بیٹی

بیٹی۔اللہ پاک کی ایک ایسی نعمت ہے، کہ اسکا انکار کوئی بھی باشعور انسان نہیں کرسکتا، خاص طور پر ہمارے اسلامی معاشرہ میں تو بیٹی کی بہت وقعت ہے، اسکی حرمت اور عزت کو غیرت سے تعبیر کیا جاتا ہے، جو کہ اس رشتہ کی پاکیزگی اور محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ نہ جانے کیا بات ہے، اس رشتے کی اہمیت اور حلاوت وہی محسوس کرسکتا ہے، جو خود ایک بیٹی کا باپ ہو، دین اسلام میں اس رشتے کی اہمیت کا اندازہ اسبات سے کیا جاسکتا ہے، کہ اللہ پاک نے میرے نبی ﷺ کو اس نعمت سے نوازا۔ اور اس رشتے کی حرمت کہ پہچان کرائی۔ ورنہ قبل از اسلام کا زمانہ ہمیں بتاتا ہے، کہ ایسے لوگ بھی ہوتے تھے، کہ غیرت کے نام پر بیٹی کے وجود سے منکر تھے، اور باعث بےعزتی ،شرمندگی، اور کمزوری سمجھتے تھے۔ اور زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔

مہذب معاشرہ میں آج بھی بیٹی کو قدرومنزلت سے دیکھا جاتا ہے، خاص طور میں ہمارے اسلامی معاشرہ میں بیٹی کا مقام ہی کچھ اور ہے۔میرے نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ میں کئی جگہ، بیٹی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ آج بھی تہذیب یافتہ گھرانوں میں بیٹی کو باعث عزت، غیرت اور افتخار سمجھا جاتا ہے۔

کہتے ہیں جس گھر میں بیٹی نہ ہو وہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔ رشتوں کی اس ڈور میں سب سے نازک اورکومل ڈور یہی ہوتی ہے۔ جب تک والدین کے گھر میں ہوتی ہے۔ کبھی شعلہ اور کبھی شبنم کی مانند ہوتی ہے۔ یہ ایسی صنف ہے، جسکا وجود گھر میں محبت، خلوص، خدمت کا پیکر ہوتی ہے۔

خوش ہو تو، گھر میں خوشیان بکھرنے لگتی ہیں، چھوٹی چھوٹی سی باتوں اور خواہشوں پر زندہ رہتی ہے۔ چھوٹی ہوتی ہے، تو اپنی پیاری پیاری حرکتوں سے شرارتوں سے گھر بھر روشنی بکھیرتی رہتی ہے۔۔۔ اپنی توتلی زبان سے جب، بابا کہہ کر پکارتی ہے۔ تو دل ہاتھ میں آجاتا ہے۔ دعوا اور اختیار اتنا جماتی ہے، کہ بابا کے گرد منڈلاتی رہتی ہے، بابا پر اسوقت کسی کا اختیار نہیں ہوتا، سونا ہے تو بابا کی گود میں بیٹھنا ہے تو بابا کی گودمیں۔ اپنے بابا کے قریب کسی کو آنے نہیں دیتی۔

