بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ اورمسلم نوجوانوں کی ذمہ داریاں

(سازشوں ،فتنوں اور جنگوں کی وجہ سے)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
گزشتہ چند سالوں سے چند عالمی منظر نا مہ میں اور بالخصوص مشرق وسطی میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، عربی بہار،مصر میں فوجی حکومت کا قیام،یمن ،عراق اور شام میں دہشت و وحشت،ایران اور سعودیہ کہ باہم کشمکش اور بالخصوص داعش کا زمینی حقائق کے برعکس غیر معمولی حیثیت سے خلافت کا پرکشش لبادہ اوڑھ کر ابھرنا ،پرتشدد واقعات سے شہرت حاصل کرکے پوری دنیا پر تسلط حاصل کے دعویٰ کرنا،جہاں ساٹھ کے قریب مسلم ممالک اور غیر مسلم ملکوں میں بھاری مسلم اقلیتوں کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے،اس حوالے سے آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ مسلمان جہاں بھی ہوں اس ملک کے لیے یکسو ہوکر اپنی صلاحیتوں کو بروکار لا سکیں۔

معروف مذہبی سکالر مولانا سید سلمان الحسینی ندوی داعش کے حوالے سے تحقیق رکھتے ہیں پندرہ روزہ رسالہ "بانگ درا" میں لکھتے ہیں کہ "داعش "الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام کا مخفف ہے،یہ نام2013؁ اس وقت متعارف ہوا جب القاعدہ کی عراقی شاخ الدولۃ الاسلامیہ فی العراق (جس نے 2006؁ سے یہ نام اختیار کر رکھا تھا)کے امیرابوبکر(ابراہیم بن عواد ) بغدادی نے ابو محمد الجولانی کو شام میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ،جس نے "جبھۃ النصر ۃ "کے نام سے جہادی تنظیم قائم کرکے کاروائیاں شروع کیں،لیکن شام میں انکی وابستگی عراقی تنظیم سے کٹ کر اصل مرکزی تنظیم القاعدہ کے ساتھ قائم ہو گئی،تو عراقی تنظیم نے اس کو بغاوت سے تعبیر کیا ،اور اپنادائرہ کار شام تک وسیع کردیااور 2013؁میں داعش یعنی" عراق وشام کی اسلامی حکومت "کا اعلان کردیا۔جب کہ ابو محمد الجولانی "جبھۃ النصرۃ " کے تحت القاعدہ کے امیر ایمن الظواھری کے ماتحت کاروائیوں میں مصروف عمل ہیں،داعش نے جبھۃ النصرۃ اور دیگر تنظیموں کیخلاف اپنی کاروائیاں جارہی رکھی ہوئی ہیں جن کا تعلق سعودی عرب،ترکی ،عرب امارات یا قطر وغیرہ سے ہے،کیونکہ ان کے نزدیک یہ ساری تنظیمیں ظالم حکمرانوں کی آلہ کار ہیں(بانگ درا۔جنوری2016)

داعش نے یکم رمضان المبارک 1435؁ھ بمطابق 29جون 2014؁ کو خلافت اسلامیہ کا اعلان کرتے ہوئے اپنا نام دولت اسلامیہ تک محددو کرلیا،جب کے شام کے ضلع حلب سے عراقی ضلع دیالی تک یعنی عراق وشام کا ایک تہائی علاقہ اپنے زیر کنٹرول کرکے اپنا پاسپورٹ اور کرنسی کا باقاعدہ اجراء بھی کیا،عراق کے سب سے بڑے موصل ڈیم اورا ئل ریفارئنریز،حمص کے نیچرل گیس سنٹر کے علاوہ بغداد کے قصبہ جات پر قبضہ کرنے سے داعش کی قوت میں مزید اضافہ ہوا۔یہ ایک حیران کن امر ہے کہ داعش کو ملنے والی کامیابیاں زمینی وجود سے کہیں بڑھ کر ہیں،شام میں سنی مزاحمت کامیاب ہونے کے دنوں میں داعش کو شام کا راستہ دیا گیاتھاکہ وہ ان جہادیوں پر ہی حملے کرکے ،جہاد کی قوت کو کمزور کرے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ داعش ،مختلف رجحانات والے عناصر کے مجموعے پر مشتمل ہے،جن میں عالمی جارجیت و قبضے کے خلاف عسکری جدوجہد کا مرکزی نظریہ کارفرما ہے،ایک طرف قوتیں جاسوسی کے ذریعے ان مختلف خیال قوتوں کے انتشار کا انتظار کررہی ہیں اور دوسری طرف اپنے مہرے ڈھونڈ رہی ہیں تاکہ ان کو تقسیم کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے جا سکیں۔۔

مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی اپنے کالم "تکفیر کا فتنہ اور موجودہ عالمی مخمصہ " داعش کی حقیقت کو یوں لکھتے ہیں،داعش اس وقت دنیا کا سب سے اہم موضوع ہے اور اس کے بارے میں ہر سطح پر بحث و تمحیص اور گرمیء افکار کا سلسلہ جاری ہے،یہ تنظیم عراق کے سابق وزیر اعظم نوری المالکی اور شام کے صدر بشارالاسد کی ان فرقہ وارانہ پالیسیوں اور ریاستی جبر کے خلاف ایک عرصہ سے مسلح جدوجہد میں مصروف جنگجوؤں پر مشتمل ہے، جن کا بین الاقوامی حلقوں میں مسلسل اعتراف کیا گیا ہے، حتیٰ کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ نوری المالکی نے اپنے دور میں فرقہ وارانہ تسلط قائم کرنے کے لئے عراق کی ایک بڑی آبادی کو نشانہ بنایا تھا۔

داعش کا دعویٰ ہے کہ وہ خلافت اسلا میہ کے احیاء کے لیے برسر پیکار ہیں ،جو اس کے بقول عراق و شام میں قائم ہوچکی ہے،اور وہ اس کا دائرہ دنیا بھر میں پھیلانا چاہتی ہے،اسے عراق وشام کے بڑے حصے پر کنٹرول حاصل ہے،اور وہ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور توسیع دینے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کر رہی ہے۔تکفیر وقتال اس کے خصوصی عنوانا ت ہیں،داعش کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ جو مسلمان ان کا ساتھ نہیں دے رہا یا ان کے خیالات میں ان کے مخالف حکمرانوں کی تائید کا سبب بن رہے ہیں ،وہ نہ صر ف کافر ہیں بلکہ واجب القتال ہیں، چنانچہ مبینہ طور پر بے شمار مسلمان اس تکفیر و قتال کی بھینٹ چڑ چکے ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ اگر وہ تکفیر اور قتال کے فتنہ میں مبتلا نہ ہوتے تو اپنے بنیادی اہداف یعنی خلافت اسلامیہ کے قیام اور مشرق وسطیٰ میں اہلسنت کے حقوق و مفادات کے تحفظ کی مہم میں انہیں عالم اسلام میں معقول حمایت حاصل ہوسکتی تھی مگر دہشت گردی اور تکفیر وقتال کا راستہ اختیار کرنے پر وہ امت مسلمہ کے کسی بھی سنجیدہ طبقہ کی حمایت سے محروم ہوگئے ہیں،چنانچہ ان کی ،مذمت اور انکے خلاف کاروائیوں میں امت مسلمہ بھی باقی دنیا کے ساتھ برابر کی شریک دیکھائی سے رہی ہے۔

تکفیر اور اس پر مبنی قتال کا یہ فتنہ نیا نہیں ہے،بلکہ قرن اول سے چلا آ رہا ہے،جنگ صفین کے بعد حضرت علی کرم اﷲ وجہ کے خلاف بغاوت کرنے والے "خوارج"نے بھی تکفیر و قتال کے عنوان پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا ،اور دیکھتے ہی دیکھتے عالم اسلام کے بیشتر حصوں میں اس کا شر اور فساد کا دائرہ پھیلا دیا تھا،وہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کو تو کافرکہتے ہی تھے مگر جنگ صفین میں حضرت علی و حضرت امیر معاویہ ؓ کے درمیان ہونے والی تحکیم (صلح کے مذاکرات)سے برأت نہ کرنے والوں کو بھی کافر کہتے تھے ، حتیٰ کہ ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کاارتکاب کرنے والے عام مسلمان مسلمان بھی دائرہ اسلام سے خارج تھے اور وہ صرف تکفیر تک محدود نہ تھے بلکہ واجب القتل بھی سمجھتے تھے،بصرہ شہر پر قبضہ کے بعد انہوں نے ہزاروں مسلمانوں کو اسی وجہ سے شہید کردیا تھا اور جب ان کا قبضہ کوفہ پر ہوا تو انہوں نے کوفہ کی آبادی کو قتل کا اعلان کردیا تھا اور امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کو گرفتار کرکے خارجیوں کے کمانڈر کے سامنے پیش کیا گیا تھا،یہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا حوصلہ و تدبر اور حکمت عملی تھی کہ نہ صرف خود کو بلکہ کوفہ کے عام مسلمانوں کو بھی ضحاک خارجی کی طرف سے قتل عام کے اعلان پر عملدرآمد سے بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

