کراچی پھر بول اٹھا

نہ جانے کیوں جب بھی کراچی میں امن کا قیام آنے لگتا ہے تو سکوت سمندر میں کوئی ایسا پتھر پھینک دیا جاتا ہے کہ تلاطم پیدا ہوجائے ۔ پی پی پی کے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پہلے وہ شخص تھے جس نے خفیہ جے آئی ٹی کو منظر عام پر لاکر ایک ہل چل مچا دی کہ متحدہ میں بھارتی ایجنٹ ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی فائلو ں میں لیپٹی ایم کیو ایم کے بارے میں 29 ایسے اراکین کی خفیہ جے آئی ٹی سامنے لائی گئی جس نے کراچی سپریم کورٹ کیس میں ایک ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی ساڑھے چھ گھنٹے کی تقریر براہ راست نشر کی گئی ۔ بارہ مئی کے واقعات ہوں یا کورٹ میں وکلا کے جلانے کے واقعات متحدہ کے خلاف عوام کے سامنے نت نئے انکشافات آتے رہے ۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں روکا بلکہ یہ سلسلہ لسانی فسادات کی آگ میں جھلستا رہا بے گناہ لسانیت کے نام پر جنازے اٹھتے رہے ۔ اجمل پہاڑی ، جاوید لنگڑا دیگرکا نام بھارتی ایجنٹ کے طور سپریم کورٹ میں گونجتا رہا لیکن ادارے خاموش رہے ۔ الطاف حسین فوج کے خلاف بولتے رہے یہی ایم کیو ایم کے کنوینز اور دنیا کے دو نمبر منتخب ہونے کی شہرت پانے والے خاموش رہے الطاف حسین جو کل تک ان کے بھائی تھے اب صاحب ہوگئے ،۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین تاحیات ہیں ان کے اکثر بیانات دماغ کی چولہیں ہلا دیتی ہیں کہ ایک زندہ انسان جس قسم کے بیانات دے رہا ہے، اس کا پس منظر کیا ہے۔الطاف حسین کے بیانات و تقاریر کو جدید ٹیکنالوجی کے سبب پاکستان سمیت چار براعظموں میں بھی براہ راست سنا جاتا رہاہے۔الطاف حسین جہاں زندگی کے دوسرے معاملات کو زیر بحث لاتے ہیں وہاں ان کا پسندیدہ موضوع پاکستان کی فوج اور حساس ادارے آئی ایس آئی پر کھلی تنقید بھی رہاہے۔۲۹ مئی ۲۰۱۱؁ء کے ایک خطاب میں فوج پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں۔"فوج اور آئی ایس آئی کے کچھ حصوں کوکینسر ہوگیا ہے۔"اسی طرح انھوں نے چھ ماہ قبل آرمی چیف کو ۱۴ نکات پر مبنی خط لکھا تھا اپنے ویڈیو لنک کے ذریعے نائن زیرو میں جنرل ورکر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "۱۹۹۲ ؁ء کے آپریشن پر فوج کی وضاحت قبول نہیں ہوگی کیونکہ آج بھی ایم کیو ایم کے خلاف تعصب موجود ہے "۔یہاں الطاف حسین مزید جارح ہوتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "اس آرمی میں ایسے غیرت مند جنرل پیدا ہی نہیں ہوئے جو ملک سے وڈیرانہ نظام ختم کردیتے"۔الطاف حسین اسٹیبلشمنٹ کو وارننگ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر مقابلہ کرنا ہے تو ایک بندوق ہمیں دی جائے اور ایک اپنے پاس رکھی جائے۔"