حقوق نسواں بل

 پاکستان میں آتی جاتی حکومتیں یوں تو عوام الناس کے لئے درد سر سے بڑھ کے اور کیا ہو سکتی ہیں اس کا اندازہ تازہ ترین "حقوق نسواں بل" چیسے لطیفے سے ثابت ہو گیا کہ عوام کے درد کا باعث حکومتیں اپنی عوام کو "تفریحات وقتی" کا ٹانک پیش کر کے انہیں بہر حال زندہ رکھنا چاہتی ہیں کیونکہ عوام ہی نہ رہی تو حکومت کسے مشق ستم بنائیں گی-

ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں تو جائز حقوق کی بات کرنا ہی سزا بن جاتا ہے اوپر سے باقی کمی اس بل کے شوشے نے پوری کر دی مختلف این جی اوز پورے زور و شور سے اس کے فوائد گنوا گنوا کے نہیں تھک رہیں
"خادم اعلی کا ہے فرض تفریح آپ کی"

لاہور کی سڑکیں پیرس بن چکیں تھیں،طلبہ لیپ ٹاپ کے بل بوتے ٹاپ پہ ٹاپ کر رہے تھے،پولیس معطل ہو ہو کر راہ راست پہ آگئی تھی تھانوں میں قیدیوں کی بجائے الو بول رہے تھے خادم اعلی کی ریاست میں نیرو چین کی بانسری بجا لیتا اگر بےچاری عورتوں کے حقوق ہڑپ نہ کر لئے جاتے وہ تو اچھا ہوا کہ کے خادم اعلی کی دور رس نگاہیں اچانک کھل گئیں جو گذشتہ تین سال سے نیند کی خماری سے بوجھل تھیں اتنی بوجھل کہ انہیں سانحہ ماڈل ٹاون کی دم توڑتی عورتوں کی آہ و بکا بھی نہ جگا سکی تھی اور نہ ہی پنجاب اور ارد گرد میں بے قصور مختلف واقعات میں قتل ہونے والی بچیاں اور عورتیں جگا سکیں تھیں

سنا ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار خواتین اپنی شکایت متعلقہ تھانہ آفس میں کروائیں گی اور معمولی تشدد میں حوالات کی سیر اور شدید گھریلو تشدد ثابت ہونے پر پولیس ملزم(پتہ نہیں مظلوم)کو جی پی ایس کڑا اعزازی طور پہنا کے نہایت دھوم دھام سے تھانے سے رخصت کرے گی اب یہ نہیں پتہ کہ ملزمان کے دونوں بازووں پہ کڑا پہ کڑا اعزاز بخشتا رہے گا تو کڑے کے لئے جگہ کی کمی کے باعث ٹانگوں کے لئے "سنگل" کا اعزاز تحقیری کی شروعات کی جائیں گی اور مردانہ انا پہ کاری ضرب لگ چکے کی تو تو آیا وہ تشدد سے باز آجائے گا یا اور باغی بن کے کسی نئے تشدد کی شروعات کر دے گا-

مولانا فضل الرحمن کی اس بل سے متعلق تمام ہمدردیاں مردوں کے ساتھ ہیں اور وہ عنقریب حقوق مرداں کی آواز بن جانا چاہتے ہیں مولانا صاحب کے لئے تو یہ ہی اک بات کافی ہے کھ ذرا وھ تو بتائیں کھ غیرت کے نام پر جائداد کے تنازع یا پھر اور گھریلو لڑائی جھگڑوں میں مردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی عورتوں کی تعداد زیادہ ہے یا پھر مردوں کی اور یہی تناسب ان کی آنکھ کھول دینے کے لئے کافی ہو گا ویسے تو وہ کھلی آنکھوں کے باوجود بند آنکھ سے ہی دیکھنے کے عادی ہیں-

جناب آصف زرداری نے غیرت کے نام قتل کی روک تھام کے لئے" بل " کا ذکر کر کے غیرت کا ثبوت پیش کیا ہے
بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں دو طرح کے طبقات ہیں ایک وہ جو ایسے بلوں اور انسانی حقوق کی آواز میں آواز ملاتے ہیں اوریک وہ جو ایسے بلوں اور قانون کے خلاف ہیں اور بے چاری بھولی بھالی سوئی ہوئی قوم کو ہرگز نہیں پتہ جل پا رہا کھ دونوں ہی نے عوام کے لئے کرنا کرانا کچھ نہیں جب تک عدلیہ آزاد نہ ہو تعلیم کے مواقع عام نہ ہوں غربت کا گردوغبار نہ چھٹے دین سے دوری نہ ختم ہو تربیت کی لاٹھی ہم پر نہ پڑے ہم کیسے ہوش میں آ سکتے ہیں بس یہ ہی چلتا رہے گا
راجہ بین بجاتا جائے،رانی گانا گاتی جائے،
کالم میں لکھتی ہوں،قارئین پڑھتے جائیں.
Anum Ahmed
About the Author: Anum Ahmed Read More Articles by Anum Ahmed: 7 Articles with 6375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.