ملک پر عدم رواداری کا خوفناک سایہ!

 ایک مقولہ ہے ’ جو ہانڈی میں ہوگا ، وہی ڈوئی میں لگے گا ‘۔ ہندوستان کے متعلق قومی اور عالمی سطح پر جاری ہونے والی رپورٹوں میں جو انکشافات ہو ئے ، وہ صد فیصد ملک کی صورتحال کے آئینہ دار ہیں۔ منظر عام پر آنے والی بیشتر رپورٹوں میں ملک عزیز کی جگ ہنسائی کے معاملات ہوتے ہیں ۔ کبھی ملک میں پھیلی انارکی اور بدعنوانی کا تذکرہ ہوتا ہے تو کبھی عدم رواداری اور مذہبی تشدد کے حوالے سے ملک کی شبیہ مسخ نظر آتی ہے ۔ کبھی انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی اعداد وشمار ہوتے ہیں تو کبھی جنسی جرائم کی مکروہ رپورٹ ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ میں ہندوستان کے متعلق جو حقائق پیش کیے گیے ، وہ ملک کے لیے انتہائی شرمناک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان نہ صرف مذہبی تشدد پر قابو پانے میں ناکام ہے ، بلکہ اشتعال انگیز عناصر اور جانبدار مقرروں کو پرموٹ کرنے میں بھی پیش پیش ہے ۔ یہاں روز بروز عدم رواداری کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی 2014 سے اب تک 3ہزار 2سو سے زائد ایسی گرفتاریاں عمل میں آئیں ، جن میں سے کسی پربھی کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ اسی طرح 47ہزار جرائم درج فہرست ذاتوں کے خلاف ہوئے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت واشگاف کی گئی ہے کہ ہندوستان میں مفکروں ، دانشوروں ، تعلیمی اداروں اور آزاد خیال لوگوں پر دباؤ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

حقوق انسانی کی خلاف ورزی اور عدم رواداری کے معاملات میں ہندوستان کے لیے حقائق ہمیشہ شرمناک ثابت ہو ئے ۔ حکومت خواہ کسی بھی پارٹی کی ہو ، حقوق کی پامالی کا گراف یہاں کبھی کم نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر آنے والی نئی حکومت عدم رواداری کے نئے نئے ریکارڈ قائم کرنا اپنا فریضہ تصور کرتی ہے ۔شاید اسی نقطہ ٔ نگاہ سے موجودہ مرکزی حکومت وہ سب کچھ کرتی جارہی ہے ، جس کا ملک کی شرمناکی کے تئیں تاریخ میں کہیں ذکر نہیں تھا۔ لیکن دوسری طرف پارٹی کے بڑے لیڈران ہمیشہ رواداری اور بقائے باہم کی دہائی دیتے رہتے ہیں۔کچھ دنوں قبل وزیر اعظم ،مرکزی وزیر داخلہ اور لال کرشن اڈوانی نے بقائے باہم کی زبردست وکالت کی تھی اور ملک کو شدت پسندوں سے بچائے رکھنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا ۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان عزائم کے باوجود بھی ملک میں سالمیت کی فضا قائم نہیں ہوپارہی ہے ۔ دن بہ دن فقط مذہبی تشدد ہی نہیں ، ذہنی تشدد کی بھی یلغار جاری ہے ۔جس سے ایسا محسوس ہونے لگاکہ ملک میں فقط ایک ہی نظریہ کے ماننے والوں کا گزارا ممکن ہے ۔جیسا کہ کہا گیا کہ ملک میں خواہ کسی بھی پارٹی کی حکومت کیوں نہ ہو، یہاں عدم رواداری کا ہمیشہ سے بول بالا رہا ہے۔اس کی وضاحت کے لیے یہی کافی ہے کہ گزشتہ چار برسوں(2012-15) کے دوران ہندوستان میں تقریباً3لاکھ 28ہزار 847 انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات سا منے آئے۔2012-13میں82ہزار ، 2013-14میں 84ہزار 359،2014-15میں مقدمات درج ہوئے۔ ان اعداد وشمار کے پس منظر میں سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ہرآنے والا سال عدم رواداری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات میں اضافہ کا سوغات لے کر ہی آتا ہے ۔ خصوصاًجب سے بی جے پی نواز حکومت قائم ہوئی تب سے اور بھی ملک کا برا حال ہے۔حق اظہار رائے چھیننے کے معاملات سے لے کر ملک مخالف سرگرمیوں تک میں بزعم خود ملک کے وفار دار ہی ملوث نظر آرہے ہیں۔ انٹرنیشنل ایمنسٹی کی رپورٹ سے قطع نظر حالیہ چند اعداد وشمار پر نگاہ ڈالیں تو ملک کی شرمناک صورتحال از خودسامنے آجائے گی۔ فروری 2015میں گووند پانسرے کی کتاب ’شیواجی کون تھے؟‘کی پاداش میں فرقہ پرستوں نے ان پر جان لیوا حملہ کردیا۔ جیل میں قید فرید خان نامی نوجوان کو ناگالینڈ کی کسی لڑکی پر تشدد کے الزام میں مشتعل ہجوم نے جیل سے باہرلاکر بے دردی سے مارڈ الا۔ مئی 2015میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ذیشان علی خان کوملازمت سے کہہ کر برطرف کردیا گیاکہ وہ مسلم ہے۔ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نے اس معاملہ کا نوٹس لیا ہے ، مگر وہ بھی دو ایک دنوں میں اس طرح بھول گئیں ، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ان جیسے نہ جانے کتنے واقعات ہیں ، جن میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ ایم ایم گلبر گی ، شہادت اخلاق ،غیر قانونی حمل ونقل کاجھوٹا الزام عائد کرکے سہارنپور کے نعمان اختر کا قتل،دنگیر یونیورسٹی کے 23سال صحافت کے طالب علم ہوچنگی پرساد پر ہجوم کا حملہ ،فلم اسٹار شارخ خان اور عامرخان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی مہلک مہم ، ٹیپو سلطا ن کے والد حیدر علی پر عدم رواداری اور غیر مسلموں کے قتل کا الزام ،فلم باجی راؤمستانی پر ہنگامہ آرائی اور پھر منظم طریقے سے تعلیمی اداروں پر سنگین الزامات عائد کرنا کن نظریات کی غمازی ہے ۔ ملک کی تاریخ میں کئی مرتبہ ایسا ہواکہ جانے انجانے میں مختلف تعلیمی اداروں پر نشانہ سادھنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم آج جس منصوبہ بندی کے ساتھ یک لخت بیشتر تعلیمی اداروں کو ہدف تنقید بنایاجارہا ہے ، اتنی بدترین تاریخ شاید کبھی ہندوستان میں درج نہیں ہوئی ۔

