او آئی سی اور فلسطین
(عابد محمود عزام, Karachi)
منصفانہ حل کے لیے اتحاد
اسرائیل کی جارحیت کے خلاف انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں اسلامی
ملکوں کی تعاون تنظیم او آئی سی کا ”منصفانہ حل کے لیے اتحاد“ کے عنوان سے
پانچواں غیر معمولی ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل کے 5 مستقل اراکین اور یورپی یونین کے نمایندوں سمیت 49 ممالک کے
سربراہان اور نمایندوں نے شرکت کی۔ اس موقعے پر پاکستان کے صدر ممنون حسین
نے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کو ہر مسلمان کی آواز اور انسانیت کے لیے
اہم قرار دیا ہے۔ اجلاس میں شریک او آئی سی کے سیکریٹری جنرل عیاض امین
مدنی، فلسطینی صدر محمود عباس اور دیگر تمام شرکاءنے مسئلہ فلسطین کے حل کے
لیے عالم اسلام پر زور دیا ہے، جب کہ میزبان ملک انڈونیشیا کے صدر کا کہنا
تھا کہ ”اسرائیل نے فلسطینیوں سے آزادی چھین لی ہے، اسرائیل کی جارحانہ
کارروائیوں پر شدید تشویش ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مسلم امہ کو اپنا
کردار ادا کرنا ہو گا۔ او آئی سی کا قیام 1969ءمیں بیت المقدس پر صیہونی
قبضے کے بعد عمل میں آیا تھا، لیکن او آئی سی مسئلے کے حل کے لیے آج تک
اپنا کردار ادا نہیں کر سکی تو پھر اس کے وجود کا کوئی فائدہ نہیں۔“
یہ ایک حقیقت ہے کہ سرزمین انبیاءفلسطین میں اسرائیل برسوں سے نہتے و بے
گناہ فلسطینیوں کے خون کی ندیاں بہا رہا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمین
سے بے دخل کر دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود نہ فلسطین کے معاملے میں نہ تو
کہیں او آئی سی کا وجود نظرآتا اور نہ ہی عالم اسلام کے ممالک کہیں دکھائی
دیتے ہیں۔ فلسطین کا دفاع کرنا اوآئی سی کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد
ہے۔21 اگست 1969ءکو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملے کے ردعمل کے طور پر 25 ستمبر
1969ءکو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ او آئی
سی میں مشرق وسطیٰ، شمالی، مغربی اور جنوبی افریقہ، وسط ایشیا، یورپ، جنوب
مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔
او آئی سی کی پالیسی ترتیب دینے کے لیے ہر تین سال کے بعد رکن ممالک کے
سربراہان کا اجلاس منعقد کیا جاتا ہے، جب کہ سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر
عملدرآمد کی صورتحال پر غور کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے،
لیکن افسوس او آئی سی کو اپنے بنیادی مقاصد صرف اسی وقت یاد آتے ہیں، جب
کوئی اجلاس ہوتا ہے، اجلاس کے بعد مسئلہ فلسطین سمیت امت مسلمہ کے تمام
مقاصد بھلا دیے جاتے ہیں۔
تمام ممالک کے سربراہان اپنے اپنے ممالک میں جا کر عالم اسلام کے مسائل کو
بھول جاتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ او آئی سی اپنے مقاصد
میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی ہے، کیونکہ دنیا بھر کے 1.2 ارب
مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور فلسطین کی آزادی کے لیے کام کرنا او آئی سی
کی ذمے داری ہے، لیکن ایک طرف او آئی سی کے ہوتے ہوئے عالم اسلام کے مختلف
ممالک اور دنیا بھر میں مسلمان اپنے حقوق سے محروم ہیں اور ظلم و ستم کا
شکار ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔ شام میں کئی سالوں سے
خونریزی کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک لاکھوں لوگ موت کو گلے لگا چکے ہیں۔
لاکھوں ملک بدر اور بے گھر ہیں۔ شام میں صرف درندگی کا راج ہے لیکن او آئی
سی نے شام میں بھی قیام امن کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ دوسری جانب
او آئی سی کے ہوتے ہوئے اسرائیل آئے روز فلسطینیوں پر حملہ کر دیتا ہے اور
متعدد بار اسرائیل نے بڑے حملے کر کے کھل کر فلسطین میں خون ریزی کی، لیکن
