کہانی اپنے ہندوستان کی: قسط (7)بے چارے دہشت گرد
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
تقریباًگذشتہ ایک صدی سے پوری دنیا میں سب
زیادہ استعمال کیا جانے والا لفظ ’’دہشت گرداور دہشت گردی‘‘ ہے، انقلابِ
فرانس کے بعد اٹھارہویں صدی کے اخیر میں پہلی مرتبہ اس لفظ کا استعمال
ہوااورچونکہ اس انقلاب میں دو لاکھ سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں ،
اسی لیے' Dictionnaire de l’Académie française' نے اس کو 'a regime of
terror'سے تعبیر کیااور وہی اس لفظ کا پہلا مستعمِل بھی ہے۔ لغت میں دہشت
گردی کا استعمال ہر اس پر تشدد عمل کے لیے کیا جاتا ہے جو سیاسی مقاصد کے
حصول یا پھر کسی حکومت کو کسی کام پر مجبور کرنے کے لیے کیا جائے ، مگر اب
اس کا استعمال عام طور پر ایک خاص قوم اور برادری کے لیے کیاجانے لگا ہے ،
بلکہ مطلقاًاگر دہشت گردکا تصور کیا جاتاہے، تو اس سے وہی خاص قوم مفہوم
ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں اس لفظ کا سب سے زیادہ استعمال یورپی ممالک خاص طور
پر امریکہ نے کیا ہے ۔ملک ہندوستان چونکہ نقالی میں پوری دینا میں پہلے
پائدان پر ہے ، اس لیے یہاں بھی اس لفظ کا خوب استعمال ہوا ، بلکہ استحصال
بھی ، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے بالمقابل یہاں ہر چوک چوراہا، گلی اور
نکڑ میں دہشت گرد کثرت سے پائے جا تے ہیں۔یہ دہشت گرد کون ہیں اور ان کی
شناخت کیسے ہوتی ہے ؟ تو اس ملک میں اس کو پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے ’وندے
ماترم‘جو اس کو پڑھ لے وہ دیش بھگت ورنہ دیش دروہی دہشت گرداور ملک میں
جہاں کہیں بھی کوئی حملہ ہوتا ہے ، ان میں انہی دہشت گردوں کا ہاتھ ہوتا
ہے، چنانچہ 1984 سے لے کر 2016 تک ملک میں تقریباً 64 دہشت گردانہ حملے
ہوئے ہیں، جن میں دس حملے تو انتہائی ہولناک تھے، ان تمام حملوں میں ہزاروں
بے قصور مارے گئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے، مگرطرفہ کی بات یہ ہے کہ ان حملوں
میں متاثرین کی حالت جس قدر افسوس ناک اور قابل رحم ہوتی ہے، ان سے کہیں
زیادہ خطرناک صورتِ حال ان دہشت گردوں کی ہوتی ہے،کیونکہ جو لوگ ان حادثات
کا شکار ہوتے ہیں پل بھر میں ان کی روحیں ان کے جسم سے نکل کر ان کو اس
تکلیف سے آزاد کردیتی ہیں،جبکہ یہ بے چارے دہشت گرد موت کی تمنا کرتے ہیں ،
مگر انہیں موت بھی نہیں آتی۔ملک میں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے ، تو دہشت،
دہشت گرد، میڈیا اور پولیس کا رو ل بھی بڑا دلچسپ ہوتا ہے، کہ حادثات سے
پہلے ہی پولیس کسی نکڑ اور گلی کوچے سے کوئی نہ کوئی دہشت گردضرور تلاش
کرلیتی ہے، تو وہیں بے لگام میڈیا اسے دنیا کا سفاک ترین دہشت گرد ثابت