مذکورہ سطور میں پیش کیے گیے حقائق سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ،جس پر آرایس ایس کا رنگ نہ چڑھانے کی کوشش کی گئی ہو۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی واضح ہورہی ہے کہ بی جے پی ملک میں انارکی پھیلا کر دوطرفہ کوششوں میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ ماضی کی بیشتر حکومتوں نے بھی عوام کو ہمیشہ اہم ایشوز سے بھٹکا نے کی کوشش کی ۔ وقفہ وقفہ سے بنیادی مسائل کے سامنے ہنگامی پٹاخے چھوڑے گیے ، تاکہ حکومت سے جوابدہی کا موقع ہی نہ ملے ۔ تاہم بی جے پی کی شاطرانہ کرتوتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف عوام کو بنیادی معاملات پر گفتگو سے روک رہی ہے ، بلکہ ذہنی یلغار میں بھی مصرف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ راست طور پر تعلیمی ادارو ں کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے ۔ظاہر ہے کہ تعلیمی اداروں کے علاوہ دیگر معاملا ت پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو مشترکہ طور پر پورا ملک ایک ساتھ نظر نہیں آئے گا۔ مخصوص حلقوں کے افراد ان ایشوز پر ہنگامہ آرائی کریں گے۔ تاہم ملک کا مقدر چمکانے والے اداروں کو نشانہ بنایاجائے گا تو پورا ملک ان اداروں کے دفاغ میں مصروف ہوگا اور ملک کا کوئی فرد کسی اور ایشوپر حکومت کو گھیرنے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ کیوں کہ ان کے سامنے تعلیم اداروں کا تحفظ ہی اولین مقصد ہوگا ۔ اس کے علاوہ شاید بی جے پی اپنے اس منصوبہ میں بھی کامیاب ہونا چاہتی ہے کہ باربار تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جائے تو طلبا حکومت کے فیصلہ پر خوف کے مارے کوئی آواز بلند نہیں کریں گے اور اس طرح اسے اپنے ہر فیصلہ کو عملی جامہ پہنانا آسان ہوجائے گا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ آر ایس ایس کی تنظیمیں تعلیمی اداروں کو اپنے رنگ میں رنگ لیں گی۔ تعلیمی اداروں کے پس منظر میں جاری سیاست بھی عدم رواداری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔ عموما ً ایسا ہی ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں کے باشعور طلباجس طرح غیر جانبداری سے حکومتوں کی سمت ورفتار اور سرگرمیوں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں ، اس طرح شایدہی دیگر افراد حکومتی معاملات کو سنجیدگی سے لے پاتے ہیں۔ کیوں کہ بے شمار افراد کے بہت سے مفادات حکومت سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کے لیے واضح طور پرسامنے آنا مشکل بن جاتا ہے ۔ وہ بے لاگ تجزیہ بہ مشکل تمام ہی کرپاتے ہیں۔یا پھر ایک ایسی ٹولی ہوتی ہے ، جس کا مقصد فقط برسر اقتدار پارٹی کی ٹانگیں کھینچنا ہوتا ہے، ایسے میں کوئی صاف وشفاف تجزیہ لوگوں کے سامنے نہیں آپاتا۔ جب کہ طالب علم کے سامنے مراعات ومفادات کی کوئی ایسی رشتہ داری نہیں ہوتی ، چنانچہ وہ بے لاگ اور غیرجانبدارانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ایسے طلبا کے کردار سے ظاہر ہے آرایس ایس نواز حکومتوں کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس لیے منظم طریقے سے تعلیمی اداروں کو نشانہ پر لے کر انھیں دماغی ،ذہنی اور لاشعور ی طور پر مفلوج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس طرح ملک کے ماتھے پر عدم رواداری کا ٹیکہ رفتہ رفتہ اور بھی کریہہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ظاہر جب تک ملک میں ایسی روش قائم رہے گی ، اس وقت تک عالمی سطح پر جاری ہونے والی تمام رپورٹوں میں ملک کا داغدار چہرہ ہی ابھرے گا
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100789 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More