دنیا کے مظلوم شوہر

شوہروں پر بیویوں کے ظلم وستم کے واقعات ہردورمیں اوردنیاکے ہرحصے میں رونماہوتے رہتے ہیں۔شوہر کاسب سے بڑاالمیہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے سرپرہاتھ رکھنے والاکوئی نہیں ہوتا، چاہے وہ کتناہی مظلوم کیوں نہ ہو، کوئی اسے دلاسہ نہیں دیتااورنہ کسی کواسکی مظلومیت نظرآتی ہے ، بلکہ الٹااسکی مظلومیت اسکی رُسوائی کاباعث بنتی ہے اورلوگ طرح طرح سے اسے ستانے لگتے ہیں۔بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ کسی زمانے میں شوہربیوی کو گھرسے نکالنے کی طاقت رکھتاتھا، لیکن موجودہ دورمیں ایسے بے شمارواقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ بیوی نے شوہر کو زبردستی گھرسے بے دخل کردیاہو۔شوہر بیوی کے ساتھ معمولی تکرارکرلے، توپوری دنیابیوی کی طرفدارہوجاتی ہے اوراسے طرح طرح کے مشورے دیناشروع کردیتی ہے، حتیٰ کہ معاملہ کچہریوں تک پہنچ جاتاہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ،میڈیا، وکلاء اورقانون نافذکرنیوالے ادارے عورت کے حقوق کے لئے سرتوڑکوششیں شروع کردیتے ہیں ۔ لیکن بدقسمت مردکے لئے آوازاٹھانے والاکوئی نہیں ہوتا،یہاں تک کہ عورت کے لئے اٹھنی والی بے ہنگم آوازوں میں مردبے چارے کی اپنی آوازبھی دب جاتی ہے۔مردصرف اپنے ملک میں اس غیرمنصفانہ سلوک کاشکارنہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اسکے حقوق دبائے جانے کاسلسلہ بدستورجاری ہے۔عورتوں کے حقوق کے لئے دھڑادھڑفلمیں بن رہی ہیں، دستاویزی پروگرام ہوتے ہیں، کتب لکھی جارہی ہیں، اخبارات میں کالم ، ادارئے اورخصوصی ایڈیشن چھپتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ عورتوں پر پاکستان جیسے پسماندہ فلم انڈسٹری میں بننے والی فلموں کو عالمی ایوارڈزدئے جاتے ہیں لیکن مردکے حقوق کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔ہماری عورتیں اب ، اﷲ نظربدسے بچائے، کافی دلیر اوربہادرہوچکی ہیں اوراپنے حقوق کے تحفظ کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں لیکن انہیں اپنے فرائض کابھی احساس ہوناچاہئے۔جب سے خواتین کے حقوق بہ الفاظ ــدیگرـ "خواتین کی آزادیـ" کے لئے عالمی تحریک شروع ہوئی ہے ، تواسکے زیادہ سے زیادہ اثرات مسلمان ممالک خصوصاپاکستان پرمرتب ہورہے ہیں ۔ خواتین کو جس قدر آزادی مل رہی ہے، مردکی زندگی اس قدراجیرن ہوتی جارہی ہے۔ معاش کے لئے محنت مزدوری مردکرتاہے جبکہ اسکے خون پسینے کی کمائی عورت پانی کی طرح خرچ کرتی ہے۔اسکے ساتھ ساتھ بعض عورتیں مردوں سے باہرکے کاموں کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی لے لیتی ہیں۔ میرے ایک دوست سے میں نے پوچھاکہ تم بیوی کے ساتھ برتن کیوں دھوتے ہو؟ انتہائی معصومیت سے کہنے لگا کہ ، وہ میرے ساتھ روٹی پکاتی ہے ، تومیں اسکے ساتھ برتن دھوتاہوں۔