اسلام ہر سطح پر عورت کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے

آج 8 مارچ ہے اور 8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ آج کے دن مختلف ممالک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے سرکاری و غیرسرکاری سطح پر سیمینارز اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں خواتین کے حقوق اور مختلف معاشروں میں ان کی کمزور حیثیت پر اظہارِ خیال کیا جاتا ہے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کا عہد بھی کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں عورت کے ساتھ ہونے والا برتاؤ مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی نصف آبادی عورتوں پر مشتمل ہے، اس لیے انسانی زندگی کا دارومدار جتنا مردوں پر ہے، اتنا ہی عورتوں پر بھی ہے۔ عورت معاشرے کی بنیاد ہے، بنیاد جتنی مضبوط ہوگی، معاشرہ بھی اتنا ہی مضبوط و طاقتور ہوگا۔ تمام تر اہمیت کے باوجود دنیا میں عورتوں کا استحصال اور ان پر ظلم و تشدد کیا جاتا ہے۔ دنیا کی ہر تیسری عورت تشددکا شکار ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں عورتوں سے جنسی زیادتی کے ڈھائی لاکھ واقعات پیش آتے ہیں، ہر سال 40 لاکھ خواتین کو عصمت فروشی پر مجبورکیا جاتا ہے۔ جاگیردارانہ نظام میں خواتین کو وراثت کا حق دینے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ شادی بیاہ کے فیصلوں میں عموماً ان سے نہیں پوچھا جاتا۔ نام نہاد غیرت کے نام پر ہر سال ہزاروں خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ کاروکاری، چھوٹی بچیوں کی بوڑھوں سے شادی، جائیداد خاندان سے باہر جانے کے خوف سے عورتوں کی شادی نہ کرنا، انھیں جائیداد کا حصہ نہ دینا، عورت کے چہرے پر تیزاب پھینکنا، بلاوجہ طلاق، شکوک و شبہات کی پاداش میں عورت کو قتل کردینا، جہیز نہ لانے یاکم جہیز لانے پر اسے ظلم کا نشانہ بنانا، چھوٹی چھوٹی رنجشوں یا غلطیوں پر عورتوں کی پٹائی کرنا اور جہالت پر مبنی اسی قسم کے بہت سے واقعات ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں، جو آج کے ترقی یافتہ انسان کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ عورتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے یہ بھیانک رویے نہ صرف انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں، بلکہ مذہب اسلام کی اصل روح ، روایات اور تعلیمات کے بھی سراسر خلاف ہے۔ ایسے مکروہ رویوں کو ختم کرنے کے لیے معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا ضروری ہے۔

ہمارا معاشرہ عورت کی حیثیت واہمیت کے حوالے سے دو طبقوں میں تقسیم ہے۔ ایک طبقے نے عورت کو دوسرے درجے کے شہری جتنی حیثیت دی، جب کہ دوسرے طبقے کے نزدیک عورت کا آزادانہ اختلاط پر مبنی معاشرہ ہی اصل معیار ہے۔ دونوں طبقات کے نظریات نہ صرف اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں، بلکہ خود عورت کے حقوق کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہیں۔ ایک طرف جاہلانہ رسوم و روایات کی بنا پر عورتوں پر جسمانی و نفسیاتی تشدد عام ہے، جب کہ دوسری جانب خود کو انتہائی مہذب کہلانے والے مغربی معاشروں میں عورت کا استحصال اپنی بد ترین شکل میںموجود ہے۔ مغرب میں عورت کی حیثیت ”بازاری جنس“ کی ہو کر رہ گئی ہے۔ عورت کے حوالے سے دونوں رویے افراط وتفریط کا شکار ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے معتدل نظریہ اسلام کا ہے۔ اسلام کی نظر میں مرد و زن برابر ہیں۔ البتہ جہاں ان دونوں صنفوں کے درمیان حیاتیاتی فرق ہے، وہاں دین نے دونوں کے درمیان انصاف کے ذریعے ان کے حقوق وفرائض کو متوازن کر دیا ہے۔ اسلام نے خواتین کو انتہائی زیادہ عزت بخشی ہے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بھلا سلوک کرے۔“ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے: ”جس کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوں، وہ اچھی طرح ان کی پرورش کرے تو یہی لڑکیاں اس کے لیے دوزخ میں آڑ بن جائیں گی۔“ اسی طرح کئی دوسری جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کی حیثیت کو بہتر بنانے اور عورت کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کے لیے مردوں کو بار بار تاکید فرمائی ہے۔ اسلام کی نظر میں اگر عورت بیوی ہے تو یہ شوہر کا لباس اور دنیا کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو اس کی بہترین پرورش کے عوض آتش دوزخ سے بچانے کا وسیلہ، آنکھوں کی ٹھنڈک اور جنت کی بشارت ہے ۔ اگر ماں ہے تو اس کے پاؤں تلے جنت ہے۔ اگر بہن ہے تو اس کے باعث صدقہ وجہاد کا ثواب حاصل ہوگا اور اگر بیوی ہے تو یہ شوہرکا لباس ہے۔ اسلام نے عورت کو چاہے وہ ماں ہو، بیٹی ہو، بہن ہو یا بیوی ہو ہر حیثیت میںانتہائی تکریم و اعزاز کا مستحق گردانا ہے۔
اسلام نے صرف فکری اور نظری اعتبار سے ہی عورت کا مقام و مرتبہ بلند نہیں کیا، بلکہ قانون کے ذریعے سے بھی عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی اور مردوں کے ظلم کی روک تھام کا موثر انتظام کیا ہے۔ جہاں مرد کو ناگزیر حالت کی بنا پر طلاق دینے کا اختیار سونپا گیا ہے، وہیں عورتوں کو بھی کسی معقول وجہ کے باعث مرد سے طلاق لینے کا اختیار دلایا ہے اور اس طرح فریقین کو ایک مکمل مساوات پر لاکھڑا کیا ہے۔ اسلام نے عورت کو تحصیل علم میں مرد کے برابر اجازت دی۔ وراثت میں حصہ دار بنایا۔ اسلام سے پہلے عورت کی گواہی معتبر نہ تھی۔ اسلام نے اس کی گواہی کو معتبر کیا اور عورت کی عصمت کو حدود اللہ میں شمار کیا۔اسلام نے عورت کو اظہار خیال کی آزادی دی۔ اسلام میں عورت کو ملنے والے حقوق کے اعتبار سے آج تک دنیا کی کوئی ترقی یافتہ قوم اسلام کی گرد بھی نہ پا سکی ہے۔ اسلام نے زندگی کے کسی موڑ پر بھی عورت کو تنہا نہیں چھوڑا، بلکہ قدم قدم پر اس کی حفاظت و عزت کا انتظام کیا ہے، جو لوگ عورت کو اس کا اصل مقام نہیں دیتے وہ اسلامی تعلیمات سے نابلد اور سراسر غلطی پر ہیں۔ عورت کو جو مقام اسلام نے دیا ہے، دنیا کے کسی معاشرے میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یورپ میں خواتین کی بڑی تعداد صرف اسلامی تعلیمات اور اسلام کے خاندانی نظام سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر رہی ہے۔ مغرب سے مرعوب کچھ لوگ عورت کی حفاظت و عزت پر مبنی اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر پاکستانی معاشرے میں بھی عورت کے حوالے سے مغرب کی غیرمحفوظ ثقافت کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں، جو نہ صرف معاشرے کے لیے مضر ہے، بلکہ ان کے نفاذ سے خود مشرق کی عورت بھی مغرب کی عورت کی طرح غیر محفوظ ہوجائے گی۔ مغرب مشرقی معاشرے میں عورت کے غیر محفوظ ہونے کا تو ڈھنڈورا پیٹتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود مغرب میں ہمارے ہاں سے زیادہ عورت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ یورپ میں عورت جتنی غیر محفوظ ہے، دنیا کے کسی معاشرے میں اتنی غیر محفوظ نہیں۔ اپنی زندگی گزارنے کے لیے یورپ کی ساٹھ سے ستر فیصد عورتیں جسم فروشی کو اپنا ذریعہ معاش بناتی ہیں۔ امریکا میں خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کی کوئی تنظیم ایسی نہیں جس کی رپورٹوں کے مطابق ہر سال 60 سے 70 فیصد خواتین اپنے باس یا سینئر کے ہاتھوں جنسی بلیک میلنگ اور بعض اوقات جنسی تشدد کا شکار نہیں ہوتیں۔ ہمارے معاشرے میں اگرچہ کئی حوالوں سے عورت کا استحصال کیا جاتا ہے، لیکن مغرب کے مقابلے میں یہاں کی عورت کئی درجے زیادہ محفوظ ہے۔ بحیثیت مجموعی یورپ کی عورت اور پاکستان کی عورت کے سماجی کردار میں واضح فرق پایا جاتاہے۔ پاکستانی عورت کو مغرب کی ڈگر پر چلانے کی کوشش کرنا معاشرے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ عورت کو آزاد نہیں، محفوظ بنانے کی فکر کرنی چاہیے اور عورت کو مکمل طور پر محفوظ صرف اسلام ہی کرتا ہے۔

پنجاب اسمبلی میں عورت کے حقوق کے حوالے سے جو بل منظور کیا گیا ہے، وہ ہمارے معاشرے سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ خود حکومتی ارکان کے نزدیک یہ بل خواتین کے حقوق کے لیے نقصان دہ ہے۔ ملک بھر کے علمائے کرام اس بل کو اسلام سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل بھی اسے غیر شرعی اور اسلامی تعلیمات اور آئین سے متصادم قرار دے چکی ہے، لیکن حکومت اپنی ضد پر قائم ہے اور اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر پاکستانی معاشرے میں بھی مغربی ثقافت کو لاگو کرنے کے در پے ہے۔ حالانکہ جس طرح یورپی اور پاکستانی طرزِ معاشرت ، فکر و نفسیات میں زمین وآسمان کا فرق ہے، اسی طرح ہر معاشرے کے اپنے طورطریقے ، نظامِ حیات اور سماجی رحجانات ہوتے ہیں۔ اگر مشرقی معاشرے میں مغربی معاشرے کی طرزکے قوانین بنائے جائیں گے تو اس سے خاندان سنوریں گے نہیں، بلکہ اسی طرح بگڑیں گے، جس طرح یورپ میں بگڑ چکے ہیں۔ یورپ میں مادر پدر آزادی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکا میں طلاق کی شرح 53 فیصد، اسپین، پرتگال اور ہنگری جیسے یورپی ممالک میں ساٹھ فیصد ہے۔ وہاں خاندانی نظام تباہ ہوچکے ہیں۔ مغربی قوتیں انتشار پیدا کر کے پاکستان کا خاندانی نظام بھی تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ عائلی زندگی کے حوالے سے بحیثیتِ مجموعی پاکستان مغرب سے بدرجہا بہتر ہے۔ خدانخواستہ پاکستانی معاشرے میں بھی مغربی سوچ و فکر کے قوانین کے نفاذ سے یہاں بھی عورت کی تذلیل ہوگی ، گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن جائے گی اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہوجائے گا۔

عورت اور مرد دونوں کو مل کر زندگی کو آگے بڑھانے اور سنوارنے کے لیے دونوں کے باہمی تعاون ربط اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں۔ دونوں ایک گاڑی کے دو پیہوں کی مانند ہیں، دونوں کو زندگی کا سفر بالکل متوازی انداز میں کرنا ہوتا ہے، اگر ان میں سے کسی ایک بھی پیہے میں خرابی پیدا ہوجائے تو زندگی کی یہ گاڑی نہیں چل سکتی۔ اسلام نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اپنے معاملات کو سلجھانے کی دونوں خودکوشش کریں۔ اگر ضرورت پڑے تو اپنے معاملے کو تیسرے سمجھدار، معاملہ فہم اور خیرخواہ فریق کے پاس بھی لے جایا جاسکتا ہے، تاکہ عائلی زندگی بگاڑ سے محفوظ رہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک میں مردوزن کے حقوق و فرائض کے حوالے سے علمائے کرام کی معاونت سے معاشرے میں اسلامی تعلیمات سے آگہی و شعور کو فروغ دے، تاکہ معاشرے میں عورت کو مکمل حقوق مل سکیں ۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636474 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.