کرنے میں آسمان وزمین کے قلابے ملا دیتی ہے، جبکہ دوسری طرف خود بے چارے
دہشت گرد اس کی دال سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی کتنی عجیب ہے کہ
اکثر واقعات میں ظالم اور مظلوم دونوں ایک ہی مذہب ومشرب سے تعلق رکھتے
ہیں۔ ان 64 دہشت گرانہ حملوں کا اگر آپ اگر بہ نظرِ غائر جائزہ لیں، تو ان
میں سے تقریباً چالیس فیصد حملوں میں تو مسلم مقامات اور علاقے ہی کو نشانہ
بنایا گیاہے اور چونکہ دہشت گرد توایک خاص قوم اور برادری سے تعلق رکھتے
ہیں ، اس لیے شک کی سوئی ہمیشہ انہی پر ٹکتی ہیں، پھر پولیس انہی میں سے دس
پانچ نوجوانوں کو دھر لاتی ہے ۔ گذشتہ چند سالوں میں مسلم نوجوانوں کی
جولاتعدادگرفتاریاں ہوئی ہیں اس کی ٹھیک تعداد کااندازہ لگاناتو بارش کے
قطرے کو گننے کے مترادف ہے ، تاہم یہ لاریب حقیقت ہے کہ پورے ہندوستان میں
ایسا کوئی بھی مسلم اکثریت علاقہ نہیں ہے ،جہاں سے کسی نوجوان کو دہشت گردی
کے الزام میں گرفتار نہیں کیا گیا ہو، آعظم گڑھ میں چونکہ مسلم کچھ زیادہ
ہیں اس لیے اس کا نام ہی آتنک گڑھ پڑگیا، اس کے علاوہ دہشت گردوں کو تلاش
کرنے والی ٹیم مدارس کے طلبا کے پیچھے بھی پڑی اور بے شمارٹوپی کرتا میں
ملبوس مسواک وتسبیح کے ساتھ پکڑے گئے ، جوآج تک جیل کی کالی کوٹھریوں میں
جانوروں سے بدتر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، البتہ جمعیت علماء ہند اور
دوسری مسلم تنظیموں کی سعی وکوشش سے کچھ لوگوں کواس طلسماتی دنیا سے توضرور
رہا کروالیا گیا ،تاہم ہنوز ملک کے مختلف جیلوں میں بے شمار مجبور
ومقہوردہشت گردوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے؛ کتنی ہی مائیں جوان بیٹے کی
جدائی کے غم میں رو روکر اپنی بینائی گنوادی،کتنے ہی باپ فراقِ پسر میں
حضرت یعقوب کی طرح تڑپتے رہے، بہنیں ہرروز صبح دروازے سے لگ کر گھنٹوں
گھنٹوں اس لیے کھڑی ر ہیں کہ کوئی نویدِ صبح دے جائے اورکتنی ہی بیویاں
ایسی ہیں جو شوہر کے رہتے ہوئے بھی بیوگی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں!
یہاں ذہن میں ایک سوال ضرورکلبلاتا ہوگا کہ جب وہ مجرم نہیں تھے ،
توپھرعدالت انہیں کیسے مجرم ثابت کرتی ہے اورپوری دنیا کے اخبارورسائل اور
ٹی چینل والے کیسے ان کی داستانِ دہشت گردی کو الگ الگ عنوانوں سے لکھتے
اور پیش کرتے ہیں؟ تو ان بے چارے دہشت گردوں کی کہانی بھی بڑی عجیب ہے کہ
انہیں نہ ’نا‘ میں چین ہے اور نہ ہی’ ہاں‘ میں کوئی سکون۔ ہماری انصاف پسند
پولیس کا سلوک ہی ایک ملزم کو مجرم بنادینے کے لیے کافی ہے، چنانچہ اکشر
دھام بم بلاسٹ کے ملزم مفتی عبدالقیوم صاحب نے اپنی گرفتاری سے لے کر رہائی
تک کے سارے واقعہ کو اپنی کتاب "گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے" میں جمع کیا ہے
، جس میں وہ رقم طراز ہیں کہ 17اگست 2003 کوپولیس نے انہیں گرفتار کیا اور