اس سلسلے میں مردوں کاہمیشہ یہ شکوہ ہوتاہے کہ انکے حقوق کے لئے کوئی آوازنہیں اٹھاتا ، نہ میڈیاانکاساتھ دیتاہے اورنہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے انکی دادرسی ہوتی ہے۔ سرکاری ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کاطرز عمل دیکھ کر تویوں لگ رہاہے ،جیسے وہ بھی دنیا کے مظلوم ترین شوہروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ایسے حالات میں مولانافضل الرحمن صاحب نے قدرے جرات اوربہادری کاثبوت دیتے ہوئے ، تحفظ حقوق شوہراں چلانے کااعلان کیاہے۔جس کے ساتھ ہی پورے ملک کے مظلوم شوہروں میں خوشی کی لہردوڑگئی، کم ازکم انکے زخموں پر مرہم لگانے والا کوئی توہے۔اس قسم کی ایک تحریک ہندوستان میں بھی شروع کی گئی تھی ، جہاں باقاعدہ طورپر تحفظ حقوق شوہراں کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی ہے، جس کے اغراض ومقاصدیہ ہیں کہ شوہروں کے حقوق کاتحفظ یقینی بنایاجائے اورانہیں بیویوں کے ظلم وستم سے نجات دلائی جائے۔کچھ عرصہ پہلے ، جب خواتین کی آزادی کاموجودہ تصورعام نہ تھا، شوہربیوی کو طلاق دیتاتھا اوراب بیویاں شوہروں سے زبردستی طلاق لے لیتی ہیں۔اس لئے شوہروں کو بہت محتاط زندگی گزارناہوتاہے۔انہیں ہرمعاملے میں بیوی کامطیع اورفرمان برداربن کررہناہوتاہے اوربیوی کے ہرحکم کے سامنے بلا تامل سرتسلیم خم کرناہوتاہے۔اکثربیویاں ہائپرٹن سیو ، بلندفشارخون کی مریض ہوتی ہیں اورمعمولی معمولی باتوں پرانکابلڈپریشرتیز ہوجاتاہے اورپھر اگرشوہر، جسمانی لحاظ سے کمزور، نحیف اورحد درجے شریف قسم کاہو، تواسکاحال بہت براہوتاہے ۔ بیوی کی طرف سے چپل، چمٹے ،یاچمچ سے شوہر پر حملے ہوتے ہیں اورشوہر بے چارہ جوابی کارروائی میں بیوی کو ٹھنڈے پانی کاگلاس ہی پیش کرسکتاہے۔اس سلسلے میں دنیاکے تمام دوراندیش شوہر ، بیوی کے ممکنہ حملے سے بچنے کے لئے حفظ ماتقدم کے طورپر حددرجے محتاط زندگی گزارتاہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثرشوہروں کی پہلی اورآخری محبت کم ازکم انکی بیویاں نہیں ہوتیں اور اگرکسی کی پہلی محبت اسکی بیوی ہو، تووہ اسکی آخری محبت کبھی نہیں ہوگی اورہمیشہ اپنے داغدارحال کا ذمہ داراپنابے داغ ماضی ہی ٹہراتاہے ۔ محبت کی شادی کرنیوالے شوہر اکثربیوی سے نالاں ہوتے ہیں اورتادم مرگ سچی محبت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے بے شمارشوہرہیں ، جواپنی بیوی کے ہاتھوں شدید اذیت میں مبتلاہیں ۔ایسے ہی شوہروں کے حقوق کے لئے انکی ایک تنظیم ہونی چاہئے، جہاں وہ کھل کراپنے مسائل بیان کرسکے اورپھرانکے مسائل کامناسب حل تلاش کرنے کے لئے ٹھوس بنیادوں پر کام کیاجاسکے۔

(نوٹ :اس تحریرمیں میرامقصدہرگزخواتین کے حقوق کی مخالفت یاانکی دل آزاری نہیں ، بلکہ گنتی کے چند بے بس اورمجبورشوہروں کاحال لکھناہے)
MP Khan
About the Author: MP Khan Read More Articles by MP Khan: 107 Articles with 109032 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.