کراچی کی سیاست میں بھونچال لانے یا پھر
وقتی اُبال لانے کے لئے مصطفےٰ کمال تشریف لے آئے۔ آتے ہی انہوں نے بہت سے
انکشاف کئے۔ الطاف بھائی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ کہتے ہیں الطاف ’را‘ کے
ایجنٹ ہیں اور لاشوں پر سیاست کرتے ہیں۔ یہ بات پیپلز پارٹی کے رحمن ملک کو
بھی معلوم ہے۔ الطاف حسین دو نسلوں کو تباہ کر چکے، مگر اُنہیں اب بھی ترس
نہیں آتا۔ لیکن اب بھی وقت ہے۔ الطاف حسین کو چاہئے کہ اﷲ سے معافی مانگ
لیں۔ میں نے ضمیر کی آواز پر پارٹی چھوڑی تھی اور اب پاکستان بچانے آیا ہوں۔
الطاف کے روّیے کی وجہ سے ۲۰۱۳ء کے الیکشن میں کراچی کے اردو بولنے والوں
نے ردِ عمل ظاہر کیا اور پی ٹی آئی کو آٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹ دئیے اور ایسا
تیس سالوں میں پہلی دفعہ ہوا۔ لیکن ایم کیو ایم اپنے تنظیمی سٹرکچر کی وجہ
سے دو سیٹیں زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ہمارا اندازہ تھا کہ اس صورت
حال میں الطاف کو عقل آجائے گی اور وہ ہوش میں آکر اپنی توجہ عوامی خدمت
اور اپنی اصلاح پر دیں گے، مگر اُن کے نامناسب روّیے سے معاملات بگڑتے گئے۔
ایم کیو ایم میں تمام فیصلے ہمیشہ ایک ہی شخص کرتا رہا ہے اور اب بھی کر
رہا ہے۔ نائن زیرو میں کھانا بھی اسی کی مرضی سے پکتا اور کھایا جاتا ہے۔
الطاف حسین اپنے ساتھیوں کو ورکروں سے ذلیل کرواتے ہیں۔ پہلے رابطہ کمیٹی
کے ارکان ہفتوں اور مہینوں میں ایک آدھ دفعہ ذلیل ہوتے تھے۔ مگر اب یہ کام
منٹوں اور گھنٹوں بعد بار بار ہوتا ہے۔ لیکن سب ڈرتے ہیں اور سہہ لیتے ہیں۔
پہلے الطاف رات کو شراب پیتے تھے جس سے اُن کا موڈ آف ہوتا تھا، اب کثرت
شراب نوشی نے دن اور رات کا فرق ختم کر دیا ہے۔ وہ ہر وقت غصے میں رہتے ہیں۔
بدزبانی اور غلط باتیں کرتے ہیں اور رابطہ کمیٹی والے اُن پر پردہ ڈالنے کے
لئے پہروں غلط تشریح کرتے رہتے ہیں۔ الطاف حسین کو کسی مہاجر کی فکر نہیں،
کسی انسان کی فکر نہیں، کسی کارکن کی فکر نہیں۔ وہ کارکنوں کی لاشیں جناح
گراؤنڈ میں رکھ کر مرثیہ پڑھتے اور لاشوں پر سیاست کرتے ہیں۔
جناب مصطفی کمال کی باتیں کوئی نئی نہیں۔ یہ باتیں ہر پاکستانی کو معلوم
ہیں۔ ایم کیو ایم جب پوری طرح طاقتور اور مضبوط تھی تو ہر بات جاننے کے
باوجود کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ الطاف حسین یا ایم کیو ایم کے بارے
میں کوئی منفی بیان دے سکے یا اعلانیہ کچھ کہہ سکے۔ مگر آج حالات بدل چکے
ہیں۔ ایم کیو ایم کو سب سے زیادہ نقصان الطاف حسین نے خود پہنچایا ہے۔ ویسے
بھی قانون فطرت ہے کہ جب لوگ صحیح راستے سے ہٹ جاتے ہیں تو تباہی اور
بربادی اُن کی منتظر ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم کو جو نقصان الطاف کی اپنی ذات
سے پہنچ رہا ہے، ویسا نقصان چاہنے کے باوجود بھی کوئی دوسرا نہیں پہنچا
سکتا۔ پارٹی تیزی سے تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ ٹوٹ پھوٹ اب فطری امر ہے۔
مصطفی کمال اُس ٹوٹ پھوٹ میں یقینا اپنا چھوٹا موٹا حصہ ڈالنے میں کامیاب
رہیں گے، مگر یہ کہنا کہ خود اپنے لئے پاکستانی سیاست میں ایک قومی لیڈر کے
