قلب پر کچھ گرانی سی ہے دل بوجھل سا ہوا جا
رہا ہے بہت سی خبریں ذہن میں گردش کرہی ہیں ہر ایک اس بات کا تقاضا کرتی ہے
کہ اسے اہمیت دی جائے ،اس پر ورق گردانی کی جائے ۔اسے دل سے اتار کر زینت
قرطاس بنایا جائے ،تبلیغی جماعت پر پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پابندی بھی
ذہن پر بجلی بن کرکے گذری ،یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ تعلیمی معاملہ ہے
شاید ان کی کچھ مجبوریاں ہوں گی وگرنہ پورے ملک بلکہ دنیا بھر میں شاید اکا
دکا جگہ ان پر پابندی ہواس خیال سے ابھی نکلے نہ تھے کہ اکثریتی صوبے پنجاب
کے نمائندہ ایوان میں ’’مرد ممبران‘‘کی موجودگی میں ایک قانون پاس کیا گیا،
بلکہ اچھے خاصے نمبروں کے ساتھ اسے پذیرائی ہوئی اس سے بڑھ کر اگر کہا جائے
تو بے جا نہ ہوگا کہ سیکولر لابی قانون کی منظوری کے بعد پھولے نہ سماررہی
تھی ،عورتوں اور خواتین کے حقوق کے لیے آوازاٹھا اٹھا کر ان کے حلق خشک ہو
گئے تھے ۔یوں بقول مولانا فضل الرحمان ’’زن مریدوں ‘‘کے مرکز سے محبت میں
مبتلااشخاص کے لیے قانون کی منظوری نے ان کے لیے اہم سنگ میل عبور کر لیا
ہے ،اب ’’قانون ‘‘سے سہمے افراد پنجاب سے ہجرت کر کے دوسرے صوبوں کا رخ
کریں اور’’ زن مرید‘‘ پنجاب میں آشیانہ بنائیں ،اور تو اور اب ہر عورت کی
خواہش ہوگی کہ اس کا داماد جہاں اور بہت سی خوبیوں کا حامل ہو وہاں وہ
پنجاب کی شہریت بھی رکھتا ہو تاکہ موجودہ بل کی منظوری کے بعد اس کی بیٹی
بلاشرکت غیرے گھرکی مالکن ہو اسے کوئی پوچھنا والا نہ ہو ۔اب تو اخبا ر’’
میرج بیورو ‘‘ کے اشتہارات میں اس اشتہار کا اضافہ ہوگا۔لڑکی عمر قریب بیس
سال قوم راجپوت کنواری تعلیم ایم ایس سی کو ان پڑہ پنجاب سے تعلق رکھنے
والے ایسے شریف لڑکے کا رشتہ درکار ہے جو دو دن تک اپنے ہاتھ پر ’’مانیٹرگ
کڑا‘‘ پہن کر گھر سے باہر رہ سکتا ہو ، ذات پات کی کوئی قید نہیں ۔میرج
بیورو اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے پیشگی معذرت ۔ہے نا
عجیب سی بات ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے’’ سائیڈ افیکٹس‘‘ بھی آنے شروع
ہوں گے ۔جو عورت دو دن تک مرد کو گھرسے باہر رکھے گی اس کا اگلا ٹھکانہ
کدھرہوگا ،خاندانی نظام تباہ ہوگا ،طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگا قانون ساز
اس بارے میں بھی قانون سازی کریں ،پنچائیت اور جرگے کے فیصلوں کو نظر انداز
کر کے عورت کو مادر پدر آزاد بنایا جارہا ہے جو کسی بھی طرح مشرقی روایات
کے متحمل نہیں ۔
مرد وزن میں توازن کا نعرہ کئی عشروں پرمحیط ہے ،اب بات توازن سے نکل
کرتقابل کی حد تک آگئی ہے ،مردو زن میں اسلامی اور فطری فرق جو قدرت نے
رکھا ہم سے وہ برداشت نہ ہوا ، ارشاد باری تعالی ہے ’’مرد عورتوں کے نگران
ہیں اس وجہ سے کہ اﷲ تعالی نے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔الآیہ ‘‘چادر
اورچاردیوار ی کے تقدس کو ملحوظ رکھا جائے ،عورتیں گھر کی زینت ہیں وہ
اونچی بات بلکہ نرم بات بھی نہ کریں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے’’اے عورتو:اپنے
گھروں میں قرار پکڑو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنی زینت نہ دکھاتی
پھرو۔‘‘سورۃ الاحزاب آیت نمبر()ہم نے صنف نازک کو نہ صرف گھر سے نکالا بلکہ
اسے مرد کے شانہ بشانہ لا کھڑا کیااصل بات یہ نہیں کہ جیت سیکولر کی ہوئی
یامذہبی طبقات کی؟کون جیتا کون ہارا ،؟بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں اسلامی
خاندانی سسٹم صحیح طور پر چل رہا ہے ،مسلمانوں کا حسب نسب محفوظ ہے ،یہاں
رشتوں کا احترام موجود ہے ،چھوٹے بڑے میں تمیےز قائم ہے ،بوڑھے لوگوں کے
لیے اولڈہاؤس نہیں بلکہ ان کی دعائیں لینے کے لیے ان کا اپنا گھر ،اپنی