یہاں تو ایسے سینکڑوں اقتباسات ہیں جو حوالے کے طور پر لائے جا سکتے ہیں لیکن تنگی داماں لکھے نہیں جا سکتے ، لیکن الطاف حسین کی تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ جب بھی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیان دیتے ہیں اس کے اگلے ہی دن معافی مانگ لیتے اور بقول ان کے "امریکا اور دیگر ممالک آئی ایس آئی اور فوج کو توڑنا چاہتے ہیں ، خفیہ ایجنسی اور فوج پر ایسی تنقید نہ کی جائے ، جس سے دشمن فائدہ اٹھائے۔"لیکن جب فوج کے خلاف بیانات دیتے ہیں تو شدت جذبات میں انتہائی سخت جملے کہتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اس سے پاکستان کی فوج اور حساس اداروں کے خلاف ان کی ہزہ سرائی سے جگ ہنسائی ہوتی ہے ، یہ بات ٹھوس اور قابل ِ توجہ سمجھی جاتی اگر الطاف حسین اپنے بیانات پر قائم رہتے لیکن بد قسمتی سے ایسا کبھی نہیں ہوا اور ہمیشہ الطاف حسین نے معافی مانگی ان کا ہمیشہ یہ کہنا رہا کہ"گذشتہ دنوں انہوں نے چند خطابات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض افراد کے بارے میں سخت جملے ادا کئے تھے جس سے ان اداروں اور ان کے بعض حکام کی دل آزاری ہوئی جس پر وہ ان سے معذرت خواہ ہیں۔"حیرت انگیز بات یہ ہے کہ الطاف حسین فوج کے خلاف بھی ہیں لیکن جب پرویز مشرف جیسے فوجی حکمران آتے ہیں تو ان کے پسندیدہ بھی بن جاتے ہیں اور وہ منظور نظر بن کر مداح سرا ہوجاتے ہیں۔برطانوی جریدے گارجین نے یہ خیال ظاہر کیا کہ" برطانیہ جو کراچی میں جاسوسی کاروائیوں میں ملوث ہے متحدہ اور الطاف حسین اس میں بھرپور تعاون کرتے ہیں جس کی وجہ سے برطانوی حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ الطاف حسین پر دہشت گردی کے الزامات سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کے ساتھ اچھے روابط رکھیں اور بھرپورتعاون کریں۔"یہ یقینی طور پر ۲۰۰۱؁ء میں الطاف حسین کی جانب سے برطانوی وزیراعظم کے نام سندھ کے شہروں اور دیہات میں جہادی عناصر پر معلومات برطانیہ کو دینے کی پیشکش کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے عمومی طور پر الطاف حسین کے سخت بیانات پر صبر و تحمل کی پالیسی اپنائی اور ہر بار الطاف حسین کی جانب سے بیانات میں الزامات پر قوت برداشت کا مظاہرہ کیا حالاں کہ بھارت میں تقریر کرتے ہوئے الظاف حسین نے قیام پاکستان کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا تھا ، اسی وقت الطاٖ ف حسین پر پابندی عائد کردینی چاہیے تھی یا ایسے بیانات اور براہ راست خطابات چلانے کیلئے ذرائع ابلاغ کو خود ایک حد مقرر کر لینی چاہیے ، لیکن بد قسمتی سے پاکستانی میڈیا بارہ مئی کے سانحے کے بعد شدید یرغمال بنا رہا حال ہی میں ایک معروف اینکر نے انکشاف کیا کہ الطاف حسین نیوز کنٹرول روم میں براہ راست فون کرکے کہتے ہیں کہ" انھیں لائیو لیا جائے"۔الطاف حسین کی جانب سے ،تضاد بیانات کا سلسلہ اپنی جماعت کے خلاف بھی جاری ساری رہتا ہے ، کافی مرتبہ الطاف حسین اپنی ٹیم کے اراکین کو جرائم پیشہ عناصر کے سرپرست قرار دے چکے ہیں ۔