کیا 2016میں کراچی کے وسائل واپس لیے جاسکیں گے ؟

ہم الحمد ﷲ 2016داخل ہوچکے ہیں۔بحثیت پاکستان ہر کی طرح اس سال کے لیے تفکرات اور خواہشات ہیں۔کراچی والوں کی خواہش ہے کہ شہر میں امن و امان کی بحالی کا سلسلہ جو ختم ہونے والے سال میں شروع ہوا تھا وہ اسی طرح جاری رہے اور کراچی ، کراچی بن جائے وہ کراچی جہاں راتیں جاگتی تھیں ، جسے روشنی کا شہر کہا جاتا تھا۔ جہاں جب ایک قتل کا واقعہ ہوتا تو کئی روز تک اس کی بازگشت رہتی۔ایسا کراچی جہاں لوگوں کو ٹرانسپورٹ کے لیے بڑی دستیاب تھیں ۔جہاں کے اداروں میں کرپشن نہ ہونے کے برابر تھی اور منتخب میئر کراچی عبدالستار افغانی صاحب جیسے شخصیت تھی۔بلدیاتی نظام سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979کے تحت چلتا تھا ۔ شہری کو سہولیات بہم پہنچانے والے ادارے شہر ادارے کے ایم سی کنٹرول میں تھے ۔میئر کراچی عبدالستار افغانی ایسے میئر تھے جو رہتے لیاری کی ایک پرانی عمارت میں تھے لیکن شہریوں کو سکون دلانے اور کراچی کو اس کا حق دلانے میں مصروف رہا کرتے تھے ۔

1987میں جب حکومت سندھ نے کراچی کا موٹر وہیکل ٹیکس خود براہ راست لینے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کے میئر عبدالستار افغانی کی نیندیں اڑ گئیں ۔انہوں نے اپنے ساتھی کونسلرز کے ساتھ احتجاج کی غرض سے سندھ اسمبلی کے دروازے کا رخ کیا تو اس وقت کی صوبائی حکومت جو مسلم لیگ ہی کی تھی کہ وزیراعلیٰ غوث علی شاہ نے بلدیہ کراچی کی کونسل کو معزول کردیا ۔ اس طرح جمہوری حکومت نے بنیادی جمہوری نظام کو گلا گھونٹ ڈالا۔ کراچی کی ترقی کو روکنے کے لیے گہری ضرب لگادی گئی تھی۔

آج کراچی کو کسی’’ حق پرست ‘‘سے زیادہ شہر پرست کی ضرورت ہے ۔ جو کراچی کے ادارے شہر کو واپس دلائے ۔ کراچی واٹر اینڈسیوریج بورڈ ، کراچی بلڈنگز ، کنٹرول اتھارٹی ،کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جو اب معزول ہوچکی جبکہ اس کی جگہ مخصوص آبادی کو نوازنے کے لیے لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کردی گئی)قوم پرست سیاست دانوں نے کراچی کو تقسیم در تقسیم کردیا مگر اس کے اداروں کا کنٹرول اپنے قبضے میں لے لیا۔

نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی منتخب بلدیاتی کونسلوں کا قیام بھی عمل میں آجائے گا۔ لیکن اس بار جو میئر کراچی ہوگا ۔وہ بابائے شہر تو ہوگا مگر اس کے پاس شہر کا نظام نہیں ہوگا ۔ کیونکہ صوبائی حکومت نے تمام اہم محکموں کا کنٹرول اپنے کرلیا ہے یا انہیں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز (ڈی ایم سیز ) میں تقسیم کردیا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ صفائی جو بلدیاتی اداروں کا کام ہوتا ہے وہ اب حکومت سندھ براہ راست خود کرائے گی ۔یہی نہیں بلکہ ایڈورٹائزنگ اور بلڈنگز میٹریل سے متعلق امور بھی اب کے ایم سی کے پاس ماضی کی طرح نہیں رہے ۔کراچی کے شعبہ ماسٹر پلان پر بھی صوبائی حکومت قبضہ کرچکی ہے تاکہ اسے اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کیا جاسکے ۔ماسٹر پلان کے محکمے کو تحویل میں لینے سے قبل کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی پر قبضہ کیا گیا پھر اسے سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی میں تبدیل کرلیا گیا ۔ سندھ بلڈنگز لینے کے بعد کراچی کے ماسٹر پلان کو سندھ بلڈنز کے ماتحت کردیا گیا۔ نتیجہ میں تعمیراتی سرگرمیوں کا مرکز کراچی ہے مگر بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی اتھارٹی سندھ کی ہے ۔ٹرانسپورٹ کا شعبہ جو 80ء میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپویشن کے نام سے خود مختار ادارہ تھاختم کردیا گیا تو اس کی ذمہ داریاں بھی ہوا ہوگئیں اب نہ سرکاری شعبہ کی ٹرانسپورٹ ہے اور نہ ہی ذمہ داریاں کسی کے پاس ہیں ۔

شہر کو پینے کا پانی فراہم اور نکاسی آب کی ذمہ داریاں ادا کرنے والا ادارہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ مکمل طور پر سندھ گورنمنٹ کے ماتحت ہے ۔ ماضی میں یہ میئر کراچی اور بلدیہ کراچی کی نگرانی میں ہوا کرتا تھا اس کے چیئرمین میئر یا ناظم ہوا کرتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔ اب اس کا چیئرمین صوبائی وزیر بلدیات ہیں۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو اپنی نگرانی میں لینے کے بعد اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے انجینئر اور افسران کے ساتھ کرپٹ افسران کی چاندی ہوچکی ہے۔صوبائی حکومت کے اثر ورسوخ کے باعث غیر قانونی طور پر آؤٹ آف ٹرن ترقیاں پانے والوں کو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اپنی اصل پوسٹ پر نہیں بھیجا جاسکا۔

اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت نے اپنی آمدنی کے ذرائع بڑھانے اور بلدیہ کراچی یا کراچی کی براہ آمدنی کے ذریعے ختم کرنے کے لیے سندھ فوڈ اتھارٹی کے قیام پر بھی غور شروع کردیا ہے ۔ جس کے بعد فوڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول کا محکمہ بلدیہ سے واپس لیکر اس اتھارٹی میں ضم کرنے کا ارادہ ہے تاکہ فوڈز سے متعلق لائسنس وغیر ہ کا اختیار بھی حکومت کے پاس چلا جائے ۔

بلدیاتی انتخابات وقت پر نہ کرواکر بلدیاتی اداروں کے وسائل اور اختیارات کا قبضہ بھی شروع کردیا گیا تھا اس دوران کراچی کے حقوق کے دعویدار حق پرست نمائندے سندھ اسمبلی میں واک آؤٹ پر رہے یا پھر سیاسی حکمت عملی کرکے اپوزیشن میں بیٹھ گئے ۔نتجینے میں سندھ اسمبلی سے بل منظور ہوتے رہے اور کراچی کے وسائل جاتے رہے ۔

نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی چارج سنبھالنے والی بلدیہ کراچی کو کراچی کے وسائل اور اختیارات کی عملی کوشش کرنی ہوگی ۔ اسی طرح کی کوشش جو عبدالستار افغانی نے 1987میں موٹر وہیکل ٹیکس کے حصول کے لیے کی تھی ۔ اگر منتخب نمائندے کراچی کو پہلے کی طرح کا کراچی نہ بناسکے تو پھر ان کے دعوے بھی ہمیشہ کی طرح ہوا میں اڑجائیں گے ۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165876 views I'm Journalist. .. View More