طور پر اپنی جگہ بنا پائیں گے، ممکن ہی نہیں۔ انہیں جو پذیرائی مل رہی ہے،
وقتی ہے۔ وہ ایم کیو ایم کا حصہ رہے ہیں، اس کے تمام جرائم میں برابر کے
شریک۔ ڈوبتی ہوئی ایم کیو ایم کے ساتھ انہیں بھی ڈوب جانا ہے۔ فطرت کے
انتقام سے وہ بھی بچ نہیں پائیں گے۔ کمزور پر ہر کوئی چڑھائی کرتا ہے۔ ایم
کیو ایم کو کمزور سمجھ کر وہ ذاتی بدلہ لینے کے چکر میں ہیں، مگر کوئی
فائدہ حاصل نہ کر پائیں گے۔
پاکستانی سیاست کا اپنا ایک انداز ہے۔ یہاں پر ساری سیاست چند آدمیوں کے
گرد گھومتی ہے اور پچھلے ساٹھ، ستر سال گھومتی رہی ہے۔ وہ چند لوگ کبھی
کوئی اور کبھی کوئی اور تھے اور باقی سب سیاستدان ان کے حواری جو اپنے لیڈر
کی ہاں میں ہاں ملا کر اس کی کاسہ لیس کر کے، چمچہ گیری کر کے تقویت پاتے
ہیں۔ حواریوں میں کوئی ایسا نہیں ہوتا جس کی الگ کوئی حیثیت ہو۔ پارٹی لیڈر
بھی کسی ایسے شخص کو جس میں فہم ہو، عقل ہو، احساس ہو، جرأت ہو اور جو اپنی
ذاتی رائے رکھتا ہو برداشت نہیں کرتے۔ سیاستدان اپنے حواریوں کی صورت میں
کیچوے پالتے ہیں اور حسب ضرورت اُن کیچوؤں کو استعمال کرتے ہیں۔ استعمال کے
لئے جب کیچوے میں ہوا بھری جاتی ہے تو سانپ کی طرح پھنکارنے لگتا ہے۔ مگر
ہوا بھرنے والا بہتر جانتا ہے کہ سانپ کی ہوا کب تک برقرار رکھنی ہے۔ کسی
کیچوے نے غلط فہمی میں خود سچ مُچ سانپ سمجھ لیا تو اس کی ہوا اس طرح نکالی
جاتی ہے وہ دوبارہ کسی کام کا نہیں رہتا۔
مسلم لیگ میں شریف برادران، پیپلز پارٹی میں زرداری اور بلاول ، تحریک
انصاف میں عمران خان اور ایم کیو ایم میں الطاف بھائی کے علاوہ کوئی لیڈر
نہیں ان سے ہٹ کر سب کیچوے ہیں۔ عوام میں کسی کی کوئی سنوائی نہیں۔ یہ لیڈر
جس کیچوے میں ہوا بھر دیتے ہیں، وہ وقتی طور پر سانپ کی طرح جھومتا جھامتا
اور پھنکارتا بھی ہے۔ مگر ہوتا تو کیچوہ ہی ہے۔ ہوا نکلی تو اوقات پر آجاتا
ہے۔ کبھی کبھی کچھ کیچوے غلط فہمی میں میں مبتلا ہو کر اپنے لیڈر سے ہٹ کر
پھنکارنے لگتے ہیں۔ ان کے ضمیر جاگ جاتے ہیں ۔ وہ لوگوں میں بھڑک بازی شروع
کر دیتے ہیں۔ بعض مخالف اپنے مفادات میں انہیں مزید ہوا دیتے ہیں، مگر کچھ
نہیں ہوتا۔ لاہور میں میاں اظہر اُس کی مثال ہیں۔ شریف برادران نے اپنے
مفادات کے لئے انہیں خوب استعمال کیا، ان کا ایک مخصوص Image بنایا۔ فارغ
ہونے کے بعد انہوں نے بہت ہاتھ پاؤں مارے، مگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکے۔
مصطفی کمال کی مئیرشپ کے پیچھے بھی ایم کیو ایم کے فہم و فراست رکھنے والے
لوگوں کی مشترکہ سوچ تھی۔ وہ اکیلے تو کچھ نہیں تھے۔ ایم کیو ایم نے اپنا
Image بنانے کے لئے مصطفی کمال کو استعمال کیا۔ وہ سمجھ بیٹھے کہ شاید وہی
سب کچھ ہیں اور اسی چکر میں آج سامنے آئے ہیں۔ مگر یہ شاید زیادہ لمبی گیم
نہیں۔ چند دنوں میں ہی یہ واضح ہو جائے گا کہ وہ کراچی کے میاں اظہر ہیں
اور مستقبل کی مثبت سیاست میں اُن کا کوئی رول نہیں۔ موجودہ حالات میں ایم
کیو ایم کو ایک منطقی انجام تک پہنچنا ہے مگر جو لوگ الطاف کے متبادل کے
طور پر سامنے آہیں گے وہ کوئی اور ہوں گے میرے خیال میں مصطفی کمال اور ان
کے ساتھی نہیں کیونکہ کیچوہ بہر حال کیچوہ ہوتا ہے سانپ نہیں۔ |