تین ماہ قبل ایم کیو ایم سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ نائب صدر باؤ انور کے قتل کے خلاف احتجاجی جلوس نکالنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "سیکٹر انچارنجز ایسا احتجاج کریں کہ رابطہ کمیٹی کا غرور ٹوٹ جائے۔ الطاف حسین رابطہ کمیٹی پر برستے ہوئے کہتے ہیں کہ "کمیٹی نے پسند اور نا پسند کی بنیاد پر گروپ بنا رکھے ہیں جبکہ کچھ لوگ کارکنوں سے گھروں کی صفائی کراتے ہیں ، کمیٹی کے کچھ لوگوں نے گلیاں اور گراؤنڈ تک پیچ دیں ہیں۔"۵ ستمبر ۲۱۰۴؁ء کو الطاف حسین نے اپنی جماعت کی خامیوں کا برملا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ "تنظیم نے ذمے داروں کو سترہ ،اٹھارہ گریڈ کی نوکریاں دیں ، جہاں سے وہ ایک ایک لاکھ کمیشن لے رہے ہیں اس کے علاوہ وہ خدمت خلق فاونڈیشن سے بھی تنخواہ لے رہے ہیں تاہم وہ صحیح طریقے سے کام نہیں لے رہے ، انھوں نے کراچی تنظیمی کمیٹی کو ختم کرنے کا بھی اعلان کیا۔جبکہ کئی مرتبہ رابطہ کمیٹی کو بھی تحلیل کرچکے ہیں لیکن بعد ازاں وہی اراکین دوبارہ رابطہ کمیٹی کے ممبران بن جاتے ہیں جن پر سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے۔ ایم کیو ایم میں گروپنگ کی خبریں آتی رہیں لیکن اس پر میڈیا نے توجہ دینے کے باوجود توجہ اس لئے نہیں دی کیونکہ کراچی کا میڈیا بول نہیں سکتا ۔ نا معلوم چپ کرا دیا کرتے تھے ۔ یہ نامعلوم کون تھے ۔سب کو معلوم تھا لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ یہ نامعلوم کون ہیں ۔ عوام میں یہ رائے کوئی پرانی نہیں تھی کہ الطاف حسین کی جذباتی تقاریر عوام میں انتشار اور افراتفری پیدا کردیتی ہے لیکن رابطہ کمیٹی ہمیشہ اس کا دفاع کرتی رہی ۔ صولت مرزا نے پھر سکوت سمندر میں پتھر پھینکا ، لیکن میڈیا میں ہل چل مچی ۔ ارباب اختیار میں کوئی ہل چل نہیں مچ سکی ۔ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے جب کئی سالوں تک ملزما ن حکومتی تحویل میں رہے ، لیکن سیاسی مفاہمت نے کراچی کو سکون سے نہیں بیٹھنے دیا۔ برطانیہ نے خاموشی اختیار کی ۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کا برسوں ریکارڈ ٹوٹ گیا ؛لہذ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے ملزمان پکڑے نہیں جا سکتے ۔ پاکستان نے کہا کہ یہ ہیں لیکن برطانیہ نے عدم دل چپسی دکھائی ۔ تو پھر امن کے سمندر میں پھر ایک نئی انٹری ہوئی توقع تھی کہ عزیر بلوچ کے بعد حماد صدیقی منظر عام پر آئیں گے لیکن اچانک وہی ہوا جس کی توقع کئی دنوں سے کی جا رہی تھی عمران فاروق گروپ نے جب امریکہ میں سندھ کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو یہی ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی تھی کہ اس نے ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ لیکن پھر سندھ ون اور ٹو ، جنوبی ، شمالی مغربی کی گردان چل نکلی ، متحدہ جو پہلے انکار کرتی رہی تھی۔ کبھی انکار کرتی رہی ، کبھی مانتی رہی ، مصطفے کمال پر آج کی پریس کانفرنس سے پہلے تک فخر کرتی تھی لیکن اچانک ایک بار پھر کراچی کے امن کے سمندر میں انیس قائم خانی اور مصطفے کمال منظر عام پر آگئے ۔ جن سے متحدہ کبھی لاتعلق نہیں رہی تھی اچانک وہ کچھ بولنے لگے جو کچھ نیا نہیں تھا ۔ عسکری ونگ متحدہ میں تھے تو سپریم کورٹ نے آبزوریشن دی کہ کراچی میں تین جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں ۔ لیکن پی پی پی خاموش رہی ، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بولے کہ لاکھوں لائینس اس لئے نہیں دیئے کہ شادی میں پٹاخے چلائے جائیں ۔ لیکن حکومت اپنی مفاہمتی پالیسی کے تحت عوام کو بلیک میل کرتی رہی ۔ اچانک ساتویں مرتبہ الطاف حسین جب فوج سے معافی مانگی تو آج کی پریس کانفرنس نے ثابت کردیا کہ متحدہ میں اختلافات اس قدر شدید نوعیت کے ہیں کہ کراچی کا سکون ، پر سکون نہیں رہے گا۔ اجر قومی موومنٹ حقیقی جب بنی تو اردو بولنے والوں نے اردو بولنے والوں کے خلاف جو کچھ کیا ایسے دنیا فراموش نہیں کرسکتی ۔ ایم کیوایم کے قاید الطاف حسین نے کئی مرتبہ پارٹی چھوڑنے کی بات کی لیکن یہی انیس قائم خانی ، اور رابطہ کمیٹی روتے ہوئے ان کو روکتے تھے کہ نہیں نہیں ، ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے ، حق کی کھلی کتاب ، سب سے کہہ دو صاف صاف ، ۔۔ یہ نعرے کراچی میں گونجتے رہے ۔ الطاف حسین نے ایک ایسے اجلاس میں جب سب سے موبائل فون لے لئے گئے تھے ۔ علاقے کے پی ٹی سی ایل فون بند کردیئے گئے تھے ، الطاف حسین کھل کر رابطہ کمیٹی پر برس رہ رہے تھے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ، حماد صدیقی کو حصار میں لے لیا گیا ۔حماد صدیقی معافی مانگتے رہے ، امریکہ سے ڈاکٹر احسان دانش کو بلا کرتنظیمی کمیٹی بنا دی گئی لیکن کوئی فرق نہیں پڑا ۔ پھر ایک مرتبہ ایسا مرحلہ بھی آیا کہ تنظیمی کمیٹی۔ پختون رابطہ کمیٹی کے اراکین اور سوشل میڈیا کی ٹیم کو ایک ہفتے کی مہلت دی گئی کہ مجھے ( الطاف حسین) کو بتایا جائے کہ رینجرز ان کے ساتھی نہیں مار رہی ، تو پھر کون مارہا ہے اور یہ سب تم کو پتہ ہے۔ کراچی کے امن اور متحدہ کے درمیان محاذ ارائی کے لئے پہلے سندھ مہاجر کا تنازعہ پیدا کیا گیا ۔ پھر پنجابی پختون اتحاد منظر عام پر آئی م پھر لیاری گینگ وار سامنے آئی ، عوامی نیشنل پارٹی بھرپور قوت کے ساتھ سامنے آئی ، یہی وہ ناظم کراچی تھے جو بلا امتیاز رنگ و نسل کے دعوے کرتے تھے لیکن ان کی ایسی ویڈیو سوشل میڈیا میں موجود ہیں جو ان کے غصے و اشتعال کو ظاہر کرتی ہیں ۔ آفاق احمد ایک دم خاموش ہوگئے ۔ سمجھ سے بالاتر نہیں کہ متحدہ کے منحرف رہنما ایسے مواقعوں پر انکشافات کیوں کرتے ہیں جب کراچی میں امن کا قیام ہونے لگتا ہے۔منحرف رہنماؤں نے کوئی نئی بات نہیں کی ، یہ تو کراچی کا بچہ بچہ جانتا ہے ۔ ہمیں بردباری کے ساتھ کراچی آپریشن کے خلاف ہونے والی نت نئی سازشوں کو سمجھنا ہوگا۔ کیونکہ کراچی کب سے بول رہا ہے لیکن اس کو کوئی سن نہیں رہا۔
 
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 663060 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.