اپنے حصے کا پیار کرانا بچپن سے جانتی ہے۔ وہ سارے کام کرنے کا شوق ہوتا ہے، امی کے ساتھ سارا دن لگی رہتی ہے۔ اگر امی صفائی کررہی ہے، تو ساتھ ننھے ہاتھوں سے ہاتھ بٹانے لگتی ہے، امی کھانا پکانے لگے تو اپنے بابا کا کھانا خود پکاتی ہے۔ اپنے کھلونوں کو بہت سنبھال کر رکھتی ہے۔ امی ڈانٹ دے تو رونے لگتی ہے، ذرا اونچی آواز میں بولو تو سہم کر کونے میں کھڑی ہوجاتی ہے، اپنے ننھے ننھے ہاتھو ں کو ایک دوسرے سے پکڑکر ڈآنٹ سنتی ہے، اور سر جھکا لیتی ہے، اسکی حالت دیکھ کر دل ہی نہیں کرتا کہ اسے ڈانتا جائے،
بیٹا یہ تم نے کیا کیا، تم نے گلاس توڑ دیا۔۔۔۔۔ ننھی پری سہمی سامنے کھڑی ہے ۔ آنکھوں میں بڑ ے بڑے آنسو سنبھالے، سر جھکا ہوا ہے۔ ننھے ہاتھ سینے ہر بندھے ہوئے ہیں، چہرہ کا رنگ فق ہورہا ہے، جیسے بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا، خاموش اپنے پیرون کو تک رہی ہے، بیٹا جواب دو تم نے کیا کیا، ۔۔۔۔ بری مشکل سے دو الفاظ نکلے،،،، سوری بابا، میں آپکے لئے پانی لارہی تھی، گلاس چھوٹ گیا، سوری اب ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ سینے میں رکی سانس ہچکی بننے لگی۔۔۔ ابو کا دل پھٹ گیا، میری بیٹی میری جان، کوئی بات نہیں ، گلاس ٹوٹ گیا، اور آجائے گا۔ با با کو شرمندہ کردیا، کہ میں نے کیوں ڈانٹا اپنی ننھی گڑیا کو۔ بابا کیا کرے ۔ سوری بیٹا مجھے تم کو نہیں ڈانٹا چائیے تھا، میری جان بس رونا نہیں۔۔۔۔۔بس پھر کیا تھا،،، ننھی پری کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے، بابا کی باہوں میں سما گئی۔ بابا کے سینے میں منہ چھپا لیا، آنکھوں میں آنسؤں کی جھڑی لگ گئی، زبان سے صرف ایک بات نکل رہی ہے، سوری بابا اب نہیں توڑونگی، مجھےمعاف کردیں،

اور بابا اب پچھتارہا ہے،،، دلاسے دے رہا ہے، آئسکریم کا لالچ دے رہا ہے، ماتھا چوم رہا ہے، بس بیٹا سوری مجھے نہیں ڈانٹا چائیے تھا ، مجھسے غلطی ہوگئی۔ بس بیٹا بس ،،میں اب کبھی نہیں ڈانٹونگا ۔۔ امی دلاسے دے رہی ہے، بابا سے لڑ رہی ہے، لو جی گلاس بھی توڑا ، اور شرمندہ بھی کردیا۔۔۔ کیا کرے بیٹی جو ہوئی، ۔۔ امی کی پیاری، دادی کی لاڈلی، اب گھر بھر کی سنو۔ بیٹے اور بیٹی میں یہی فرق ہوتا ہے۔

بیٹا غلطی کرتا ہے، تو باپ ڈانٹ لیتا ہے، ضرورت پڑے تو جوتے بھی مار لیتا ہے، گھر سے باہر نکال بھی دیتا ہے، سزائ بھی دے لیتا ہے، کیونکہ جانتا ہے، بیٹا ہے کہیں نہیں جائے گا، خود آئے گا غلطی کی معافی مانگے گا، اور معاملہ ختم ہوجائے گا، دعوا ہے اپنا مال ہے، اپنے ہی پاس رہے گا۔۔زیادہ ناراضگی ہوگی تو اپنی مان کو یا دادی کو سفارشی بناکر لے آئیگا۔

لیکن بیٹی ۔ اگر غلطی کردے، تو یہ آپ ہاتھ اُٹھا سکتے ہیں، نہ سزاء دے سکتے ہیں، نہ باہر نکال سکتے ہیں، نہ اونچی آواز میں ڈانٹ سکتے ہیں، اپنی ہوتے ہوئے بھی اپنی ہونے کا دعوا بھی نہیں کرسکتے، کل اسنے آپ کا در چھوڑ کر کسی پرائے گھر چلا جانا ہے۔ روتا چھوڑ کر، گھر خالی کرجانا ہے، آنگن سونا کرجانا ہے، بیٹی ایک ایسے میٹھے دردکا نام ہے، جو ہر وقت دل میں موجود رہتا ہے،

