شیخ العرب و العجم مولانا حسین احمد مدنیؒ کی زندگی کے درخشاں پہلو
(Tanveer Awan, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کا شمار ایسے زندہ و جاوید
لوگوں میں ہوتا ہے،جو مایوسی میں امید کی کرن،ظلم کے مقابلے میں حق کی
مضبوط آواز اور پیکر خلوص ووفا تھے،وہ نظام ہستی میں ایسے چراغ کی طرح روشن
ہوئے کہ آسمان کے ستاروں نے ان کی روشنی سے اپنی راہیں تلاش کیں اور مجبور
و مقہور انسان نے انہی سے سبق حریت سیکھا اور اپنا حق لینے کے عزم اورجرأت
اظہار کیا ۔شریعت و طریقت کے مجمع البحرین ، اتباع سنت،اخلاق حسنہ،سیرت
صحابہ اور اسوہ مشائخ کا سرچشمہ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒملک و ملت
کی حریت کا استعارہ تھے،ان کی زندگی کا ہر پہلومسلمانان ہند کی درخشندہ و
تابندہ تاریخ ہے۔
شیخ الاسلام حضرت سید حسین احمد مدنیؒ 19شوال 1296ھ بمطابق 1879ء بمقام
بانگڑمیو ضلع اناؤں سید حبیب اﷲ کے گھر پیدا ہوئے،آپ کا نام چراغ محمدرکھا
گیا، آپ کے چار بھائی اور تین بہنیں تھیں،والد محترم قصبہ صفی پور ضلع
اناؤں میں ہیڈ ماسٹر تھے،آٹھ برس کی عمر ناظرہ قرآن پاک،آمد نامہ،دستور
الصبیان،گلستان کا کچھ حصہ گھر پر پڑھااور اسکول میں درجہ دوم تک پڑھائی
مکمل کی،1309 ھ جب آپ کی عمر تیرہ برس تھی ،آپ کے والد محترم نے دوسرے
دنوں بھائیوں سید احمداور مولانا سیدمحمد صدیق جو کہ دارالعلوم دیوبند میں
زیر تعلیم تھے کے پاس دیوبند بھیج دیا،آپ کا دارلعلوم میں قیام حضرت شیخ
الھند ؒ کے مکان کے قریب دونوں بھائیوں کے ساتھ رہائشگاہ میں تھا جب کہ آپ
کے بڑے بھائی مولانا محمد صدیقؒ نے حضرت شیخ الھندؒ سے درخواست کی کہ میزان
اور گلستان تبرکاً حسین احمد کو شروع کروا دیں،حضرت شیخ الھندؒ کے حکم پر
مولانا خلیل احمدؒ نے ابتدائی سبق پڑھائے۔آپ کوصفر 1309ھ سے شعبان 1316 ھ
تک دارلعلوم دیوبند میں مشاہیر اساتذہ و اکابرین سے استفادہ کا موقع ملا ،جن
میں شیخ الھندمولانامحمود حسن ؒ،مولانا ذوالفقار علیؒ،مولانا
عبدالعلیؒ،مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ،مولانا حکیم محمد حسنؒ، مولانا مفتی
عزیز الرحمن ،مولانا غلام رسول بفویؒ،مولانا الحاج حافظ محمد احمدؒ،مولانا
حبیب الرحمن اور مولانا سید محمد صدیق ؒ شامل ہیں۔
آپ کے بڑے بھائی مولانا محمد صدیق ؒ نے دارلعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد
والد محترم کی اجازت سے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ سے بیعت کی، بعد
میں حضرت شیخ الھند ؒ نے مولانا محمدصدیق ؒ سے فرمایا کہ ان دونوں (سیداحمد،حسین
احمد)بھائیوں کوبھی حضرت گنگوہی سے بیعت کروا دیں،جب کہ مولانا حسین احمد
مدنیؒ اس موقع پر بھائی سے عرض کیا کہ میں تو حضرت شیخ الھند ؒ سے بیعت ہوں
گا،(کیونکہ آپ کی حسن عقیدت اور محبت حضرت شیخ الھندؒ سے تھی،بچپن سے ان کی
خدمت میں رہے تھے،ابتدائی کتابوں سے لے کر منتہی کتب تک کا اکثر حصہ انہیں
سے پڑھتے رہے،اور حضرت سے ہی مضامین علمیہ،اخلاق عالیہ اور اعمال صالحہ کی
تربیت حاصل کی تھی ،حضرت شیخ الھندؒ بھی ان پرایسے الطاف و کرم فرماتے تھے
