مدارس دینیہ کا روشن کردار

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

مدارس دینیہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ ہے ، صفہ کے چبوترے میں قائم ہونے والے تعلیمی ادارے میں معلم کائنات ،پیغمبر اسلامﷺ سے صحابہ کرام ؓ نے علوم قرآنیہ اور حکمت ودانائی کی تعلیم حاصل کی ،اسی کا اثر تھا کہ خلفاء راشدین کے دور میں علم کی ترویج واشاعت کے لیے کئی شہر آباد کئے گے ،پوری خلافت سے اہل علم کو وہاں لا کر بسایاگیا اور یہ شہر شرح خواندگی کے اعتبار سے سو فیصد تھے ،بلاد اسلامیہ میں قائم مدارس اور مکاتب کی غرض و غایت صر ف اور صرف قرآن ، حدیث اور فقہ کی تعلیم تک محدود نہیں تھی بلکہ مسلمانوں کو ان علوم و فنون کی تعلیم بھی دی جاتی تھی جن کا تعلق انسانی اجتماعی بقاء و فلاح کے لیے ضروری ہو ، اس وقت کی درسگاہیں تمام علوم کی مراکز تھیں ، جن سے اسلامی حکومت اور معاشرے کی ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا ، اسلامی حکومتوں کے لیے مختلف شعبوں کے ماہرین بھی یہی درسگاہیں تیار کرتی تھیں ، اگر علوم شرعیہ و دینیہ کے ماہر علماء ، راسخین فی العلم اور مشائخ ان مدارس کا ثمرہ ہیں تو دوسر ی طرف متنوع فنون کے موجد ، جدید اشیاء و نظریات کے بانی ، تحقیق و تجربہ کے شہسوار بھی ان ہی مدارس نے اسلامی معاشرے کو دیے جو انسانیت پرآج تک بہت بڑا احسان ہیں ۔

اسلامی ممالک میں ہر طرف پھیلے ہوئے تاریخی تعلیمی مراکز نہ صرف ہمارا اثاثہ ہیں بلکہ ہماری عظمت رفتہ کے روشن مینارے ہیں ، جن کو حالات نے ویران کر دیا ، غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی لا پرواہی نے ان کی حیثیت صرف تاریخی ورثہ تک محدود کر دی ہے، اسی طرح بر صغیر پا ک و ہند میں انگریز کے آنے کے بعد یکسر تبدیلی رو نما ہوئی اور نظام تعلیم کو مکمل تبدیل کر دیا گیا ۔جامعات ، مدارس کلچر کا خاتمہ کرنے کی پوری کوشش کی گئی ، علماء کو شہید اور مدارس کو مسمار کر کے سرکاری سر پرستی میں دینی اور مذہبی تعلیم کے لیے مدرسہ عالیہ کلکتہ اور مدرسہ عالیہ رام پور جیسے ادارے قائم کیے ان سے مقصود ایسا طبقہ تیار کرنا تھا جو انگریز کا معاون و ممد ہو ، اور دوسری طرف بڑی بڑی اراضیوں پر خالص ولایتی علم پڑھانے والے سیکولر انگریزی تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ، انگلش کو قومی زبان قرار دے کر ایک رات میں پورے بر صغیر کے لوگوں کو ’’ان پڑھ ‘‘بنا دیا گیا ، تہذیبی رویات و اقدار میں نمایاں تبدیلیاں ظاہر ہونے لگیں ، عہد غلامی میں مسلمان راہنماؤں اور مذہبی پیشواؤں نے دور اندیشی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ایسے مختلف دینی ادارے اور درسگاہیں قائم کیں جو ایک طرف اسلامی ثقافت اور تعلیمات کی امین ہوں تو دوسری طرف درپیش چیلنجز سے نبر د آزما ہونے والے رجال کا ر بھی میدان میں اتارنے کی صلاحیت رکھتی ہوں ، جن میں دارالعلوم دیوبند ، ندوۃ العلماء ،سہارنپور اور دہلی کی درسگاہیں ،علماء اکابرین اور مسلم رہنماؤں کی کوشش کا ثمرہ تھیں ۔

