قانون کے ادنی ٰ سے ادنیٰ طالب علم کے لیے
یہ بات بہت اہم ہے کہ قانون کی بالادستی کے بغیر سب کچھ فضول ہے۔ تمام
مکاتب فکر اِس بات پر متفق ہیں کہ نبی پاک ﷺ کے گستاخ کی سزا صرف اُسکا سر
تن سے سزا ہے۔ بخاری کی حدیث ہے کہ اﷲ پاک نے نبی پاکﷺ کو اُس وقت نبوت پر
سرفراز فرمایا تھا جب آدم کی تخلیق ہی نہیں ہوئی تھی اسلامی معاشرئے کے لیے
خدا اور اُسکا رسولﷺ ہی سب کچھ ہیں۔ ممتاز قادریؒ کی شہادت کے حوالے سے
غازی علم دین شھیدؒ کے وقت جو جذبہِ ایمانی مسلمانوں میں عود آیا تھا وہی
سب کچھ اب دیکھنے میں آیا۔نواز شریف حکومت نے شائد تاریخ کی سب سے بڑی غلطی
کی ہے کہ غازی علم دین شھیدؒ کے وقت انگریز سامراج کی حکومت کی یاد دلا دی۔
اُس وقت توہینِ رسالت کا قانون نہ تھا۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے لاہور
ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑا۔مقدمے میں حضرت اقبالؒ پیش پیش تھے۔ اب ذراآج کے
دور کے حالات ملک پاکستان توہین رسالت کا قانون موجود۔حکومت مسلمان
حکمرانوں کی۔ لیکن پنجاب کے آئینی سربراہ گورنر تاثیر کے الفاظ کیا تھے کہ
یہ کالا قانون ہے۔ توہین رسالت کی مرتکب آسیہ کو سیشن جج نے پھانسی کی سزا
دی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑئے آئینی صوبے کے آئینی سربراہ
گورنر پنجاب نے جیل میں جاکر ملزمہ کو ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کی کہ وہ
صدر زرداری کو کہہ کر اِس کی سزا معاف کروایں گے۔کئی دن گزر گئے لیکن سلمان
تاثیر کی جانب سے کہے گئے کہ الفاط کے حوالے کوئی حکومتی پیش رفت دیکھنے
میں نہ آئی۔ اِس طرح سرعام نبی پاکﷺ کی حرمت کے قانون کے حوالے سے توہین
آمیز الفاظ کہنا اور حکومت وقت کا اپنے رنگ رنگیلے شراب وکباب کے دلدادہ
قران کی عظمت رسولﷺ کی عظمت کے انکاری گورنر پنجاب کی باز پرس نہ کرنا اور
یتیم عدلیہ جو کہ اُس وقت سو موٹو کی ماہر تھی اُس کی جانب سے کوئی ایکشن
نہ لینا۔اِس بات کا مظہر ہے کہ نبی پاکﷺ کی عزت و ناموس کو اسلامی جمہوریہ
پاکستان کی اُس وقت کی زرداری حکومت کو کوئی پرواہ نہ تھی۔ اِن حالات میں
پھر کسی فاقہ مست نے تو میدان عمل میں کودنا ہی تھا۔ عشق انسان کو پاگل
نہیں ہونے دیتا۔ یوں محبتِ رسولﷺ کی لگن نے ممتاز قادریؒ کو نبی پاکﷺ کے
دُشمن کو جہنم رسید کرنے پر اُبھارا۔ جوائنٹ انوسٹی گیشن کی رپورٹ بھی یہی
ہے کہ محرک صرف یہ ہی تھا کہ تاثیر نے ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے توہین
آمیز گفتگو کی تھی۔یہ ہی بات غازی علم دین شھیدؒ کی اپیل کے فیصلے میں لکھی
گئی تھی کہ علم دین ؒنے یہ کام اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ نبی پاکﷺ کی عزت
و ناموس کی خاطر کیا ہے۔ اقبالؒ کو نبی پاک ﷺ سے جتنی محبت اور عشق ہے اِس
کا اندازہ غازی علم دین شھیدؒ کے مقدمے کی پیروی اور پھر غازی علم دین
شھیدؒ کی تدفین کے حوالے سے اُن کی تڑپ، محبت عشق اور احترام پر رشک کیا
جاسکتا ہے۔ممتاز قادی شھیدؒ کی شہادت نے پوری اُمت کو غازی علم دین شھیدؒ
کے پیغام کی یاد تازہ کروائی ہے۔ اُن کی شہادت نے نام نہاد مولانا طاہر
اشرفی اور نام نہاد مولانا شیرانی کے چہروں کو بے نقاب کیا ہے۔ اِس کے ساتھ
ساتھ طاہر القادری کا موقف یقینی طور پر اُمتِ مسلمہ کے لیے قابل قبول نہیں
ہے۔ جس جس شخص کو حکومت میں آنے کی جلدی ہے جس میں عمران خان بھی شامل ہیں
اُس اُس نے قادری کی پھانسی کو درست قرار دیا ہے۔ جب دنیاوی معاملات میں یہ
عدالتیں فیصلہ کتے ہیں جن میں اِن کے لوٹ کھسوٹ کے پروگراموں پر زد پڑئے تو
پھر یہ عدالتیں غلط اور اگر نبی پاکﷺ کی حرمت کی بات ہو تو پھر اِن عدالتوں
کو درست گردانا جاتا ہے۔جب دھرتی کو ماں کہا جاسکتا ہے ۔جب وطن کو ایمان کا
حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب مادر وطن یعنی زمین کا ٹکرا حاصل کرنے کے لیے
لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا جا ستا ہے۔حتیٰ کہ انسان اپنی ماں باپ کی
توہین برداشت نہیں کرپاتاتو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ 1.6 بلین مسلمانوں کے
پیغمبرِاعظم و آخر جو وجہ تخلیقِ کائینات ہیں اور مسلمانو کی آن سے محبت
اپنے مال و جان سے بڑھ کر ہیاُن کی شان میں گستاخی کو برداشت کیا جا سکے۔یہ
ایک اٹل حقیقت ہے کہ مسلما نانِ عالم کی انفرادی و اجتماعی عقیدتوں کا
مرکزومحور نبی پاکﷺ کی ذات پاک ہے۔موجودہ حالات میں جبکہ عراق ، افغانستان،
کشمیر اور پاکستان میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔روش کی شکست
و ریخت کے بعد امریکہ علاقے کا تھانیدار بن کر ہر ملک کو تنگ کررہا ہے اور
خونِ مسلمان سے اپنی پیاس بجھارہا ہے۔مسلمانوں کی روح اور دلوں کو زخمی
کرنے کے لیے ہر دوسرے چوتھے مہینے نبی پاکﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرکے
امریکہ اور اُس کے حواری اس امر کو آزادیِ رائے کا نام دیتے ہیں۔کیا یہ حق
کسی بھی انسان کو آزادی رائے کے نام پر دیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی مذہب کے
بانی کے خلاف ہرز ہ رسائی کی جا سکے۔نبی پاکﷺ کی سیرتِ مطہرہ کا ایک ایک
پہلو دُنیا بھر کے انسانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے تاریخِ عالم اِس بات کو
کبھی جھٹلا سکتی کے کبھی مسلمانوں نے کسی بھی مذہب کے پیغمبر کے خلاف کوئی
بھی بات کی ہو۔ کیونکہ تمام انبیااکرامؑ پر ایمان لانا مسلمانوں کے عقیدے
کا حصہ ہے۔مسلمانو ں کی طرف سے کسی بھی مذہب کے بانی کا تمسخر نہیں اُڑایا
جاتا۔لیکن پھر کیوں یہودی لابی امریکی پادریوں کے ذریعے شانِ رسالت میں
کرواتی ہے۔اسکا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کے دل سے عشق رسولﷺ نکالا جا
سکے کعونکہ جب عشقِ رسولﷺ ہی نہ ہوگا تو پھر مسلمانیت کیسے برقرار رہ سکے
گی۔بقول حضرتِ علامہ اقبالؒ ہر مسلمان کے اندر روح محمد ﷺہے۔ امریکہ
اسرائیل روح محمدﷺ مسلمانوں کے اندر سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔علامی امن کے
حوالے سے امریکہ اسرائیل ،انڈیا کا کردار انتہائی شرمناک ہے۔ مسلمانوں کو
پوری دُنیا میں میڈیا کے زور پر دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔یہ
امریکی و اسرائیلی حربے امریکہ و یورپ میں اشاعتِ اسلام کے خوف سے ہیں۔لیکن
ہمارا عقیدہ ہے کی رب پاک نے نبی پاکﷺ کے ذکر کو بلند فرمادیا ہے۔یہ ذکر
کسی کا پابند نہیں ہے کیونکہ رب پاک خود اور اُسکے مقرب فرشتے نبی پاک ﷺ پر
درود بھیجتے ہیں۔کفار عشقِ نبی پاکﷺ کی لو سے خوفزہ ہیں اور روح محمد
مسلمانوں کے اندر سے نکالنے کے لیے دن رات سازشوں میں مصروف ہیں۔ان حالات
میں مسلم دنیا کے حکمرانوں کا کردار انتہا ئی شرمناک ہے۔مسلمان حکمران اپنی
حکمرانیکو بچانے کا سودکرکے خود کو امریکہ کے پاس گروی رکھ کر چکے ہیں۔ جب
مسلم ریاستیں اپنی عوام کو بے یا رومددگار چھوڑ دیں تو پھر ناموس رسالت کی
طرف اُٹھنے والی تنقیدی روش کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔ مسلم دُنیا کی بزدلی نے
اب یہ دن دکھا دیئے ہیں کہ آئے روز نبی پاکﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی
مذموم حرکات ہو رہی ہیں۔اب مسلم قوم کو پھر سے کسی صلاح الدین ایوبیؒ کا
انتظار ہے۔اب کسی غازی علم دین شھیدؒ کی آمدکی ضرورت ہے۔ مُسلمان دُنیا کے
حکمران 1.6 بلین مسلم قوم کی ترجمانی کی بجائے امریکی وفاداری کو اپنائے
ہوئے ہیں۔ان حالت میں ضرورت اس امر کی ہے کسی بھی نبی کی شان میں گستاخی کو
عالمی قانون کے ذریعے قابلِ گر فت قرار دیا جائے جو بھی بدبخت ہمارے آقا
نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہو اُس کی سزا حضرت عمرؓ کی عدالت کے
مطابق اُس کا سر تن سے جدا ہو۔ |