الطاف حسین کے خلاف نئی بغاوت کا مستقبل……؟

تین مارچ کی سہ پہر سے رات گئے تک ایک موضوع میڈیا کی آنکھوں کا تارا بنارہا ، جیسے عوام کو دکھانے اور سنانے کو ان کے پاس کچھ اور تھا ہی نہیں…… سید مصطفی کمال نامی شخص نے ماضی میں کئی بار لگائے گئے پرانے الزامات دہرائے۔ جتنے بھی الزامات سید مصطفی کمال نے الطاف حسین کی ذات پر لگائے ان میں کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ ایسی ہی ایک فلم 1990 میں بھی ریلیز ہوئی تھی اس وقت اس فلم کے ہیرو آفاق احمد اور عامر خان تھے۔ اس وقت بھی میڈیا پر اسکی فلم کو بہت کوریج دی گئی، یہ الگ بات ہے کہ اس وقت محض سرکاری ٹی وی یعنی پی ٹی وی ہوتا تھا باقی پرنٹ میڈیا نے تو اپنا رنگ جمایا ہی تھا۔ آفاق احمد اور عامر خان کا ساتھ دینے والوں میں اس وقت کی صوبائی کابینہ کے چند وزرا بھی تھے۔ اس فلم کی نمائش کئی دنوں تک لاہور کے آواری ہوٹل میں جاری رہی اور اسکے تمام شو میں نے خود دیکھے۔ اس فلم کی لاہور میں نمائش حامد میر کے تعاون سے ہوئی اور اس فلم کے کچھ کردار لاہور کے اچھرہ میں پیپلز پارٹی کے ایک کارکن کے ہاں بھی ٹھہرائے گئے تھے۔ ان کے ہاں ہی میری اور مرحوم ادریس بٹ کی ملاقات ہوئی تھی۔ بدر اقبال سمیت متعدد ارکان اسمبلی بھی اس فلم کو کامیاب کروانے کے لیے لاہور تشریف لائے تھے۔

الطاف حسین کے خلاف بغاوت نامی اس فلم میں ہیروز کا کردار ادا کرنے کی پاداش میں ان دونوں ( عامر خان اور آفاق احمد )کو اپنی جوانی کے کئی سال پس دیوار زنداں کی نذر کرنے پڑے حتی کہ ہماری آزاد عدالتیں بھی انہیں ضمانت پر رہائی دینے پر آمادہ نہیں تھیں۔ بالا آخر تھک ہار کر یا اس یقین کرلینے پر کہ الطاف ناقابل شکست ہے عامر خان نے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا بلکہ حلف اٹھایا تو انہیں زندان سے رہائی نصیب ہوئی۔اس فلم کی ریلیز کے ساتھ ہی الطاف بھائی انے اپنی جماعت پر لگے لسانی جماعت کے لیبل کو دھونے کے لیے اسکا نام’’ متحدہ قومی مومنٹ‘‘ میں تبدیل کرلیا لیکن آفاق احمد اور عامر کان نے اپنی جماعت کانام مہاجر قومی مومنٹ ہی برقراررکھا…… آفاق احمدکے ہمراہ سیکنڈ ہیرو کا کردار ادا کرنے والے عامر خان وہیں عامر کان ہیں جنہیں حالیہ کراچی آپریشن کے دوران آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہتھکڑیاں لگا کر بھیڑ بکریوں کی طرح سکیورٹی اہلکاروں نے عدالت میں پیش کیا تھا،عامر خان کا قصور شائد یہ تھا کہ اس نے الطاف حسین کے خلاف پہلی بغاوت والی فلم میں کردار ادا کرنے کے جرم میں کئی برس پابند سلاسل رہنے کے بعد توبہ کرلی اور الطاف بھائی کی قیادت کے آگے سرتسلیم خم کرلیا ہے۔لیکن آفاق احمد ابھی تک فلم کے منصف، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے وفادار ہیں۔

ماضی کے نامور فلم اداکار اسد بخاری نے اپنی ایک شہرت یافتہ پرانی اردو فلم ’’لنڈا بازار‘‘ کو ’’ اج دی گل ‘‘ کے نئے نام سے پنجابی میں ری پروڈیوس کیا تو فلم کے پہلے شو میں ہی عوام نے مسترد کردیا تھا یہ کوئی واحد مثال نہیں ایسی پرانے اسکرپٹ پر نئی فلمیں بنانے اور ان کے فلاپ ہونے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں اور پیش بھی کی جا سکتی ہیں۔ اس بغاوت سمیت ایم کیو ایم یعنی الطاف حسین کی قیادت سے لوگوں کو متننفر کرنے کے لیے کئی فوجی ااپریشن کیے گئے کئی دل دہلا دینے والی ،سنسی خیز کہانیاں میڈیا کی زینت بنائی گئیں،پھانسی گھاٹ اور انسانوں کو ذبح کرنے والے آلات بھی دکھائے گئے لیکن اس سب کے باوجود ملک میں جب بھی انتخابات ہوئے کراچی کے عوام کی نمائندہ جماعت الطاف حسین کی متحدہ قومی مومنٹ ہی قرار پائی…… اس سے ظاہر اور ثابت یہ ہوا کہ کراچی کے عوام نے اسٹبلشمنٹ کے بینر تلے بنائی گئی فلموں کو یکسر مسترد کیا ہے۔

