عورت عزت کا دوسرا نام

عورت کسی بھی روپ میں ہوا سکا احترام سب پر لازم ہے ۔زمانہ جاہلیت میں عورت کو حقارت کی نگا ہ سے دیکھاجاتا تھا۔ بیوی کا مقام ایک غلام سے زیادہ نہ تھا ۔ عورت کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی ۔ الغرض یہ کہ عورت کو حقیر سمجھا جاتاتھا پھر اسی تاریک دور میں اسلام روشنی کی کرن بن کر آیا اور عورت کو معاشرے میں ہر لحاظ سے باعز ت مقام دیا۔ سب سے پہلے عورت کو ماں کے روپ میں بلند ترین درجہ دیا۔ اﷲ تعالیٰ نے ماں کی قدر بہت زیادہ دی ہے کیونکہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ ا س کے بعد بہن اور بیٹی کا مقدس رشتہ بنا کر ایک اعلیٰ مرتبہ دیا۔ بیٹی کو باعث رحمت قرار دیا ۔ زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا اور لڑکیوں کا گھر میں ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا۔

تاریخ اسلام میں ایک واقعہ یوں ہے کہ ’’ایک آدمی حضرت محمد ﷺ کے پاس آیا اور رونے لگا تو رسول اکرم ﷺ کے پوچھنے پر اس آدمی نے بتایا یا رسول اﷲ ﷺ مجھے سے بہت بڑا گنا ہ ہوگیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا ایسا بھی کیا ہوا؟ تو اس آدمی نے کہا میں نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جو معافی کے قابل نہیں ۔ پھر بتایا کہ میرے گھرمیں ایک بیٹی پیدا ہوئی تو میں نے اس کو قتل نہیں کیا اور اب وہ پانچ سال کی ہوگئی ۔ ایک دن باہر کھیل رہی تھی تو لوگوں نے مجھ سے کہا توکیسا بے غیر ت ہے کہ بیٹی کو رکھا ہوا ہے۔ جس سے مجھے بہت غصہ آیا اور میں اپنی بیٹی کو لیکر جنگل میں چلا گیا۔ راستے میں ننھی سے بچی نے مجھ سے پوچھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ جب میں جنگل میں پہنچ گیا تو میں نے ایک گڑھا کھودا۔ جب میں گڑھے سے مٹی نکا ل رہا تھا تو مٹی میرے کپڑوں پر گرگئی تو وہ میرے کپڑے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے صاف کرنے لگی اور میرا پسینہ بھی صاف کرتی رہی مگر مجھے اس پر رحم نہیں آیااور میں نے بچی کو گڑھے میں ڈال دیااور مٹی ڈالنا شروع کردی۔ بچی چلاتی رہی ،روتی رہی مگر پھر بھی میرے دل میں رحم نہیں آیا۔ یہ سن کر آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے بدنصیب شخص تو یہاں سے چلا جا کیونکہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

اس جدید دور میں بڑے افسوس کی بات ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ لڑکیوں کو باعث شرم سمجھتے ہیں۔ لڑکیوں کا ہونا احساس کمتری اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ ہے ہمارے اسلام کی تعلیم جو ہمیں اور ہماری سوچ کو بھی نہیں بدل سکتی؟ بہت سے لوگ بیٹیوں کو رحمت کی بجائے زحمت سمجھتے ہیں۔عورت کی مثال موم بتی کی سی ہے جو خود تو جلتی ہے مگر دوسروں کو روشنی دیتی ہے۔ بیوی کے روپ میں چراغ خانہ ہے جو کہ پورے گھر کو روشن رکھتی ہے ۔

اسلام نے عورت کے حقوق متعین کیے ہیں ۔ جن کی پاسداری تو بہت دور ہمارے معاشرے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہمارے ضمیر اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ ہماری تہذیب عورت کو صرف نام کے حقوق دیے جارہے ہیں۔’’عورت کے حقوق ‘‘ایک عام سے جملہ ہے ۔اگر کسی بھی شخص یا حکمران کو عورت کے حقوق کے بارے میں پوچھا جائے تووہ اسی جملے پر گھنٹوں تقریر کردیتے ہیں مگر عملی طور پر اس کا ثبوت نہیں ملتا۔

