افغانستان میں امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سازش

افغان طالبان اور چار ملکی رابطہ گروپ کے حوالے سے غیر ملکی میڈیا میں ایک پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ بظاہر نظرنہیں آتا ، سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ چار ملکی رابطہ گروپ کے چار اجلاسوں میں صرف پہلے اجلاس میں مولانا حسن رحمانی مرحوم نے شرکت کی تھی ، جو گذشتہ دنوں کینسر کے سبب انتقال کرگئے۔ پاکستان نے امن مذاکرات کیلئے میزبانی کی پیش کش کی لیکن ان تمام اجلاسوں میں طالبان سے کوئی کوئی رائے نہیں لی گئی بلکہ چار ملکی رابطہ گروپ بار بار پیشگی شرائط عائد کرتا رہا کہ افغان طالبان تشدد کا رستہ چھوڑ دیں ، اہم بات یہ ہے کہ مارچ کے آغاز میں ہونے والے اجلاس میں ایک روٹ میپ تیار کرلیا گیا تھا جس کے تحت پہلی بار پیشگی شرائط عائد کئے بغیر بغیر افغان طالبان کے مختلف گروپوں کو دعوت دی گئی تھی ، افغان طالبان میڈیا کی جانب سے ایک افوہ پھیلائی گئی کہ پاکستان کو دس افغان رہنماؤں کی لسٹ دی گئی ہے تاکہ وہ اجلاس میں شرکت کریں ، اس کا مقصد دنیا میں یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان براہ راست ان اافغان طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے حالاں کہ پاکستان اس سے قبل وضاحت کرچکا تھا کہ پاکستان اثر نفوذ ضرور رکھتا ہے لیکن افغان طالبان کے تمام دھڑوں کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر نہیں ہیں ان کو وہ باور نہیں کراسکتا۔ ہمارا پاکستانی میڈیا بھی ان میڈیا پروپیگنڈے کی زد میں آگیا اور اس بات کو فراموش کربیٹھا کہ افغان صدر اشرف غنی کابل و کنڑ دہماکوں کے بعد مذاکرات سے انکار کرچکے ہیں ۔ جس کے بعد کابل حکومت کی جانب سے صوبہ کنٹر کے علاقے میں خودکش حملے کے بعد چار ملکی رابطہ گروپ کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا ہے اور اس بات کا امکان کم نظر آرہا ہے کہ مذاکرات کا اگلا دور ممکن ہوسکے گا ۔ اس مذاکرات میں افغان طالبان کو غیر مشروط شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور اشرف غنی نے افغان طالبان اور حزب اسلامی حکمت یار گروپ سمیت دیگر گروپوں سے مفاہمت کا اعادہ کیا تھا لیکن گذشتہ دنوں اچانک افغان صدر کے حالیہ بیان نے مذاکراتی عمل کو خطرے سے دوچار کرتے ہوئے مارچ کے آغاز میں ہونے والے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے۔ مبصرین اس بات پر بھی حیران ہیں کہ کہیں افغان انتظامیہ میں موجود پاکستان مخالف لابی کامیاب تو نہیں ہوگئی ،اہم بات یہ بھی کہ افغان طالبان کے امیر ملا ختر منصور نے بھی مذاکرات سے انکار کردیا ہے اور کابل انتظامیہ پر نئے حملوں کا حکم بھی دیا ہے ، ملا اختر منصور اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ مذاکرات سے قبل دو خود کش دہماکوں میں سے ایک دہماکے کی ذمے داری افغان طالبان نے قبول کی ہے لیکن صوبہ کنٹر کے گورنر ہاوس کے سامنے کئے جانے والے دہماکے کی ذمے داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی۔ہمیں اپنی خبروں و تجزیوں میں اس بات کا دھیان رکھنا ہوگاکہ روز اول سے ہی افغان حکومت مذاکرات کی حامی نہیں رہی ہے ، کبھی نام پر اعتراض کیا جاتا ہے تو کبھی کسی بات پر مذاکرات کو معطل کردیا جاتا ہے ، اشرف غنی سے قبل حامد کرزئی بھی یہی عمل دوہراتے رہے ہیں اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں پہلے اجلاس کے بعد جب ملا محمد عمر مجاہد کے انتقال کی خبر یکدم دو سال بعد منظر عام پر لائی گئی تو مذاکرات معطل ہوگئے ۔ خیال یہی تھا کہ اب خلافت کیلئے ملا محمد عمر کے حامیوں اور ملا اختر منصور کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوجائے گی ، لیکن ملا عبدالمنان اخند اور ملا محمد عمر کے بیٹے مولوی محمد یعقوب مجاہد نے جب ملا ختر منصور سے بیعت کرلی تو امریکی و کابل انتظامیہ کے ارمانوں پر پانی پھیر گیا، پھر داعش کو افغانستان میں منظم کئے جانے لگا اور ایک پڑوسی ملک کی جانب سے داعش کی مدد کی خبر منظر عام آنے کے بعد بھی ہم کیوں یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ افغانستان میں سوچی سمجھی سازش کے تحت امن نہیں لایا جا رہا۔ پاکستان نے جب سے امن مذاکرات کے لئے پیش کی اورانعقاد کئے اور اب تک جتنے بھی اجلاس ہوئے اس میں باقاعدہ روڈ میپ ہی تیار نہیں ہوا تھا۔ جبکہ دوحہ قطر کا افغان طالبان کا سیاسی دفتر ان مذاکرات سے لاعلم رہا ۔ کیونکہ افغان طالبان نے پگواش کانفرنس میں اپنے تمام نکات عالمی برادری کے سامنے پیش کردیئے تھے کہ اگر افغانستان میں امن چاہتے ہیں تو سب سے پہلے افغانستان کی سرز مین سے غیر ملکی افواج کو جانا ہوگا ۔ لیکن اس کے برخلاف کابل انتظامیہ نے امریکن افواج کے ساتھ ملکر سخت ترین آپریشن شروع کردیا ، خاص طور پر جب سوئڈیش ہسپتال میں امریکن فوجیوں نے جس بربریت سے چار مریضوں کو خنجروں اور سنگینوں کے وار کرکے ہلاک کیا اور پھر ایک کھیت میں کام کرنے والے محنت کش 12سالہ بچے کو سفاکیت کے ساتھ مارا گیا تو میدان وردک کے مکینوں نے زبردست احتجاج کیا اور شاہراہ کابل کو کئی گھنٹوں تک بلاک کردیا۔خیال یہ کیا جارہا ہے کہ کابل وزرات دفاع کے سامنے ہونے والے خود کش دہماکے کو میدان وردک میں سوئڈیش ہسپتال میں امریکی اور افغان سیکورٹی فورسز کی جانب سے چار مریضوں اور کھیت میں کام کرنے والے بارہ سال کے بچے کو بلا جواز وحشت ناک طریقے سے ہلاکت کا ردعمل قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ افغان طالبان نے اپنے جاری اعلامیہ میں سوئڈیش اسپتال میں حملے کو دہشت گردی قرار دیا تھا ۔اس سے قبل بھی قندوز میں امریکی گن شپ اے سی 130نے ایک اسپتال پر بمباری کی تھی ، میڈیسنز سا نز فرنٹیئر کے کلینک پر بمباری کوافغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر اور امریکی فوج کے جنرل جان کیمبل نے واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے انسانی غلطی قرارد دیا تھا اس حملے میں 22افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

سویڈیش اسپتال پر حملے کے بعدافغان ترجمان نے جاری اعلامیہ میں کہا کہ جب دو ہفتے قبل اقوام متحدہ کی جانب سے شہری نقصانات کی رپورٹ میں کابل نااہلی اور دوہری انتظامیہ کو شہری نقصانات سے متعلق کم اشارہ دیا تھا تو بھی اس کے باوجود کابل انتظامیہ آگ بگولہ ہوگئی اور یوناما کے فیصلے کی مذمت کی ۔صبہ کنٹر میں ہونے والے دہماکے کو بھی افغان طالبان کے ساتھ جوڑا گیا لیکن خبر نگاروں اور تبصرہ نگاروں کی توجہ اس جانب نہیں گئی کہ بین الاقوامی میڈیا اس خبر کو افغان طالبان امارات اسلامیہ کی جانب کیوں نتھی کررہا ہے جس کی ذمے داری اس نے قبول ہی نہیں کی ۔ افغانستان میں کئی گروپ کابل انتظامیہ کے خلاف جنگجوانہ کاروئیاں کر رہے ہیں لیکن کسی گروپ نے بھی اس کی ذمے داری قبول نہیں کی ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ وقعہ پاکستان کی سرحد کے قریب پیش آیا اور غالب امکان یہی تھا کہ پاکستان امن مذاکرات کیلئے کوشاں ہے اس لئے اس کی غیر جانبداری کو مشکوک بنانے کیلئے کوئی ایسا عمل کیا جائے جس سے سارا امن مذاکرتی سلسلہ سبوتاژ ہوجائے۔ اس دہماکے میں بھارتی ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ اس کے اہم مقاصد میں امن مذاکرات کو ختم کرانا ہے اور وہی ہوا کہ افغان صدر اشرف غنی نے سوچے سمجھے بغیر بیان دے دیا کہ دہماکے کرنے والوں کے ساتھ امن مذاکرات نہیں ہوسکتے ، حالاں کہ ابھی تک ان کے مذاکرات ہی نہیں ہوئے ، روڈ میپ بھی تیاری کے مراحل میں تھا ، دونوں جانب سے جنگ بندی کا اعلان بھی نہیں ہوا لیکن عجلت میں دیئے گئے بیان نے واضح کردیا کہ افغان صدر پاکستان کی جانب سے کوششوں پر خوش نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ رک جائے۔ دوسری جانب افغان ترجمان نے اعلامیہ میں واضح پیغام جاری کیا ہے کہ افغان عوام اسلامی نظام ، آزادی اور استقلال کے علاوہ کسی اور چیز پر راضی نہیں ہونگے ، افغانوں کیلئے استعماری قبضے کے خاتمہ اور خود مختاری سب سے اہم ہے یہی امن بھی ، صلح بھی اور خوش بختی بھی ہے۔ان تمام تر واضح بیانات کے بعد ان خبروں کا آنا کہ پاکستان کو دس طالبان رہنماؤں کو مذاکرات میں لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے ماسوائے افغان میڈیا کے پروپیگنڈے کے کچھ نہیں ، کیونکہ سب سے پہلے ہمیں اس بات پر غور کر لینا چاہیے تھا کہ افغان صدر اشرف غنی تو یکسر مذاکرات کے عمل سے ہی لاتعلق ہوگئے ہیں ، کیا وہ ان مذاکرات میں شرکت کریں گے ۔ پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ صوبہ کنٹر میں خود کش دہماکے کو افغان طالبان امارات اسلامیہ سے جوڑنے کے پس منظر میں کیا ہے ، جبکہ افغان طالبان اپنے ایک ایک معرکے کی تفصیلات سے عالمی میڈیا کو باخبر رکھتا ہے تو وہ اس واقعے پر خاموش کیوں ہے ۔ افغان طالبا ن کے اس مطالبے پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ خاموش کیوں ہیں کہ ایک غیر ملکی رفاہی ادارے پر امریکن اور افغان سیکورٹی فورسز کا اس قدر وحشیانہ سلوک کس زمرے میں آتا ہے اس واقعے کی باقاعدہ ویڈیو بھی جاری کی گئی ۔پاکستانی میڈیا کو پڑوسی ملک میں بھارتی سازشوں کا مکمل ادارک حاصل ہے اس لئے انھیں بھارتی سازشوں کا چاک کرنے کیلئے محتاط ہونا ہوگا۔ جب پاکستان کہتا ہے کہ جو افغانستان کا دشمن وہ ہمارا دشمن ہے اور دوسری جانب سے جواب ملتا ہے کہ پاکستان سے ہمارے برادرانہ تعلقات نہیں ہیں تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ کچھ قوتیں ایسی ہیں جو افغانستان میں امن نہیں چاہیتی ، جس کی ایک شکل داعش کو امداد دینے کیلئے پڑوسی ملک کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کا منظر عام پر سامنے آجانا اور بھارت کی جانب سے افغانستان میں شر انگیزیاں اور کابل انتطامیہ کے جانب سے مسلسل پاکستان پر الزام تراشیاں سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے جس سے ہماری فوج کی اعلی قیادت بخوبی خبر ہے ، لیکن بعض پاکستانی میڈیا اس کا ادارک درست طریقے سے نہیں کر پا رہا یا کرنا نہیں چاہتا ۔ انھیں حالات و واقعات کو تمام اطراف سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان کے امن سے پاکستان کا امن وابستہ ہے ، اور پاکستان میں امن ہوگا تو معاشی ترقی کے راستے کھلیں گے ، جو پاکستان کے دشمن کبھی نہیں چاہتے۔کیونکہ پاکستان میں بعض قوتوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 662882 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.