اولادہے ،کسی بھی غیر مسلم قوم کے پاس ایسا خاندانی سسٹم موجود نہیں ۔یہ
طبقات کی جنگ ہے ،یہ تہذیب کی جنگ ہے ،مسلمانوں کی تہذیب کو مسخ کرنے کی
کوششیں کی جارہی ہے ،خواتین کے حقوق کے نام پراسلامی ممالک میں طوفا ن بد
تمیزی قائم کیا جا رہا ہے ۔عورتوں پرتیزاب پھینکنا ،ان پر تشدد کرنا کسی
طرح بھی درست نہیں ،اسلام کے ساتھ اس کا دور کا تعلق بھی نہیں ،اسلام نے
عورتوں کو حقوق دیے ،ماں ،بہن ،بیٹی ا وربیوی کے درمیاں مراتب شریعت نے
مقرر کیے، بچیوں کو زندہ درگور کرنے کرنے والی تہذیبیں آج ہمیں حقوق یاد
دلا رہی ہیں ،عورت کو نحس اور منحوس سمجھنے والے آج ہمیں درس مساوات دے رہے
ہیں ،عورت کو انسان کا درجہ بھی نہ دینے والے آج خواتین کے حقوق کے چمپین
بنے ہوئے ہیں ،عورت کو زندگی اسلام نے بخشی ،عورت کو وقار اسلام نے دیا
۔محترم وزیر اعظم پاکستان عورتوں پر تیزاب پھینکنے ان پر تشدد کے واقعات
پرمشتمل شرمین عبید کی دستاویزی فلم تو بڑے انہماک کے ساتھ دیکھتے ہیں اور
مغرب پرباور کراتے ہیں کہ ہم نے ایسے قوانین متعارف کروائے ہیں کہ اخلاقیات
کی دھجیاں بکھیر دی ہیں لیکن اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے اس پر کبھی لب
کشائی نہیں کی ،قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی جو پس زنداں ہے کے بارے میں خواتین
کے حقوق کے عالمی چمپین کیی زبانیں کیوں گنگ ہو جاتی ہیں ؟ موم بتی ما فیا
صرف اسی وقت کیوں شمعیں لے کرنکلتی ہے جب اسلام کو کوسنا ہوتا ہے مسلمانوں
کے امیج کو خراب کرنا ہوتا ہے سول سوسائٹی پر مشتمل چند نوجوان صرف اسی وقت
کیوں حرکت میں آتے ہیں جب اسلام کے مخالف کوئی پروگرام سر گرم عمل ہوتا ہے
،تیزاب پھینکنے کی خبرتو جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے ،لیکن ڈرون حملے میں
جا ن بحق ہونے والی معصوم سی گڑیا منوں مٹی تلے دب جاتی ہے ،موم بتی مافیا
لمبی تان کے سو جاتی ہے ۔فلسطین ،غزہ ،کشمیر ،شام ،عراق میں عورتوں کو کشت
و خون میں نہلا دینے والے واقعات سے کیوں صرف نظر کیا جاتا ہے ،یہ دوہرا
میار ہی دنیا میں دہشت کا ساماں پیدا کر رہا ہے ۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل کی بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والی قرارداد کو معمولی نہ سمجھا جائے ۔ عافیہ
صدیقہ کی قید بامشقت آسیہ مسیحہ کی حکومتی ایوانوں میں تمکنت ،گورنرسابق کی
مداخلت ،ماورائے آئین اوباما کا دباؤ ،آسیہ کی رہائی اورپھرسلمان تاثیر کا
قتل ،ریمنڈ ڈیوس کی با عزت رہائی اورعاشق رسول ممتاز قادری کی پھانسی
،مدارس کی رجسٹر یشن اور این جی اوز کے گماشتوں کو کھلی چھٹی ، تعلیمی
اداروں میں تبلیغی جماعت پر پابندی اور مخلوط ِرقص و سرور کی محفلوں کی سر
عام اجازت ،خلفاء راشدین کے دروس کو ہٹانے سمیت نصاب کی تبدیلی ،قادیانیوں
کی پشت پناہی ،اور۲۹۵سی کے خاتمے پر غیر معمولی دباؤکو اگر دیکھا جائے تو
یہ بات مخفی نہیں کہ تہذیب کی جنگ کا طبل بج چکا ہے ،مغربی تہذیب کے متوالے
دن رات یہ راگ الانپتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان ایک سیکولر ملک ہے اور ہاں
محترم وزیر اعظم میاں نواز شریف کا بیان بھی یاد آیا جو انہوں نے کچھ عرصہ
قبل دیا تھا ’’پاکستان ایک سیکولر ملک ہے۔‘‘اس سارے تناظر میں بات سمجھنے
کی کو شش کی جائے تو بات آسانی سے سمجھ ٓاسکتی ہے ۔واضح لکیر کھینچ دی گئی
ہے ،سیکولر ریاست ۔اسلامی ریاست ۔تہذیبی جنگ اورثقافتی یلغارکے درمیان
پھنسی عوام ،ایک طرف چھ لاکھ لاشے ،قربانیوں کا سمندر،دوسری طرف طغیان و
عصیان ،عناد اور سرکشی ،ایک طرف پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ دوسری
طرف سیکولر ازم۔ذرا سوچیےـ۔ |