اللہ پاک کا بھی کیا نظام ہے، ننھی پری کو پال پوس کر بڑا آپ کرین، لاڈ آپ اُٹھائیں، پڑھائیں آپ، اور جب وہ بڑی ہوجائے ، تو اسے نہ چاہتے ہوئے بھی گھر سے نکال دیں، کسی اور کے حوالے کردیں، آپ کی گڑیا، آپ کی ذرا ذرا سی ضرورتوں کا دھیان رکھنے والی، آپ کو صبح صبح چائے پلانے والی، آپ کے سینے میں تھنڈک ڈالنے والی ، اور اگر آپ بیمار ہوجائیں تو مصلہ پر بیٹھ کر آپکی صحت کی دعائیں کرنے والی، کبھی کبھی مان بنکر ڈانٹنے والی ، بیٹی، کو آپ کس دل ،تکلیف سے اپنی دنیا سے الگ کردیتے ہیں، اسکا اندازہ ابھی تک مجھے نہیں ہوا، لیکن اسکے لئے تیار تو میں بھی ہوں نا۔۔ جب سوچتا ہوں ، تو اپنے آپ کو بہت کمزور سمجھتا ہوں،دل قابو میں نہیں رہتا، لیکن میں اپنے رب، اور اپنے نبی کی سنت سے اور احکام سے سرتابی بھی تو نہیں کرسکتا، منہ نہیں موڑ سکتا۔۔ اللہ پاک نے اپنی حکمت سے ایسا نظام قائم کردیا ہے، جو انسان کے فطری تکازوں کے عین مطابق ہے، اس نکازون سے سرتابی بھی نہیں کی جاسکتی،، ایک دن مجھے بھی اپنی ننھی پری کو کسی کے سپرد کرنا ہے، اللہ پاک کے حکم اور نبی کریم ﷺ کے طریقون کے مطابق۔

اور اسکے لئے میں ابھی سے تیاری کر رہا ہوں، لیکن جب سوچتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے، اور بے بسی سے نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھ جاتی ہیں، اور عاجزی سے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں، اور دل سے آواز نکلتی ہے، " یا باری تعالیٰ میں تیرا ادنا سا غلام ہون، تو نے مجھے بیٹی عطاء فرمائی، میرے گھر میں رحمت اور برکت بھیجی، اب تیرے حکم پر میں اسے کسی غیر کے حوالے کرنے جارہا ہوں، اس دعا کے ساتھ، کہ یہ اپنے گھر میں خوش رہے گی، یا باری تعالیٰ، میں نے تیرے حکم کے مطابق اور اپنی بساط کے مطابق اسی بہتریں پرورش کی، اسے تیرے احکامات کی روشنی میں تعلیم اور تربیعت کا انتظام کیا، یا اللہ اسکی حفاظت کرنا۔ یہ بالکل اکیلی ہوگی، کوئی اسکو دلاسہ دینے والا ، کوئی اسکے آنسو پونچھنے والا نہ ہوگا۔ تو اسکی حفاظت فرمانا،یا اللہ اسے اچھا شوہر، اور اچھا سسرال عطاء فرمانا، یا اللہ اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے، تو اسے درگزر کرنے والا شوہر نصیب ہو۔ درگزر کرنے والا ، محبت کرنے والا، عزت کرنے والا، اور ساتھ ہی بے بسی کے آنسو آنکھوں سے گرنے لگتے ہیں۔ یہی عاجزی کا وہ مقام ہوتا ہے، جہان برے بڑے اپنا سر جھکالیتے ہیں،

میں ابھی سے اسکی پریکٹس کرنا شروع کردی ہے۔ کہ اپنی محبت اور پیار کو نہ اپنے لئے مسئلہ بناؤن، اور نہی جب بیٹی اپنے گھر کی ہوجائے تو اسکی کمی کو محسوس کروں۔ اسلئے اب میں اپنی بیٹی سے زیادہ بات نہیں کرتا، اور نہ ہی زیادہ ہنسی مذاق کرتا ہوں۔ اور چونکہ وہ بھی سمجھدار ہوگئی ہے، اسلئے ضروت اور کام کی بات کرتی ہے، شاید اسبات کو اسنے بھی محسوس کرلیا ہے، ہاں اپنے بھائی اور والدہ کے زیادہ قریب ہوگئی ہے، شاید اسلئےکہ وہ اسکا مجھ سے زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ یا پھر رشتوں کا احترام اور مقام کرنا اسے بھی آگیا ہے۔ اب وہ میری ایک فکر بن چکی ہے، کہ اسکی جلد از جلد شادی ہوجائے، اور وہ اپنے گھر والی ہوجائے،

