا، اس کی گود ان کے ناپاک وجود سے
پاک تو ہوگئی اور اس کے سپوتوں نے تو اپنے خونِ جگر سے اس کی رعنائی اور
دلکشی کو جلا بخش دیا، مگر جن للچائی ہوئی نگاہوں سے انگریزوں نے ہماری اس
سرزمین کی طرف دیکھا تھا، صدافسوس کہ آج کا ہمارا یہ ہندوستان ان کی اس نظرِ
بد سے محفوظ نہ رہ سکا، جو آگ ان لوگوں نے دہکائی تھی 69سال بعداب وہ شعلۂ
جوالہ کی طرح اس ملک کو اور اس میں بس رہے سادہ لوح انسانوں کو خاکستر
کردینے کے فراق میں ہے،ان تن کے گورے اورمن کے کالے انگریزوں نے بھولے
بھالے سادہ لوح ہندوستانیوں کے سامنے جو ذات ،پات اور مذہب کا کارڈ کھیلا
تھا، آج بھی اس کا بازار گرم ہے، جس قوم کو غلام بنانے کے لیے ان لوگوں نے
سر دھر کی بازی لگائی تھی، آج بھی اسی کو غلام بنانے کی مکمل کوششیں چل رہی
ہیں،جس طرح ان بد بختوں نے برقِ بے اماں ہمار ے نخلِ تمنا پر گرائی تھی، آج
بھی ان کے پروردہ اپنی گھن گرج سے ہماری قوتِ سماع کو پھاڑدینے کی ناکام
کوششیں کررہے ہیں اور ’’پھوٹ ڈالو حکومت کرو‘‘ کی جوصدا انہوں نے بلند کی
تھی، آج ان کے نمک خوار اسی آواز کی اور لپک پڑے ہیں۔ اور اس حقیقت سے کسی
کو مجالِ انکار نہیں کہ جنگِ آزادی میں ان انگریزوں نے مسلمانوں کو کتنا
نشانہ بنایا اور مسلمان کتنا زیادہ ان کے ہدف اور شکار بنے اور یہ بات ظاہر
بھی ہے کہ انگریزوں کی ہندوستان میں آمد سے پہلے یہاں مسلمان حکمراں تھے
اور جب کوئی ڈاکو کسی کے گھر پر ڈاکہ ڈالتا ہے، تو سب سے پہلے اہلِ خانہ ہی
اس کے ہدف بنتے ہیں اور وہی خود پہلے دفاع بھی کرتے ہیں ، بعد میں جاکر
کوئی پڑوسی آتاہے، اسی طرح جنگِ آزادی میں بھی پہلے مسلمان ان کے ہدف بنے
اور انہوں نے ہی سب سے پہلے ان کا دفاع کیا، اگر ہمارے کچھ لوگ غداری نہیں
کرتے ،تو ہم 15اگست کے بجائے کسی اور تاریخ کو یومِ ٓآزادی مناتے، بہرکیف
جب مسلمان ان کے سامنے صف آرا ہوگئے اور انہیں ہر طرف سے اپنی ناکامی ہی
نظر آئی، تو انہوں نے ہم ہی میں سے کچھ لوگوں کو خریدنا شروع کردیا ، ہندو
کو مسلمان کے خلاف بھڑکایا اور مسلمانوں کو پیسے اور عہدے کا لالچ دیا اور
ہندوستان کے خودساختہ حکمراں بن بیٹھے، تب جاکر وطنِ عزیز کی آزادی کی خاطر
سب کے سب ذات پات اور مذہب کو بالائے طاق رکھ کر انگریزوں کے خلاف متحد
ہوگئے، جب انگریزوں کی اپنی ناکامی صاف نظر آنے لگی، تو ان بد بختوں نے
ہماری جمعیت کو منتشر کرنے کے لیے ہمارے سامنے ایک ایسی جماعت کو
لاکھڑاکردیا جوبظاہر وطن پرستی کا مدعی ہو اور درپردہ انگریزوں کے خواب کی
تعبیر، یعنی ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت اور یہاں سے اسلام اور
مسلمانوں کا خاتمہ، پھر کیا تھا اس جماعت نے رفتہ رفتہ ہندوستان میں اپنا
قدم جمانا شروع کردیا اور پھران کے اشاروں پر ملک کو فرقہ وارانہ فساد کی
