پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی دہشت گردی

تعلیم ایسا زیور ہے ، جس کے بغیر قوم بانجھ اور شعور و ترقی سے کوسوں دور رہتی ہے، یہ مقدس مشن ہے، جس کیلئے ہر دور میں بڑے جتن کئے جاتے رہے۔ ایک طاقتور تلوار بھی ہے، جو خون خرابے کے بغیر امن قائم کرتی ہے۔ لیکن اس کی سمت درست نہ ہو تو تلوار اپنا کام دکھاتی رہتی ہے۔ ہمارا ملک تعلیم اور ترقی کے معاملے میں زیادہ بہتر نہیں ہو سکا ہے۔ ایک عرصے دے دہشت گردی کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے، جس کیلئے ملک و قوم نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے بعد سے قیام امن کی راہ دکھائی دینے لگی ہے۔ جس کا سہرا سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے سر ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، مہنگائی ، کرپشن، رشوت اور اقربہ پروری میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے قوم ملک اور اس کے مستقبل کے معماروں کے خلاف تعلیمی دہشت گردی شروع کر رکھی ہے، جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی، اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کی اکثریت ناخواندہ ہے، جو محض دیکھا دیکھی مشکل ترین نصاب اور بے حساب فیسوں کے زور پر سکولوں اور کالجوں میں اندھیر نگری مچا رہی ہے۔ تعلیم کے نام پر یہ دہشت گردی دن بدن بڑھ رہی ہے، اگر اس کے خلا ف گرینڈ آپریشن نہ کیا گیا ، تو پھر ان کو قابو کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔

چند ماہ قبل پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کی بڑھتی ہوئی فیسوں کے خلاف والدین نے ملک گیر احتجاج کئے، جس پر وفاق اور صوبائی حکومتوں نے ان تعلیمی اداروں کے مالکان کی تنظیم سے مذاکرات کئے، لیکن اس کے اثرات و ثمرات ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ سالانہ رزلٹ کے اعلان کے ساتھ ہی ان تعلیمی اداروں نے فیسوں میں غیر اعلانیہ طور پرپندرہ سو روپے سے پانچ سو روپے تک کا اضافہ کر دیا ہے۔ والدین کمر توڑمہنگائی اور معاشی کسمپرسی میں اتنا بڑا مالی بوجھ کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اسے بچوں کے والدین کی چیخیں سنائی ہی نہیں دے رہیں۔

جو پرائیویٹ سکول و کالج انتظامیہ اور میڈیا کی کرم فرمائی سے معروف ہو چکے ہیں، ان کے اپنے ضابطے ہیں، بچوں کی کتابوں، یونیفارم اور مختلف ناموں سے لئے جانے والے فنڈز مقرر کر رکھے ہیں، جو والدین کی سمجھ سے بھی بالا تر ہیں۔ انہوں نے معصوم بچوں کو کتابوں اور کاپیوں کے بوجھ تلے دبا کر والدین کو مہینوں فنڈز کے بوجھ تلے کچل کر رکھا ہوا ہے جو کتابیں اور کاپیاں کسی بک ڈپو سے 2000 روپے میں ملتی ہیں، وہ ان پرائیویٹ سکولوں و کالجوں کے مالکان جبراََ 6000 روپے میں فروخت کر تے ہیں۔ جو بچوں کا یونیفارم بازار سے ایک ہزار روپے میں ملتا ہے، وہ ان تعلیمی اداروں سے 4000/- روپے میں دیا جا رہا ہے۔ بچے کے داخلہ کے وقت کئی قسم کے عطیات اور فنڈز پہلے ہی وصول کر لیتے ہیں۔ اس میں کوئی کمی نہ ہو رہی ہے۔

ان تعلیمی اداروں کے سٹاف سے بھی نا انسافی ہو رہی ہے۔ ایک بچے یا بچی سے فیس اور فنڈ کی مد میں ماہانہ تین سے آٹھ ہزار روپے اینٹھ لئے جاتے ہیں۔ لیکن اساتذہ کو 4 سے 6 ہزار روپے ماہانہ میں ٹرخا دیا جاتا ہے۔ بعض سکولوں میں میٹرک /ایف اے پاس استانیاں بھی ہیں۔ جو نصاب سے نابلد ہیں۔

ایسا نصاب تسلیم لاگو کیا گیا ہے۔ جس میں پاکستان کی دینی و ملی تعلیم ، اقدار، قومی تشخص ، تہذیب و تمدن اور ثقافت کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ ہمارے قومی ہیروز کا ذکر تک نہیں ہے۔ ہر بڑی قوم اپنی زبان و لباس پر فخر کرتی ہے اور قومی ہیروز کی تقلید کرتی ہے۔ لیکن پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہمارے مستقبل کے معماروں کو اپنی زبان و لباس اور تہذیب و ثقافت سے دور کرنے میں مصروف ہیں۔ ’’کوا چلا ہنس کی چال تو اپنی بھی بھول گیا‘‘ کے مصداق تحلیل شدہ ، نیم خواندہ مالکان ہماری جوان نسل کو گمراہی کے گڑھے میں دھکیلنا چاہتے ہیں، اور حکومت ،ادارے ، منتخب نمائندے اور محکمہ تعلیم خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ کوئی ٹس سے من نہیں ہو رہا۔

وفاق اور صوبوں میں یکساں نصاب تعلیم از حد ضروری ہے۔ ورنہ بہت بڑا اور ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ جس کی سزا ہماری جوان نسل صدیوں بھگتے گی۔ بعض تعلیمی اداروں کی عمارتیں مخدوش ہیں، صاف پانی، ٹوائلٹ نہیں ہے۔ سکیورٹی کا انتظام موجود نہیں ہے۔ سٹاف تعلیم و تربیت یافتہ نہیں ہے۔ لیکن ان کا زور صرف فیسوں اور فنڈز کے حصول میں ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ محکمہ تعلیم انتظامیہ اور ذمہ داران لسی پی کر سوئے ہوئے ہیں۔

آخر کوئی تو ادارہ یا با اختیار شخص ہو ، جو ان سے باز پرس کرے۔ ان کی مانیٹرنگ کی جائے۔ معیار تعلیم کو پرکھا جائے۔ یکساں نصاب تعلیم رائج ہو، اور ناقابل برداشت و استطاعت فیسوں اور بے مہار فنڈز کا مداوا ہو سکے۔ تاکہ عوام کو تعلیم کے نام پر ہونے والی دہشت گردی سے چھٹکارا ملے اور عوام کو ریلیف مل سکے۔
Sardar Zeeshan Tahir
About the Author: Sardar Zeeshan Tahir Read More Articles by Sardar Zeeshan Tahir: 3 Articles with 2289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.