جو کہ اپنی سگی اولاد کے لیے ہوتے ہیں اس لیے آپ کی دلی وابستگی اور لگاؤ
انہی سے تھا۔)شیح الھند ؒ کے انکار اور حکم کے بعد آپ نے حضرت مولانا رشید
احمد گنگوہیؒسے بیعت کی۔
شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ1316ھ میں علوم درسیہ سے فارغ التحصیل
ہوئے تو اسی سال والد صاحب نے حجاز مقدس ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا اور
سامان سفر تیار کرلیا،جس وقت آپ اور آپ کے دونوں بھائی دیوبند سے رخصت ہو
رہے تھے ،تو الوداع کہنے کے لیے دیگر احباب کے علاوہ حضرت شیخ الھند ؒ خود
بھی پیدل اسٹیشن تک تشریف لائے اور پرزور انداز میں نصیحت فرمائی کہ پڑھانا
ہرگز نہ چھوڑناچاہے ایک دو طالب علم ہی کیوں نہ ہوں۔
شیخ الاسلام مولاناسید حسین احمد مدنی ؒ کے والد محترم مولانا فضل الرحمن
ؒگنج مراد آبادی سے بیعت تھے ،1316ھ میں ان کا انتقال ہوا تو اپنے شیخ کی
جدائی کااس قدر صدمہ ہوا کہ ہندوستان میں زندگی کے دن مشکل معلوم ہونے لگے
اور ہجرت مدنیہ کا عزم مصمم کرلیا۔ خاندان کے 12افراد پر مشتمل قافلہ شعبان
میں حجازکی طرف عازم سفر ہوااور پرمشقت سفر کے بعد 24یا25ذیقعدہ کومکہ
پہنچا،یہیں پر آپ کی ملاقات قطب عالم حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی ؒ سے شرف
ملاقات ہوئی۔والد محترم نے مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کرکے تجارت
کا پیشہ اپنا لیا،آپ نے مدینہ منورہ میں اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ مولانا
الشیخ آفندی عبدالجلیل برواہؒ سے ادب کی کچھ کتابیں پڑھیں اور کتابت علی
الاجرت بھی شروع کی،مگر استاد محترم کی آخری نصیحت دل و دماغ میں گھر کئے
ہوئے تھی،چنانچہ آپ نے گوشہ گمنامی میں دو دو چار چار طالب علموں کو مختلف
فنون کی کتب 1318ھ تک پڑھاتے رہے،حضرت گنگوہی ؒ کے حکم پر اسی سال ذیقعدہ
میں گنگوہ شریف کا سفر کیا،یہ سفر روحانی اعتبار سے بہت مفید ثابت ہوا،ایک
روز گنگوہ شریف میں عشاء کے بعد دیگر خدام کے ساتھ آپ بھی حضرت گنگوہی ؒ کا
بدب دبا رہے تھے کہ آنکھ لگ گئی ،ایک شخص اس عالم میں کہتا ہے کہ چالیس دن
گزرنے کے بعد مقصود حاصل ہوگا، اس تاریخ کے چالیس دن گزرنے کے بعد حضرت
گنگوہیؒ نے آپ کے بھائی مولانا صدیق ؒ کو عصر کے بعدفرمایا اپنے اپنے عمامے
لے آؤ،حضرت ؒ نے دونوں کے سر پر دستار خلافت باندھنے کے ساتھ فرمایا کہ
میری طرف سے دونوں کو اجازت ہے۔
دونوں بھائیوں نے حج کے موسم میں حجاز مقدس واپسی فرمائی اور حج بیت اﷲ کی
سعادت حاصل کرتے ہوئے محرم1320 مدینہ منورہ واپس پہنچ کر شمسیہ باغ معروف
بہ توطیہ کے مدرسہ میں تدریس شروع کی،حضرت گنگوہی ؒسے ملاقات کے بعد آپ کی
طرف طلبہ کا رجوع بہت زیادہ ہوگیا،آپ کے منفرد انداز تدریس کی وجہ سے آپ کو
علماء مدینہ میں امتیازی مقام حاصل ہو گیا ،مدرسہ کے اوقات کے بعد مسجد
نبوی میں حلقہ درس قائم کرنے کی وجہ سے مدرسہ انتظامیہ سے اختلاف کی بنا پر
استعفیٰ دیا ، مسجد نبویﷺ میں چودہ چودہ اسباق دن میں پڑھاتے رہے یوں طلبہ