آگ میں جھونک دیا، پھر یہی بادِ مخالف مسلسل مسلمانوں پر قہر برساتی رہیِ،
ان کے گھروں کو اجاڑتی رہی، اور ان کی عفت وعصمت کو تار تار کرتی رہی اور
ہنوز یہ سلسلہ اسی شدو مد کے ساتھ جاری ہے، تاریخ شاہد ہے کہ اس سرزمین پر
مسلمانوں کااتنا خون بہا ہے اور اس قدر ان پر ظلم وستم ڈھایا گیا ہے، کہ آج
بھی یہ غریب امت اس کی کسک محسوس کررہی ہے، آزادی کے بعد سے اگر صرف ان
فسادات کی بات کی جائے جن سے اخبارورسائل کی شہ سرخیاں سرخ ہوگئیں اور
انسانیت کے دل دہل گئے،تو ان میں سے ایک فساد ماہِ اکتوبر1946 میں بہار میں
برپاکیا جاتا ہے، اس میں آٹھ ہزار سے زائد مسلمان قتل کیے گئے، 1964کا فساد
بھی کیا ہی دل دوز تھا جس کی تپش نے کلکتہ، جمشید پور اور راول قلعہ کو
جھلسادیا، اس میں ہزاروں مسلمان تہہ تیغ کیے گئے، سیکڑوں زخمی ہوئے اور ستر
ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہوئے تھے،1969میں احمد آبادگجرات کا پہلا فساد ہوا،
جس میں ہزارو ں لوگ مارے گئے ،1980 میں مراداباد فساد ہوا، جس کی زد میں
تین سے چارہزار کے درمیان مسلمان آئے، سرکاری تحقیقات کے مطابق اس میں
مقتول مسلمانوں کی تعداد 6سو تھی ،جو غلط ہے اور حقیقت سے پردہ پوشی کی گئی
ہے ،کیونکہ اسی فساد کے حوالہ سے دوسری تحقیقی ایجنسیاں اور عام لوگوں کی
رائے یہ ہے کہ اس میں تقریبا تین سے چار ہزار اموات ہوئی تھیں، 1983میں
نیلی آسام میں انگریز کے ان پٹھوؤں نے تباہی مچائی تھی،جس میں18ہزار سے
زائدمسلمان قتل کیے گئے، اس میں جو اموات ہوئیں اور مسلمانوں پر جو قہر
ڈھایا گیا، اس بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعدسب سے
زیادہ اس میں انسانیت کا قتلِ عام ہواتھا،جس میں زیادہ تر عورتیں اور معصوم
بچے تھے، 1989میں بھاگلپور فساد ہوا،اس میں ہزار سے زائد اموات
ہوئیں،1992میں بمبئی کا فسادہوا ،اس میں ہزاروں جان ضائع ہوئیں، 2002 میں
گجرات کاوہ دل دوز اور انسانیت سوز فساد جو مودی جی کے دورِ حکومت میں ہوا،
جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مارے اور کاٹے گئے، ہزاروں کو زندہ جلایا
گیا، سیکڑوں لڑکیوں کے گوہر عصمت کوتار تار کیا گیا اور کئی حاملہ عورتوں
کے پیٹ کو چاک کرکے جنین کو نیزہ کی انیوں پر اچھالا گیا،اس فساد کو
ہندوستانی تاریخ کا سب سے غیر فطری اور انسان مخالف فساد کہا گیا ہے اور
ابھی دوسال قبل2013 میں مظفر نگر فساد بھی انتہائی توجہ کا حامل ہے، اس میں
بھی سیکڑوں مسلمان بے گھر ہوئے اور ہزاروں قتل کیے گئے۔ ہندوستانی تاریخ
میں یہ وہ فسادات ہیں جن کے ظلم وستم اور قہرمانیت کو تاریخ نے اپنے دامن
میں محفوظ کرلیا ہے، حالانکہ آزادی کے بعد ان کے علاوہ بھی اتنے سارے
فسادات ہوئے ہیں،کہ اگر ان تمام کی تاریخ لکھی جائے تو شاید آزادی کے بعد
سے آج تک کی تاریخ اور دن میں کوئی دن اورکوئی تاریخ ایسی نہیں ہوگی ،جس