پھر تفتیش کے بہانے ایک مخصوص جگہ لے گئی ،جہاں ان کے ساتھ خوب تشدد کیا
گیا، ان کے بقول دن اور رات میں ان کے جسم پر کم از کم 300 لاٹھیاں برسائی
جاتیں ، بات صرف اتنی تھی کہ اے سی پی جی ایل سنگھل جو بات کہے میں اس
کومان لوں، دراصل سنگھل نے پہلے ہی سے ایک کہانی گھڑ رکھی تھی اور وہ مجھ
سے ایک خالی کاغذ پر میرا دستخط لینا چاہتا تھا ، پھر پولیس نے مجھے ایک خط
لکھنے پر مجبور اور جب مجھے کورٹ میں لے جایا گیا ، تو پولیس نے اسی خط کے
بارے میں یہ دعوی کیا کہ اکشردھام حملے میں مارے گئے فدائین کی جیبوں سے
بھی اسی طرح کے خطوط برآمد ہوئے ہیں، حالانکہ سپرم کورٹ نے بھی اس بات کو
نوٹس کیاتھا کہ وہ خطوط بالکل صاف تھے،پھٹے ہوئے نہیں تھے اور نہ ہی ان پر
خون اورمٹی کا کہیں کوئی نشان تھا اور یہ بات بالکل غیر فطری ہے کہ فدائین
کا جسم توخون اور مٹی سے لت پت تھا اور جسم میں جا بجا گولیوں کے سوراخ تھے
اور ان کے کپڑوں کے چتھڑے اڑے ہوئے تھے، مگر تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان
خطوط پر کوئی بھی نشان نہیں تھا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سنگھل نے مجھے
پھنسایا تھا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اسی کیس کے دوسرے ملزم محمد الطاف کے ساتھ
پیش آیا ، ان کاواحد جرم یہ تھا کہ وہ گجرات فساد متاثرین کی امداد کے لئے
فنڈز جمع کرتے تھے اور کیمپوں میں لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے تھے،
تو پولیس نے ان پر صرف اس لیے جبر کیا کہ وہ یہ قبول کرلیں کہ انہوں نے
دہشت گردوں کی امدداد کی ہے ۔مولانا عبداللہ میاں کی داستان بھی بڑی عبرت
ناک ہے ، وہ کہتے ہیں کہ جب میں فجر کی نماز پڑھانے کے لیے مسجد جارہاتھا
کہ پولیس نے مجھے پوچھ گچھ کرنے کے لیے کرائم برانچ آفیسر اشوک چوہان کے
دفتر لے گئی اور پھر مجھ پر تھرڈ ڈگری کا استعمال کیا گیا، جب میں درد کی
شدت کی تاب نہ لاکر ’اللہ، اللہ‘ کہتا، تو ڈی جی ونجارا مضحکہ خیز انداز
میں کہتا کہ’تمہارا خدا بھی تمہیں نہیں بچا سکتا، ابھی تمہارا خدا میں ہی
ہوں‘۔
القصہ یہ عبرت ناک واقعے یہ بتادینے کے لیے کافی ہیں کہ ایک ملزم مجرم پھر
دہشت گرد کیسے بنتا ہے ۔اور جب سے پولیس نے یہ رویہ اختیار کیا ہے ، تو
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہماری عدالت بھی لوگوں کا اعتماداوراپنا وقار کھونے
لگی ہے ، لوگ آج بھی عدالت کی انصاف پروری پر مکمل یقین رکھتے ہیں، مگر
عدالت کی کرسی پر جو شخص براجمان رہتا ہے ، وہ اپنے رویے اور فیصلے سے عوام
کے دلوں میں شک وشبہات کی گنجائش ضرور چھوڑ دیتا ہے ، بلکہ کبھی کبھی تو
اقوامِ عالم کی نظروں میں ہماری عدالت کا فیصلہ ایک مذاق بن جاتا ہے،