مجھے وہ دن بہت یاد آتے ہیں، جب وہ پیدا ہوئی تھی، دو بیٹوں کے بعد، خوب، سرخ وسفید، نازک سی گڑیا کو مجھے لاکر نرس نے دیا تھا، کہ مبارک ہو آپ کے گھر میں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ اورسفید گلابی کپڑے میں اس ننھی سی پری کو میری گود میں ڈال کر چلی گئی تھی، اور میں اسے ہاتھوں میں لئے بیٹھا خاموشی سے گم سم دیکھتا رہ گیاتھا۔۔کتنی پیاری اور نازک سی تھی، اور مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے زور سے سانس بھی لیا تو یہ گرجائے گی۔ اور مہرانی صاحبہ آنکھیں بند کئے اپنی ننھی ننھی مٹھیان بند کئے دنیا سے بے خبر پڑی تھی۔۔۔ میری آنکھون میں خوشی کے آنسؤ تھے، اور دل سے دعا نکلی، اللہ پاک جتنی پیاری گڑیا تونے دی ہے۔ اتنا ہی پیارا اسکا نصیب بھی بنانا۔۔۔

دوسرے دن شام کو جب ہم اسے گھر لیکر آئے، تو جیسے گھر میں روشنی آگئی تھی۔ خوشی آگئی تھی، پھر وقت کو جیسے پر لگ گئے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے بڑی ہونے لگی، گود میں کھیلنے گی، جب یہ بیٹھنا سیکھی، تو میں اسے روزانہ دفتر سے گھر آنے کے بعد اسوقت تک داخل نہیں ہوتا تھا، جبکہ اسے موٹر سائیکل پر ایک چکر نہ دلوادوں، اور چیز نہ دلوا دوں۔ جیسے جیسے میری گڑیا بڑی ہورہی تھی ، میری محبت بھی بڑھتی جارہی تھی، ننھی ننھی شرارتین کرنے لگی تھی، سب کی نکلیں اتارنے لگی تھی، دوپہر کو میں گھر کھانا کھانے آتا تھا، تو سب سے پہلے مجھے اسکے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانا پڑتا تھا۔ بڑے شوق سے ، آلو کے چھلکے، اور پیاز کے چھلکے، کے ٹکڑے پانی مں ڈال کر اسمیں نمک مرچ ڈال کر اپنی چھوٹی کی پلاسٹک کی ہنڈیا میں میرے لئے سالن تیار کرتے تھی، اورضد کرکے میرے لئے ایک کچی روٹی پکاتی تھی،، جیسے ہیں میں گھر میں داخل ہوتا تھا، بھاگتی ہوئی آتی تھی، اور کہتی ابو میں نے آپکے لئے روٹی اور آلو کا سالن بنایا ہے، آپ میرے ہاتھ کا کھانا کھائینگے نا۔۔۔۔۔۔۔ اور می اسکا دل رکھنے کے لئے وہ کچا سالن، اور مٹی والی ننھی سی روٹی اپنی گڑیا کے ہاتھ سے کھاتا تھا، اور تعریف کرتا تھا،،، اسکی امی کے منع کرنے کے باوجود۔ اسکے بعد میں کھانا کھاتا تھا،،تو بڑے فخر سے امی سے کہتی تھی،،،،،،،،
میرے ابو پہلے میرے ہاتھ کا کھانا کھاتے ہیں۔
اور میں اسکا دل رکھنے کے لئے اسکی تعریف کرتا تھا،، یہ ہمارا معمول تھا، میں جب بھی باہر جاتا تو میرے ساتھ جاتی تھی،، جب اس سے کوئی کہتا ،، کہ ابو کی طرح چل کر دیکھاؤ تو اپنے ہاتھ کمر کے پیچھے باند ھ، اکڑ کر چل کر دیکھاتی تھی، کوئی وپوچھتا ۔۔تم کس کی بیٹی ہو، ،،، تو بڑے فخر سے بتاتی، میں اپنے ابو کی بیٹی ہوں۔
جب اسکول کا زمانہ آیا تو، پھر میری یہ ڈیوٹی بن گئی ، کہ میں دفتر جاتے ہوئے اسے اسکول چھوڑتا اور دوپہر کو کھانے کے وقفہ میں اسکو اسکول سے گھر چھوڑتا۔ اور واپس دفتر جاتا تھا،،

اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا، کہ میں نے نوکری چھوڑ کر اپنی اسٹیٹ ایجنسی کھول لی، چونکہ اسٹیٹ کا کام صبح میں کم اور شام میں زیادہ ہوتا ہے، میں نے اسکے اسکول میں ایک دوست کے ساتھ کینٹین لے لی، اب میں صبح اسے ساتھ اسکول لیکر جاتا تھا، اور دوپہر کو ساتھ لیکر آتا تھا،، اسی طرح میری گڑیا نے میٹرک کرلیا، اور کالج میں داخلہ لیا، میںنے بھی کینٹین کو خیر باد کہہ دیا، اور اپنی روٹین کے مطابق میں اسے اپنے ساتھ اسکول لیکر جاتا اور لیکر آتا رہا، سردی ہو یا گرمی، میرا اور میری گڑیا کا وقت ساتھ گزرتا تھا،،، میرے گھر والے سب میرے خلاف تھے، کہ میں نے اسے بگاڑ دیا ہے، میں اسکی ضرورت سے زیادہ حمایت کرتا ہوں، بگڑ جائے گی، تو سر پر ہاتھ رکھ کر رؤ گے، میں ہنس کر کہتا ہے، نہیں ایسا نہیں ہوگا۔

میری گڑیا کہتی تھی، ابو ۔۔ میرا کسی اور کے ساتھ کہین جانے کو دل نہیں کرتا میں آپکے ساتھ جاتی ہوں تو مجھے مزا آتا ہے۔ میری گڑیا بڑی ہوتی جارہی تھی،، سمجھ داری کی باتین کرنے لگی تھی، مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی اسکی کوئی بات ٹالی ہو، ہم دونوں دوستوں کی طرح تھے، اپنی دوستوں کے ساتھ جب کوئی پروگرام بناتی،تو میں اسے جاکر چھوڑ آتا تھا، او ر لیکر آتا تھا،،

جب اسے شاپنگ کرنی ہوتی، میں اسے لے جاتا، اور کہتا میں یہاں کھڑا ہوں، تم اعتماد کے ساتھ جاؤ، اطمینان سے شاپنگ کرو، میں یہاں انتظار کر رہا ہوں۔۔ یہ سب صرف اسلئے کہ اسمیں اعتماد پیدا ہو۔ اسی طرح جب بینک جاتی میرے ساتھ تو مین ایک طرف بیٹھ جاتا ، اور اسے کہتا تم جاؤ، اور اپنا کام کرو۔

الحمدو للہ۔ آج میری گڑیا 22 سال کی ہوگئی ہے، اپنی پڑھائی ختم کرلی ہے، اسکی سہیلیوں کی شادیاں ہورہی ہیں، اب اسکی بھی شادی ہوجانی ہے، سمجھدار بھی بہت ہوگئی ہے،، کھانے بہت اچھے پکاتی ہے، خاص طور پر چائنیز، بسکٹ ، کیک ، بروسٹ وغیرہ بہت اچھا پکاتی ہے،، اب میری جگہ اسکے بھائی نے لے لی ہے، وہ اسکی بہت ہمت افزائی کرتا ہے۔ اسکی ساری فرمائشین پوری کرتا ہے، ماشاء اللہ دونوں میں بہت پیار ہے،