کا جم غفیر آپ کے ادرگردہر وقت رہتا تھا،دن رات میں بمشکل تین گھنٹہ
سوناہوتا تھا باقی اوقات تدریس ،مطالعہ اور شخصی ضروریات میں صرف ہوتے تھے۔
1322 ھ میں والدہ محترمہ کے جدائی کا صدمہ سہنا پڑا،ان کے وصال کے بعد
والد محترم کو خدمات ضروریہ میں سخت مشکلات پیش آئیں تو والدہ محترمہ کی
خالہ زاد بہن جو کافی عرصہ سے لاولد بیوہ تھیں ، 1324ھ میں ان سے عقد نکاح
کروایا گیا مگر کچھ دنوں بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا،جب کہ 1326 میں آپ کی
اہلیہ محترمہ تپ دق کے مرض میں مبتلا ہو کر وفات پا گئیں اور ایک چار سالہ
بچی کو پیچھے چھوڑا۔ان کی وفات کے بعد مدینہ میں چند وجوہات کی بنا پر رشتہ
مشکل تھا خاندان میں شادی کے لیے والد صاحب نے حاجی شیخ احمد علی کی معیت
میں ہندوستان روانہ فرما دیا ،یوں آپ کی دلی خواہش کہ حضرت شیخ الھند ؒ کی
صحبت حاصل ہو ،کی صورت نکل آئی،کیونکہ حضرت گنگوہیؒ کا وصال 1323ھ میں ہو
چکا تھا۔ہندوستان پہنچ کراکابرین کے حکم پر 1327 ھ دارلعلوم میں تدریس
شروع کی،اس موقع پر یہ قراردادپاس کی گئی کہ مولانا حسین احمد مدنی جب بھی
مدینہ سے ہند واپس آئیں،بغیر تجدید اجازت مجلس شوریٰ مدرس ہوں گے،یہاں آپ
علمی ترقی کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ الھندکی قربت اور مجلس سے خوب مستفیض ہوتے
رہے۔اسی سال 16.17.18اپریل1910ء کو دارلعلوم کے پہلے جلسہ دستار فضیلت کا
انعقاد کیا گیا ،جس میں سب سے پہلے محدث کبیر علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور
پھر آپ کی حضرت شیخ الھندؒ نے اپنے دست اقدس سے دستار فضیلت باندھی ،اس
موقع پر حضرت گنگوہیؒ کے جانشین مولانا حکیم مسعود احمدؒ اور حکیم مولانا
احمد ؒ نے الگ الگ آپ کو دستار فضیلت عطا کی۔
خاندان میں رشتہ کے لیے بوجوہ اس لیے تیار نہیں ہو رہا تھا کہ شادی کے بعد
لڑکی ہم سے دور عرب میں چلی جائے گی ،بالآخر خاندان سے باہر حافظ زاہد حسن
ؒ کی کوششوں سے حکیم غلام احمد بچھرایونی نے دو شرطوں پر رضامندی کا اظہار
کیا ،پہلی شرط کہ بارات میں جملہ اکابردیوبند مع صاحبزادہ مولانا حکیم
مسعود احمد ؒ تشریف لائیں اور دوسری شرط کہ مدینہ منورہ پہنچ جانے کے دو
برس بعد لڑکی کو واپس والدین سے ملوانے لایا جائے گا۔پہلی صورت حضرت شیخ
الھندؒ کی وجہ سے پوری ہوئی،جب کہ نکاح کے دو برس سے زیادہ عرصہ آپ
ہندوستان میں ہی قیام پذیر رہے،والد محترم ،طلبہ اور اہل مدینہ کے اصرار
پر1329ھ میں دوبارہ سفرمدینہ کے لیے روانہ ہوئے اورحسب وعدہ 1331 ھ اہلیہ
، بیٹے الطاف احمداور بھتیجے وحید احمد کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے ۔اسی
سفر میں الطاف احمد کی طبیعت خراب ہوئی،پہلے تپ دق اور پھر چیچک کے عارضے
کی وجہ سے واپسی مدینہ میں وہ پھول ہمیشہ کے لیے مرجھا گیا۔ اواخر 31ھ میں
حجاج کے قافلوں کے ساتھ مدینہ واپسی ہو ئی ،یہ زمانہ جنگ عظیم کا تھا
،آبدوزں اور جنگی جہازوں کے حملے کا ہمیشہ خطرہ رہتا تھا،بڑی مشکل سے
اسٹیمر جہاز جدہ پہنچا ،آپ حج کے بعد محرم 32ھ کو مدینہ پہنچے اور درس و
تدریس میں مشغول ہو گئے۔ |
|