مسلم ممالک کی نمایندہ تنظیم او آئی سی اسرائیل کا ظلم رکوانے میں ناکام
رہی ہے۔ حالانکہ او آئی سی کے پروگرام آف ایکشن کے ایک حصے میں لکھا گیا ہے
کہ یہ تنظیم ہر کوشش کرے گی، تا کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ختم کرایا
جائے، لیکن یہ فلسطین کا مسئلہ حل نہیں کروا سکی۔
مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے لیے ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ فلسطین میں پچھلی
نصف صدی سے ساٹھ لاکھ سے زائد انسانوں کا سوال ہے جن سے ان کا وطن بزور قوت
چھین لیا گیا ہے۔ فلسطین میں صہیونی ریاست مغربی استعمار کی باقی ماندہ
بدنما شکل کی صورت میں قائم ہے۔ فلسطین پر قابض صہیونی قوت ایک مسلمہ حقیقت
ہے، لیکن یہ تفوق نا قابل تسخیر نہیں ہے۔ اگر امت مسلمہ متحد ہو کر مسئلہ
فلسطین کو حل کروانے کی کوشش کرے تو ناممکن نہیں ہے۔ اس وقت 62 مسلمان
ممالک میں آباد ڈیڑھ ارب مسلمان اگر سیسہ پلائی دیوار کی مانند یکجا ہو
جائیں تو پھر اسرائیل ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، لیکن آج دنیا میں خود
مسلمان مشکلات کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کو دیگر اقوام کے مقابلے میں انھیں
کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہیں۔ ہر کوئی اس صورت حال کی مختلف وجوہ بیان
کرتا ہے۔ کوئی غیر مستحکم مسلم حکومتوں کو تو کوئی سائنس و ٹیکنالوجی کی
دوڑ میں پیچھے رہ جانے کو اس کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔ کوئی متفقہ خلافت کا
نہ ہونا تو کوئی تعلیم کی کمی کو سبب بتلاتا ہے۔ حکومت و اقتدار، مال و زر،
سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم وتربیت، جمہوریت یا خلافت سمیت یہ تمام عناصر
مسلم امہ کے لیے اپنی اپنی جگہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، جن کی حقیقت سے
انکار ممکن نہیں، لیکن ان تمام سے بڑھ کر امت مسلمہ کو آج سب سے زیادہ
ضرورت ”اتحاد“ کی ہے۔ اس وقت ساڑھے چھ ارب کے قریب انسانوں میں سے سوا ارب
سے زاید مسلمان ہیں اور وہ دنیا کے معدنی ذخائر کے75 فیصد کے مالک ہیں۔
دنیا کی بہترین بندرگاہیں، آبی گزرگاہیں، زمینی اور فضائی راستے مسلمانوں
کے پاس ہیں۔ سب سے اچھا محل وقوع مسلم ممالک کا ہے۔ تیل کے لبالب بھرے
کنویں اور سونے کی کانیں ہیں۔ اس کے باوجود پسماندگی اور کمزوری مسلمانوں
کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ عالم اسلام اور مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد
کا فقدان ہے۔
مسلمان اتحاد کے فقدان کے باعث روز بہ روز کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ مسلمان
جس مہذب مذہب کے پیروکار ہیں، وہ اتحاد کا بہت زیادہ درس دیتا ہے اور اس پر
تاکید کرتا ہے۔ اسلام کے ارکان و احکام میں بھی اتحاد کا درس ملتا ہے۔ قرآن
مجید میں ارشاد ہے: ”سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس
میں تفرقہ نہ ڈالو۔“ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق و اتحاد پر
دیا گیا ہے۔ آپس میں محبت، اخوت، بھائی چارہ، ایمان، اتحاد اور یقین
مسلمانوں کا موٹو ہے۔ انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے Unity is Strength
”اتحاد قوت ہے۔“ آج مسلمان اختلافات کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ اختلافات کے
سبب ہی مسلمان نہ تو مسئلہ فلسطین حل کروانے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور نہ
ہی اپنے دوسرے مسائل حل کروا سکے ہیں۔ اتحاد کے بغیر عالم اسلام کے مشکلات
سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ دنیا بھر کے تمام مسلم ممالک کو چاہیے کہ
متحد ہو کر اپنے حقوق کی جنگ لڑیں اور مسئلہ فلسطین و کشمیر سمیت تمام
مسائل حل کروائیں، اس کے بغیر اپنے مقاصد میں کامیاب ہونا ناممکن ہے۔ |
|