لارڈ میکالے اور ان کے پالیسی سازوں نے افرنگی نظام تعلیم کے ذریعے مسلماں نوجوانوں کو ملاں اور مسٹر کی کی دو انتہاؤں پر لا کھڑا کیا ، سرکاری اداروں میں سیکولر تعلیمی نظام رائج کر کے دینی افکار و نظریات کو نصاب تعلیم سے خارج کر دیا گیا تھا ،دین ،مذہب بیزار ی اور ارتدار کا طوفان بپا کیا گیا، مذہبی راہنماؤں کو پس زندان یا شہید کرکے فرقہ واریت کے بیج بوئے گے" جس کی فصل آج ہم کاٹ رہے ہیں"تاکہ مسلم قوتیں یکجا نہ ہو سکیں۔

ایسی صورتحال میں قافلہ ولی اﷲ ؒکے عظیم سپوت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ ،مولانا قاسم نانوتوی ؒان کے ساتھیوں نے مل کر ان فتنوں کا سدباب اور درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہو نے کا عزم کیا ،دارلعلوم دیوبند کی صورت میں رجال سازی کا عظیم ادارہ قائم کیا جو انگریزی سامراج کے حلق کا کانٹا ثابت ہوا،علوم اسلامیہ کی بقا ،ترویج و اشاعت،آزادی ہند کی مختلف تحاریک ہوں یا عالم اسلام کو در پیش چیلنجز دارلعلوم دیوبند کے فضلاء صف اول میں نظر آئے۔ تحریک آزادی سے لے کر استحکام پاکستان تک ہر سطح پردینی مدارس امت کی راہنمائی کے لیے افراد سازی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

آزادی ہند کی تحاریک ہوں یا انگریزی سامراج کی اسلام کے خلاف سازشیں ، ان ہی مدارس کے فضلاء نے صیانت دین اور آزادی ہند کا فریضہ احسن طریقہ سے سر انجا م دیا ، قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کے لیے بھی علماء و مدارس کی کوششوں کو فرا موش نہیں کیا جا سکتا ہے ، صرف وفاق المدارس العربیہ کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو وفاق المدارس العربیہ سے اب تک فارغ التحصیل ہونے والے علماء کی تعداد ایک لاکھ ستائیس ہزار دو (127002)اور عالمات کی تعداد ایک لاکھ بہتر ہزار نو سو پچاس (172950)اور حفاظ کی تعداد نو لاکھ نواسی ہزار چھ سو انسٹھ(989659)ہے۔مجموعی طور پر دو لاکھ ننانوے ہزار نو سو باون (299952)علماء و عالمات قوم و ملت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ،جو یقیناان درسگاہوں کی کامیابی بہت بڑی کامیابی ہے، پاکستان کے سب سے بڑے امتحانی بورڈ و فا ق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام بیس ہزار پانچ سو ساٹھ (20560)مدارس اور جامعات میں پچیس لاکھ دس ہزار چار سو بیاسی طلبہ و طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں،جس میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا چا رہا ہے ۔

تعمیر و استحکام وطن میں اہل مدارس کا مثبت کردار ہماری تاریخ کا روشن باب ہے ، یہی وجہ ہے ملک دشمن عناصر اور طاغوتی لابی اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ انہی محب وطن علماء وطلباء کو سمجھتی ہے ،ہر گزرتے وقت کے ساتھ ان کی سازشوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ وطن عزیز میں پیش آنے والے ہر ناخوشگوار واقعے کے تانے بانے اہل مدارس اور اسلام پسندوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے جو بجا طور پر سیکولر انتہاپسندی ہے۔اعلیٰ حکومتی عہدیداراں اور سرکاری رپورٹس کھلے الفاظ میں مدارس دینیہ اور اہل مدارس کی خدمات کا نہ صرف اعتراف کرچکی ہیں بلکہ ان اداروں کو ملکی استحکام اور تعلیم کے فروغ کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں اہل مدارس اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ملک و اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کا سد باب کریں ، وہیں ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے کہ صرف پروپیگنڈا اور لابنگ کے نتیجہ میں بننے والے ماحول سے متاثرہو کر ہر ایسے اقدام سے گریز کریں جو ان عظیم اداروں کی کردار کشی کے مترداف ہو۔
 
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 250620 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More