تکفیر و قتال کے اس فتنے نے اب سے دو عشرے قبل الجزائر میں اس طرح کا حشر بپا کیا تھاملک کو اسلامی ریاست بنانے کے دعوے کے ساتھ ہتھیاراٹھانے والے گروہوں نے دس سال کے اندرایک لاکھ کے لگ بھگ الجزائری مسلمانوں کوباہمی قتل وقتال کی بھینٹ چڑھا دیا تھا اوراب یہ فتنہ پورے مشرق وسطٰی کواپنی لپیٹ میں لینے کیلئے آگے بڑھ رہا ہے لیکن اس سب کچھ کے بعدبھی اکابر اہلسنت نے تکفیر وقتال کی اس روش براٗت اور اس کی شدید مذ مت کے باوجود ان خوارج کوکافر قرار دینے سے گریز کیا ہے امام اعظم امام ابو حنیفہ خود اس دہشت گردی کا نشانہ بنتے بنتے بچے تھے مگرجب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ لوگ کافر ہیں؟تو انہوں نے کفر کا حکم لگانے سے انکار کیااور فرمایا کہ یہ ظالم اور باغی ہیں علامہ ابن عابدین شامی ؒ نے لکھا ہے کہ جمہور فقہاء و محدثین نے ان خوارج کو کافر کے بجائے فاسق و فاجر اور باغی قراردیا ہے البتہ بعض محدثین نے ان کی تکفیر بھی کی ہے۔(از اقتباس کالم روزنامہ اسلام 12 دسمبر2015)

معروف مذہبی سکالر اور کالم نگار مولانا محمد ازہر صاحب اپنی تحریر "داعش کی حقیقت "میں لکھتے ہیں کہ اسلامی ریاست کے قیام کا دعویٰ کرنے والی یہ تنظیم اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے آے دن کوئی نہ کوئی نئی صورت ایجاد کرتی ہے ،جانوروں کی طرح انسانوں کو ذبح کرنا ،ذبح شدہ انسانوں کے سروں کی نمائش کرنا، زندہ انسانوں کوبلند عمارت سے سر کے بل نیچے پھینکنا ،پنجرے میں بند کر کے پانی میں ڈبو دینا، گردن کے ساتھ با رودی مواد باندھ کر اُڑا دینا غرض یہ کہ ایک سے بڑھ کے ایک سفاکانہ طریقے سے لوگوں کی جانیں لینا داعش کا معمول اور تعارف بن چکا ہے ۔داعش نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں بڑے بڑے ابلاغی مراکز قائم کر رکھے ہیں جہاں ان مظالم کی انتہائی مہارت سے فلم بنائی جاتی ہے اور پھردنیا کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے ۔مسلمانوں کو قتل کرنے سے پہلے ان کے مرتد ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے ارتداد کی وجہ ان کا بیعت سے انکار یا باطل نظام کا حصے داریادشمن کا ایجنٹ ہونا بتلایا جاتا ہے ۔

داعش کے عزائم اور مقاصد کیا ہیں؟اس کے متعلق کویت کے مشہور عربی رسالہ المجتمع میں ایک رپوٹ شائع ہوئی جس کا حاصل یہ ہے کہ امریکہ اور اسلام دشمن طاقتوں کو نائن الیون واقعہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے تو انہوں نے کلی طور پر دنیا کے نقشے سے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے داعش کو تیار کیا ہے ،جو عالم عرب میں بسنے والے مسلمانوں کومسلکی بنیاد پر کافر و مرتد قرار دیکراس وقت تک قتل کرنا بند نہ کرے جب تک مشرق وسطیٰ کا لفظ نقشہ سے ختم نہ ہو جائے، دوسری طرف داعش کو اتنا طاقتوربنا دیاجائے کہ وہ ان ممالک کو بھی نشانہ بنائے جہاں مسلمان بڑی تعداد میں بستے ہیں، فرانس میں داعش کے ذریعے جوحملہ کرایا گیااس میں پُرامن شہریوں کو نشانہ بنایا گیاامریکہ واسرائیل کو اس سے حملہ سے ذرا برابر نقصان نہیں پہنچالیکن پوری دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ حملہ آور مسلمان تھے لہذادنیا کے سارے مسلمان قاتل اور مجرم ہیں۔

