’’عافیہ……او عافیہ بیٹی‘‘
دادی جان نے پکارا۔
’’جی دادی جان۔‘‘
’’بیٹی امی سے کہو رفعت آنٹی آئی ہیں شربت بنا دو۔‘‘
’’جی اچھا دادی جان۔‘‘
’’امی! دادی جان نے شربت کے لئے کہا ہے رفعت آنٹی اپنے منے پر دم کروانے
آئی ہیں۔‘‘
’’شربت……؟‘‘
’’ہاں شربت بنا دیں۔‘‘
’’مگر بیٹی کیسے شربت بناؤں چینی ختم ہو چکی ہے ، صرف برف اور پانی سے تو
شربت نہیں بنتا نا؟‘‘
’’تو میں بتا دیتی ہوں کہ چینی نہیں ہے۔‘‘
’’ارے نہیں……نہیں بتانا بہت بری بات ہے ٹھہرو میں کچھ کرتی ہوں۔‘‘
’’ہائے اﷲ اب کیا کروں پڑوس سے بھی دو تین دفعہ لے چکی ہوں کیا کروں……کیا
کروں۔؟‘‘
فرج کھول کر دیکھا شربت کی بوتل بھی خالی پڑی منہ چڑا رہی تھی بلکہ اب تو
اس کو دھو کر پانی بھر کر رکھ دیاتھا۔ عافیہ نے دوسری بوتلیں الٹ پلٹ کر
دیکھیں۔ ارے یہ تھوڑا سا شہد پڑا ہے مگر یہ تو چھوٹے فراز کے لئے ہے۔
کھانسی ہونے میں کام آتا ہے۔ چلو فراز کی خیر ہے اسی کو برف اور پانی میں
کھول کر شربت بنایا اور گلاس ٹرے میں رکھ کر بھجوا دیا اﷲ اﷲ خیر صلا۔
۔۔۔۔کچے آم کی پیس کر چٹنی بنائی اور کھچڑی پکا رہی تھی ساتھ ساتھ ساس اماں
کا لیکچر بھی سن رہی تھی ۔
’’ ارے میری بیٹی تابندہ اتنی سلیقے والی تھی اﷲ اسے خوش رکھے گرمی کے دنوں
میں کیریوں کو ابال کر گرینڈ کرکے فرج میں رکھتی تھی، ادھر کوئی مہمان آیا
اور ادھر بغیر کہے شربت حاضر جگ بھر بھر کے شربت بنتا تھا۔‘‘
’’ارے اماں جی شربت کے لئے چینی ضروری ہوتی ہے اور کچے آم بھی منگواؤں تو
چٹنی بنانی ہوتی ہے، سالن کی جگہ چٹنی سے کام چلارہی ہوں ، اتنا کم سودا
منگوانے پر بھی پرچون والے کا لمبا چوڑا بل بن جاتا ہے۔ اس وقت ابا جان کی
کمائی آتی تھی اور وقت پر تنخواہ مل جاتی تھی، مجھے پتہ ہے ابا جان نے خود
بتائی تھی یہ بات کہ ان کے وقتوں میں ہر ماہ کی پہلی تاریخ پر تنخواہ تو
لازمی مل جاتی تھی کبھی دیر سویر نہیں ہوئی۔
’’ارے رہنے دو بہو یہ سب کام سے بچنے والی باتیں ہیں۔‘‘
’’ہاں آپ کی بیٹی تو بڑی ہی محنتی تھی، گھر میں گنا اگا کر پیل کے چینی بھی
بنا لیتی تھی اور جگ بھر بھر کے شربت پلاتی تھی مہمانوں کو ۔‘‘ اس نے دل ہی
دل میں کڑھتے ہوئے سوچا۔
’’امی میری یونیفارم دیکھئے کتنی خراب ہو چکی ہے ۔ رنگ بھی بہت ہلکا پڑ گیا
ہے ، مس روز کہتی ہیں گہرے رنگ کا یونیفارم پہن کر آؤ۔‘‘’’اچھا بیٹی کل
مارکیٹ سے رنگ منگوا کر تمہاری قمیض رنگ دوں گی، کچھ دن اور چل جائے گی۔‘‘
’’امی ……! امی ! یہ میری کتابیں کب سے رکھی ہیں پرانا کورس آپ نے دلوایا
جگہ جگہ سے صفحے پھٹ رہے ہیں، ڈھیلے ڈھالے ورق نکل جائیں گے۔‘‘
’’ارے بیٹا رات کو یاد دلانا میں خود گھر میں لئی پکا کر پرانی کاپیوں کے
کور لگا کر جلدیں چڑھا دوں گی پھر کتابیں مضبوط اور محفوظ ہو جائیں گی۔‘‘
’’آٹا ہے گھرمیں لئی پکانے کے لئے امی جان۔‘‘
’’ہاں مٹھی بھر آٹا تو ہو گا کنستر میں۔‘‘
’’افوہ آج تو بہت تھک گیا ہوں، اتنا کام اتنا کام کہ سر اٹھانے کی فرصت
نہیں ملی۔‘‘ طاہر نے جوتوں کے تسمے کھولتے ہوئے کہا۔
’’ہاں آپ کے دفتر میں کام تو بہت ہوتا ہے مگر دینے کے لئے تنخواہ نہیں
ہوتی، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی آخر معاملہ کیا ہے طاہر صاحب؟‘‘
’’ہاں بجٹ خسارے میں جا رہا ہے۔ آئے دن کی ہڑتالوں اور آپا دھاپی نے ہر کام
میں رخنہ ڈالا ہوا ہے ۔ پیسہ جہاں ہے وہیں رکا ہوا ہے ، کریں تو کیا کریں؟
’’چلئے آپ برآمدے میں چل کر بیٹھئے میں چائے لے کر آتی ہوں مگر چائے بھی
بغیر دودھ کی ہو گی دودھ والے کا بل جو نہیں دیا اس نے بھی دودھ لانا بند
کر دیا ہے۔‘‘
سبز چائے بنا کر وہ ٹرے لے گئی تو اماں کہہ رہی تھیں:
’’اے میاں تمہاری بہن اتنی سگھڑ تھی یاد ہے جب وہ یہاں تھی تو چائے کے ساتھ
سموسے بھی ہوتے تھے۔ گہرے تھال پر ململ لپیٹ کر آٹا چھان کر میدہ نکالتی
تھی اور بچے ہوئے قیمے کے سالن کو سکھا کر سموسے بناتی تھی اور آج وہ وقت آ
گیا ہے کہ خالی خولی چائے اور وہ بھی بغیر دودھ کی……ہونہہ پھوہڑ کہیں کی۔‘‘
’’طاہر آپ بتاتے کیوں نہیں اماں جان کو کہ تھالی پر کپڑا تان کر میدہ بھی
نکال سکتی ہوں، سموسے بھی بنا سکتی ہوں مگر گھر میں آٹا تو ہو، ماہ بہ ماہ
تنخواہ تو ملے، ہر مہینے کے پرچون کا سامان تو آئے گھر میں، سموسے تلنے کے
لئے تیل یا گھی بھی چاہئے۔‘‘
’’بتا دیجئے اماں کو کہ تین مہینے کی تنخواہ کے نام پر ایک پائی بھی نہیں
ملی، اماں کو پریشانی سے بچانے کے لئے آپ کچھ بتاتے ہی نہیں ہیں، بتا دیجئے
انہیں بتا دیجئے آٹا ہو تو سموسے بھی بنتے ہیں اور چینی ہو تو شربت بھی
بنتا ہے۔ |