آج عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں مرد کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق عورت کے دماغ کا وزن 44اونس ہے جبکہ مرد کا 46اونس ہے۔ جس کی وجہ سے مرد قدرتی طور پر ذہین زیادہ ہیں اس کے باوجود عورت ہرشعبہ زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرتی ہے۔ استاد بن کر قوم کی رہنمائی کرتی ہے اورکبھی سائنسی تجربے میں رہنمائی کرتی ہے ۔ یوں تعلیمی میدان میں بھی آگے ہے مگر اس جدید دور میں بھی کچھ گاؤں اور دیہات کے

لوگوں میں عورت کی پڑھائی کو معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے دین میں تعلیم کے بارے میں یہ ہے ’’ علم حاصل کرنا ہر مرداورعورت پر فرض ہے‘‘ جب اسلام نے عورت کو حق تعلیم دیا ہے تو ہمارا معاشرہ کیوں اس کی مخالفت کرتا ہے ۔ جس کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔

کچھ خواتین اسلام کی دی ہوئی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔جہاں اسلام نے عورت کا تعلیم کا حق دیا توعورت کو تعلیم ضرور دلوانی چاہیے کیونکہ اگر عورت تعلیم یافتہ ہوگی تووہ اپنے گھر اس دنیا میں جنت بنا دے گی۔ گھر میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا، بچو ں کی پرورش اچھے طریقے سے ہوگی۔ مگر عورت کو بھی چاہیے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔ جہاں اسلام نے عورت کو اتنے حقوق دیے ہیں وہاں پر عورت کے لیے پردہ بھی لازم قرار دیا ہے ۔ تعلیم کے ساتھ انہیں اپنے پردے کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بے حیائی بہت پھیل رہی ہے ۔ اس بے حیائی میں جہاں مرد شامل ہیں اس سے زیادہ عورت کا ہاتھ شامل ہے کیونکہ وہ بے پردہ کیوں پھرتی ہے ؟تعلیم عورت کو اپنی حفاظت کے ساتھ ساتھ پردے کا بھی حکم دیتی ہے۔اسلام عورت کے بناؤ سنگھار سے منع نہیں فرماتا مگر وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اپنے گھر میں رہ کر سنگھار کرو اور کسی نامحر م کے سامنے بغیر پردہ نہ آؤ مگر ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ خواتین جیسے جیسے تعلیم حاصل کررہی ہیں ویسے ویسے پردے سے دور ہوتی جارہی ہیں۔

آجکل پنجاب اسمبلی میں جو بل حقوق نسواں کا بل پاس ہوا اس پر کافی چرچا ہے۔ کوئی پنجاب والوں کو زن مرید بول رہا ہے تو کوئی عورت کا غلام۔ سیاسی اورمذہبی لوگ اس بل پر کافی بحث و تکرار کرہے ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عورت مرد سے کبھی برتر نہیں ہوسکتی۔ دنیا وی حقوق کسی بھی رنگ میں ہوں مگر اسلام نے عورت کے جوحقوق متعین کیے ہیں ان سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ عورت مرد پر کبھی حکمرانی نہیں کرسکتی کیونکہ سمجھ دار عورت مرد کو بادشاہ بنا کر خود ملکہ بننا پسند کرتی ہے ناکہ عورت وہ خود بادشاہ بن کر اپنے مرد کو غلام بنائے۔

8مارچ کو عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن عورتوں کے حقوق پر بڑھ چڑھ کر باتیں کی جاتیں ہیں مگر جو لوگ ٹی وی، ریڈیو، اخبارات اور دوسرے میڈیا کے ذریعے اپنا اظہار خیال کرتے ہیں کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اس دن عالمی سطح تو دور پاکستان کی سطح پر کبھی وطن کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی یاد کیا ؟کب تک وہ کفار کی قید میں رہے گی؟ کون ہے جو اس کو آزادی دلائے گا؟
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 212104 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.