چنانچہ افضل گورو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ"The collective conscience
of the: society will be satisfied only if the death penalty is awarded
to Afzal Guru" (عام لوگوں کا دل اسی وقت مطمئن ہوسکتا ہے جب افضل گورو کو
پھانسی دے دی جائے) کی جہاں کچھ لوگوں نے تائید کی،تو وہیں کچھ لوگوں نے اس
کو مذاق سے بھی تعبیر کیا ۔ ’دَ ہندو‘کی رپورٹ کے مطابق جہانِ صحافت کے بے
شمارسرکردہ صحافیوں نے افضل گورو کی حمایت میں لکھا کہ وہ نہ تو ان دہشت
گردوں میں سے تھا جس نے پارلیمنٹ پر حملہ کیاتھا اور نہ ہی اس نے سیکورٹی
گارڈ پر گولی چلائی تھی اور پولیس کی چار شیٹ بھی اس کو مجرم نہیں بتاتی
اورخود سپرم کورٹ نے بھی ان دلیلوں کو جو افضل کے خلاف پیش کی گئیں تھیں،
قرائینی دلائل ہی مانتی ہے ، مزید ملک کے کئی قابل وکلا :نندیتا ہاکسراور
اندرا جی سنگھ اور کئی مشہور مصنفین: ارون دھاتی رائے، پرافول بڑوئی ، نرمل
مکھرجی اور پپل یونین سول لبرٹیز کے سابق صدر کے جی کننابیرن وغیرہ نے بھی
سپریم کورٹ کے فیصلہ اور صدرِ جمہوریہ کی طرف سے رحم کی درخواستوں کو مسترد
کیے جانے پر سوالیہ نشان لگایاہے ۔ان کے علاوہ کئی ملکی اور غیر ملکی
،سیاسی اور معاشی روزنامچوں اور ہفتہ واری رسائل وجرائدنے اور اخبارات نے
افضل گورو کے مسئلہ پر مکمل روشنی ڈالتے ہوئے کورٹ کے مذکورہ جملہ "The
collective conscience" پربے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے لکھاکہ کورٹ کو عام جنتا
کے دلوں کے بجائے قانون کی پاسدار کرنی چاہیے۔
در حقیقت سپریم کورٹ نے افضل کی پھانسی کی سزا کو اس لیے برقرار رکھاکہ اس
سے عام جنتا کے دلوں کو سکون ملے، مگر سوال یہ ہے کہ جب افضل گورو کو
پھانسی ہوئی تو اسی ملک میں لاکھوں لوگوں نے ماتم منایا ، تو عام لوگوں کا
دل کہاں خوش ہوا، البتہ اس فیصلہ سے خاص لوگوں کو تودلی خوشی ضرورحاصل ہوئی
۔یہ سچ ہے کہ گذشتہ چند دہائیوں سے ہماری عدالت مستقل لوگوں کا اعتماد
کھوتی جارہی ہے، پولیس کسی کو بلا کسی ثبوت وشواہد کے عدالت کے کٹگھڑے میں
لاکر کھڑی کردیتی ہے اور پھر ہمارے جج صاحبان ان کو انہی من گھڑت دلیل
وبرہان کی روشنی میں جیل اور موت کا فیصلہ سنادیتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے
کہ یہ نہ صرف عدالت کی توہین ہے ، بلکہ انصاف کا مذاق بھی ہے۔کسی کو دہشت
گرد ثابت کردینا کتنا آسان ہے ، مگر جب کچھ سالوں بعد خود عدالت ہی اس کو
بری کرتی ہے ، تو جیل میں بتائے ان کی گذشتہ زندگیوں کو واپس لا نا کتنا
مشکل ہے، بلکہ ناممکن ہے ، ہم یہ نہیں کہتے کہ مجرم کو سزا نہیں دی جائے ،
لیکن مظلوم پر تو قہر نہ ڈھائے جائیں، کیونکہ مظلوم کے آنسوؤں میں اتنی شدت
ہے جو ہماری شان وشوکت کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے!!! |
|