داعش نے اپنے قیام(2013)کے بعدابتدائی طور پر عرب حکومتوں کے ساتھ امریکااور مغربی طاقتوں کے ظلم وسفاکی کی بھرپور مذمت کی اورعراق وشام میں اہل سنت کے خلاف حکمرانوں کے ظلم اور نسل کشی کو ہدف بنا کر نوجوانوں میں جذبہ انتقام پیدا کیا،یہ پروپیگنڈا صرف عرب ممالک میں ہی نہیں بلکہ یورپی اور دوسرے ممالک میں بھی کیاگیا جہاں مسلمان خاصی تعداد میں ہیں چنانچہ چیچنیا ،داغستان، آزربائیجان اور ترکمانستان سے بھی بڑی تعدادمیں داعش میں شامل ہونے کے لئے شام چلے گئے مگر یہ ہوا کہ اہلسنت کو حکمرانوں کے ظلم وستم سے بچانے کا نعرہ لگانے والی داعش نے عملاً اہلسنت کے خلاف اقدامات شروع کر دئیے ،چنانچہ اس نے آتے ہی عراقی وشامی حکومتوں( دونوں میں امریکہ اور روس کے حمایت یافتہ اور سو فیصد اہل تشیع لوگ ہیں) میں فوری طور پر ایسے تمام افراد کو ختم کردیا جو مستقبل میں ان حکومتوں کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتیں تھے۔

داعش نے جن لوگو ں کو میدان عمل سے غائب کیا ان میں(الف)شام میں بشار الاسد کے خلاف جتنی جماعتیں مسلح ہو کر مقابلہ کررہی تھیں،انہیں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا۔(ب)مساجد کے ائمہ ،خطباء اور علمائے دین کو قتل کیا جو داعش کی فکر کے خلاف تھے۔(د)دولت مند ،شرفاء،معززین شہر،یونیورسٹیز اور کالجز کے پروفیسر، مفسرین و محدثین کرام ،دینی علوم کی تدریس کرنے اولے اساتذہ اور سماجی شخصیات،سائنس دانوں اور انجینئروں اور ایٹمی توانائی کے ماہرین کو نشانہ بنا کر ختم کیا، یہ سب کے سب اہل سنت تھے۔

شام میں چار سال سے اسدی فوج کے خلاف جو لوگ جنگ کر رہے ہیں، داعش نے اپنے اقدامات سے ان کو فوجی ، سیاسی اور مالی لحاظ سے کمزور کرنے کی بھر پور کوشش کی ، داعش نے غیر معمولی تشدد ، انتہاپسندی اور تکفیری طرز عمل کی وجہ سے پوری دنیا کے جذباتی مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے،انتہائی اشتعال انگیز انداز میں تقریریں سنا کر نوجوانوں کے جذبات کو گرم اور ان کے دل ودماغ پر قبضہ کرلیا جاتا ہے،اسلامی خلافت کے قیام کے سہانے خواب دکھا کر انہیں ایسا نشہ پلا یا جاتا ہے کہ وہ شیطان سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

داعش کی ان سرگرمیوں نے بہت سے سوال پیدا کر دیئے ہیں ،مثلاتنظیم نے آج تک بشار الاسد کے خلاف کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا ؟ جب کہ شام کے عوام چار سال سے اس کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔شام اور عراق میں اہل سنت کے اکثریتی علاقوں کو تنظیم نے قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا ، ان علاقوں کے قائدین ،زعماء،علماء و مشائخ کو ہدف بنا کر کیوں قتل کیا گیا؟

ان معروضات کے پیش نظر مہ داعش کو ایک انتہا پسند ،متشدد اور مسلم دشمن طاقتوں کی آلہ کار تنظیم سمجھتے ہیں،اس کے اب تک کیے گے اقدامات قرآن و سنت کی تعلیمات کے صریحاً خلاف ہیں۔(روزنامہ اسلام۔24جنوری2016)

داعش کی متنازعہ حیثیت کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں اخوان کے بزرگ راہنماعلامہ یوسف قرضاوی،اخوان المسلمین اور اس حامی جماعتیں ،عراق،اردن،مراکش،پاکستان ،ہندوستان اور پورپین ممالک کی علماء کونسلیں شامل ہیں۔ سعودی مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اﷲ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ داعش اسرائیلی فوج کا حصہ ہے اور ان خوارج ہی کی ایک شکل ہے جنہوں نے قرن اوّل میں اسلامی خلافت کے خلاف بغاوت کرکے ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا تھا۔

موجودہ حالات میں جہاں مسلم نوجوان داعش اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے شدت پسندانہ کردار سے نفرت و برأت کا اظہار کرتے ہیں وہیں اس عزم وعہد کی بھی تجدید ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات اور معاشرت کو اپنائے بغیر ہم اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکیں گے۔
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 275761 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More