میں کوئی نہ کوئی فرقہ وارانہ فساد نہ ہوا ہو، یہ تو سوچی سمجھی سیاست ہے
کہ کس طرح سے ہندوستان سے مسلمانوں کا خاتمہ کیا جائے، مغلیہ سلطنت کے زوال
کے بعدانگریزوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھایا اور ہندوستان سے اسلام کو مٹانے
کی ناپاک کوشش کی اور اپنی ناکامی کا بدلہ ہم سے اس طرح لیا کہ ہم ہی میں
سے چند ایسے ضمیر اور وطن فروشوں کو خرید لیا جو ہر دم اس ملک میں ان کے
مشن کو زندہ رکھیں، جس کے با وصف آج پھر سے ہمارا ملک ہندوستان غلامی کے
کگار پر پہنچتا جارہا، جس ملک کو ہمارے پرکھوں نے اپنے لہو سے سینچا تھا،
آج اسی کو ان کے بعض نا خلف غلامی کی زنجیر میں جکڑنے پر آمادہ ہیں۔ وہ کون
لوگ ہیں جن کو انگریزوں نے اس گلستانِ بہاراں کو خراباں کرنے کی ذمہ داری
دی تھی، تویہ بات بھی کسی پر مخفی نہیں ہے کہ اس ملک کی آزادی سے تقریبا 22
سال قبل یعنی 1925میں اس کی کوکھ میں اس کپوت کاجنم ہوتا ہے اور اپنی یومِ
پیدائش ہی سے دیمک کی طرح اس کی جڑ کو کھانے لگتا ہے،چنانچہ ادھر ہندوستان
میں مجاہدینِ آزادی کسی بھی قیمت پر ہندوستان کو غلامی کی زنجیر سے آزاد
کرانا چاہتے تھے،تو اُدھر وہ ملک کو غلامی ہی کی طرف دھکیلنے کا کام انجام
دے رہے تھے، آپ تاریخ کا ورق ورق گردان جایئے ،اگر میری بات غلط ثابت ہوئی،
تو مجھے جو چاہیں سزا دیجیے،کہ ان میں سے کسی نے بھی اس دیش کی آزادی کی
خاطر اپنا خون بہایا ہو، ملک کی خاطر اپنی گردن کٹانا تو دور کی بات جس
باپو نے اس دیش کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ وقف کردیاتھا، ان لوگوں نے
انہی کو قتل کردیا، کچھ دنوں تک یہ گاندھی کے قاتل، ملک کے سوداگر اور
انگریزوں کے نمک خوار ملک میں جگہ جگہ لوگوں کو مذہب کی آڑ میں ایک دوسرے
کے بالمقابل صف آرا کرتے رہے اور جب ان کی صفیں مضبوط ہوگئیں، تو آج ہمارا
ملک ان کے رحم وکرم پہ ہے،کل تک جو اس جماعت کے کارندے تھے ،افسوس کہ آج وہ
اس ملک کے حکمراں بن بیٹھے ہیں،جس کا خمیاز اس ملک کے ساتھ یہاں کے باشندے
کو بھی بھگتنا پڑے گا، خواہ وہ ہندو ہی کیوں نہ ہوں ،یہ سبھوں کے گلے میں
غلامی کا طوق ڈال کر اپنے آقاؤں سے واہ واہی حاصل کریں گے ، کیونکہ پانی کا
جب سیلاب آتا ہے، تو نشیب وفراز ہر جگہ کو پرُ کردیتا ہے، اس وقت ساری
بستیاں ایک ہی نظر آتی ہیں، نہ کسی کھیت کا پتہ چلتا ہے ا ور نہ کسی کھلیان
کا، سب کے سب پانی کے تلے اس ک کے سوکھ جانے کا انتظارکرتے ر ہتے ہیں، ہر
سال کی طرح اس سال بھی لال قلعہ کو دلہن بنایا جائیگا،اسٹیج سجایا جائے گا،
وطن پرستی کے گیت گائے جائیں گ، مگر افسوس کہ وہ زبان اور وہ آواز نہیں
ہوگی جو کبھی مولانا ابولکلامؒ آزاد نے دہلی کی جامع مسجد سے بلند کی تھی...........اللہ
رے سناٹا آواز نہیں آتی!!! |
|