میں چونکہ اب بوڑھا ہوگیا ہوں، اور تھک جاتا ہوں، اسبات کو میری گڑیا بھی سمجھتی ہے، اسلئے مجھے تکلیف بھی نہیں دیتی۔ آجکل گھر کی نظامت اسکی امی نے اسکے حوالے کردی ہے، بہت خدمت گزار ہے، ہم دونوں بوڑہوں کی بہت خدمت کرتی ہے، بہت خیال رکھتی ہے، دل جیتنا جانتی ہے۔ اب بھی جب خوش ہوتی ہے، تو گھر بھر میں رونق آجاتی ہے۔ بچون کے ساتھ معصوم بچی بن جاتی ہے، خاندان کے سب لوگ اس سے بہت پیار کرتے ہیں،
اسکے ایک چچا ہیں، میرے چھوٹے بھائی، انہیں بھی کھانے پکانے ، اور کھانے کا بہت شوق ہے، جب ان کے گھر جاتی ہے، تو اس دن اسکی مرضی کا کھانا پکتا ہے، نئی نئی ڈشیں انہین بناکر کھلاتی ہے، انکے بچے اسکے ہاتھ کے برگر بہت پسند کرتے ہین، اور اپنی مرضی کے کھانے پکواتے ہیں،،

میری دونوں پوتیاں ۔ اسے کوکو کہہ کر بلاتی ہیں، جب انکے ساتھ ہوتی ہے، تو 6 سال کی بچی لگتی ہے، وہ اسکے پیچھے پیچھے پھرتی ہیں، چاکلیٹ ، بسکٹ ، چپس، کی بہت شوقین ہے، اپنے پاس رکھتی ہے، جب وہ آتی ہیں تو، انہیں بھی کھلاتی ہے، اور انہیں تنگ بھی کرتی ہے۔

رشتے نبھانا جانتی ہے، سنبھالنا جانتی ہے۔ کپڑوں، کا بہت شوق ہے، ڈیزائینگ خود کرتی ہے، خود میک اپ نہیں کرتی ،لیکن اسی بھابی، اور خاندان کی اور محلے کی لڑکیاں اس سے کرواتی ہیں، مہندی بہت اچھی لگاتی ہے، نئی نئی چیزیں بنانے کا شوق ہے، ڈیکوریشن پیس بہت اچھے بناتی ہے،

بس ایک کام غلط کرتی ہے پھیلاوا بہت کرتی ہے، اپنی چیزیں سنبھالنے کا شوق نہیں ہے۔ لیکن جب امان اسکو ڈانتی ہیں تو فٹا فٹ سارے کام کرتی ہے۔۔

یہ ہے میری بیٹی میری گڑیا۔۔۔ اب میں اسے خو ش دیکھتا ہوں تو خوش ہوتا ہوں،، اور سر جھکا کر سوچتا ہوں، کیا بیٹیاں اسی لئے اللہ دیتا ہے۔ جب بڑی ہوجائے تو اس جگر کے ٹکڑے کو اپنے ہاتھوں سے اپنے سے کاٹ کر الگ کردو ، اب میں اسکے سامنے کم ہی جاتا ہوں،، کہیں میری آنکھوں سے میرے درد کو پڑھ نہ لے۔ اب میں اس سے زیادہ بات بھی نہیں کرتا۔۔ اسکو گھمانے بھی نہیں لیکر جاتا،

کیونکہ میں جانتا ہوں،، اس نے مجھے روتا ہوا چھوڑ کر چلے جانا ہے،اسلئے ابھی سے دور رہنے، ہونے کی پریکٹس شروع کردی ہے،،، اس دعا کے ساتھ، اللہ پاک سب کی بیٹوں کو انکے گھروں میں خوش خرم رکھے، اور انکے طفیل میری بیٹی کو بھی زندگی کی تمام خوشیان عطاء فرمائے،،،
( اس دعا کے ساتھ " بیٹی " جہان بھی رہو ہمیشہ خوش رہو )
فاروق سعید قریشی
About the Author: فاروق سعید قریشی Read More Articles by فاروق سعید قریشی: 20 Articles with 21620 views میں 1951 میں پیدا ہوا، میرے والد ڈاکٹر تھے، 1965 میں میٹرک کیا، اور جنگ کے دوران سول ڈیفنش وارڈن کی ٹریننگ کی، 1970/71 میں سندھ یونیورسٹی سے کامرس می.. View More