میرا سوال یہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی نئی فلم جسکا اسکرپٹ وہیں پرانا ہے ،منصف بھی وہیں ہے بس ہیرو کے چہرے تبدیل کیے گیے ہیں پہلے آفاق احمد اور عامر خان تھے اب انکی جگہ سید مصطفی کمال اور انیس قائم خانی فلم کے نئے ہیروز ہیں۔سید مصطفی کمال کے کریڈٹ پر بس یہی ہے کہ وہ کراچی کے ناظم رہے ہیں یاپھر نائن زیرو پر ٹیلی فون آپریٹر ی کرتے رہے ہیں بقول ان کے اپنے ’’وہ نائن زیرو ‘‘ پر جھاڑو بھی دیتے رہے ہیں، اس کے علاوہ انکے کریڈٹ پر کچھ نہیں …… سمجھ نہیں آتی کہ سید مصطفی کمال کو الطاف حسین کی دیو قامت سیاسی شخصیت کے مدمقابل کیا سوچ کر کھڑا کیا گیا ہے؟ ممکن ہے کہ سندھ کے گورنر عشرت العباد خان ،سلیم شہزاد سمیت چند ایک اور نام بھی سید مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے شریک سفر ہو سکتے ہیں لیکن سید مصطفی کمال کی فلم کو کھڑکی توڑ رش نہیں ملے گا۔

پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی سیاسی جماعتوں کی قیادت تبدیل کرنے کی خواہش کے مرکزی خیال پر بنائی جانے والی اور فلاپ ہونے والی فلموں کی تعداد بے شمار ہے۔ مائنس بھٹو،مائنس بھٹو خاندان، مائنس الطاف حسین، مائنس نواز شریف اور ماہنس ماہنس کئی فلمیں مارکٹ میں ڈبوں میں بند موجود ہیں ۔ 1977 کے بعد جنرل ضیا ء کی خواہش پر ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو ماہنس پیپلز پارٹی بنانے کے لیے مولانا کوثر نیازی، حنیف رامے، مصطفی کھر، غلام مصطفی جتوئی،ملک معراج خالد اور میر مرتضی بھٹو کی بیوہ غنوی بھٹو میدان مین اتارے گئے لیکن سب شرمساری لیے اگلے جہان پہنچ گئے لیکن بھٹو خاندان ابھی تک پاکستان کے سیاسی افق پر موجود ہے۔اسی طرح مسلم لیگ نواز کو ماہنس نواز شریف متحرک کرنے کی لگاتار کوشش کی گئی لیکن ہر بار شہباز شریف نے مغل حکمران عالمگیر اورنگ زیب کا کردار نبھانے سے انکار کردیا لیکن اسٹبلشمنٹ کی ہمت اور حوسلے کی داد دینی پڑے گی کہ اس نے ہر بار فلم کے فلاپ ہونے پر دل برداشتہ ہونے کی بجائے ہر بار نئے حوصلے اور جذبے کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔

ان حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پیشینگوئی کرنا مشکل نہیں ہے کہ پرانا فارمولے کو لیکر تیار کردہ اسٹبلشمنٹ کی نئی فلم بمشکل چند ہفتے رش لے پائے گی اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈبوں میں بند ہو کر تاریخ اور ماضی کا حصہ بن جائے گی اوربس……اس کی وجہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر الزامات خصوصا بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے کے الزامات آج سید مصطفی کمال نہیں کہہ رہا ، یہ سبق عالمی میڈیا ، بھارتی میڈیا اور ایم کیو ایم سے وابستہ رہنے والی کئی شخصیات سناتی رہی ہیں۔اس حوالے سے چونکا دینے والی اگر کوئی بات ہے تو وہ یہ ہے کہ تقریبا ستائیس سالوں سے لگنے والے ان سنگین الزامات پر ریاست اور حکومت پاکستان کیوں خاموش رہیں……ایم کیو ایم اگر دہشت گرد جماعت تھی اور اس کے قائد الطاف حسین اور دیگر راہنما بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ تھے یا ہیں تو ان کے خلاف قانونی اور اائینی کارروائی کیوں عمل میں نہیں لائی گئی؟ کونسے وہ عوامل تھے جن کے باعث ریاست اور حکومت نے چپ سادھے رکھی؟

ہاں ایک بات ضرور کہوں گا کہ حکومت سید مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی غیرجانداری سے چھان بین کروائے بے شک اس کے لیے ایک ہائی پروفائل کمیشن تشکیل دے دیا جائے جس پر الطاف حسین ،سید مصطفی کمال سمیت پوری سیاسی قیادت کو اعتماد ہو۔ اس حوالے سے سابق آمر جنرل پرویز مشرف کو بھی تحقیقات کے دائرے میں شامل کیا جائے کیونکہ انہوں نے ایم کیو ایم پر اس قدر سنگین نوعیت کے الزامات کے باوجود کیوں چپ سادھے رکھی؟ اور بات یہ کہوں گا کہ اسٹبلشمنٹ کو اپنی خواہش پر سیاسی جماعتوں میں اکھاڑ پچھاڑ بند کردینی چاہیے،کیونکہ عوام ان سے بہتر جج ہیں اور ملک کے حق میں کونسی قیاسی قیادت بہتر رہے گی اس حوالے سے عوام اسٹبلشمنٹ سے زیادہ حب الووطنی سوچ کے حامل ہیں، اور اس امر کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کس سیاسی قیادت کو پسند کرتے ہیں اور ان کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ عوام پر اپنی مرضی اور چوائس ٹھوسنے کے ماضی میں بہت بھیانک نتائج برآمد ہو چکے ہیں اسے مذید تجربات سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے کیونکہ موجودہ عالمی اور ہمارے اردگرد اور اندرونی حالات اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔اور نہ ہی پاکستان اب کسی مذید کسی سیاستدان کو ذوالفقار علی بھٹو اور اکبر بگتی بنائے جانے کا سانحہ برداشت کرسکتا ہے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161215 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.