یہ جون ۱۹۹۷کی ایک تپتی سہ پہر تھی ۔
راولپنڈی اسلام آباد آگ کا الاؤ بنے ہوئے تھے۔ پسینے سے شرابور ‘ ہاپنتے
کانپتے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے گیٹ سے داخل ہوئے تو یونیورسٹی کے
پی آر او سید مزمل حسین بے تابانہ آگے بڑھے۔ ان کے خیال میں ہم تاخیر سے
پہنچے تھے اس لیے ممکن ہے آج کی ملاقات نہ ہو سکے ۔ ہمارے خیال میں ہم لیٹ
ضرور تھے لیکن جس شخصیت سے ہماری ملاقات طے تھی اس سے مشفقانہ ڈانٹ تو پڑ
سکتی تھی ملاقات کا ملتوی ہونا ناممکن ۔ہم ایک دوسرے کو ’’فتح ‘‘کرتے سیدھے
ملک معراج خالدکے کمرے میں جا گھسے ۔ ایک لمحے کے لیے ہمارے چہرے پر
شرمندگی کے آثار نمایاں ہوئے ہم نے ان کی نشست کے سامنے کھڑے ہوتے ہی عرض
کیا ……’ مری روڈ پر ٹریفک جام تھا ‘ اس لیے لیٹ ہوگیا جی ‘ معذرت چاہتا ہوں
‘‘ انہوں نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا وہ مسکرائے تو ہم لپک کر ان کے
گلے لگ گئے ۔ ’’ ہم مذہبی لوگ ہیں ‘ معانقہ کرتے ہیں ‘‘ میرے منہ سے بے
اختیار نکلا تو ہلکے سے قہقہے کے بعد انہوں نے گھور کر دیکھا ‘ گرمی سے
چہرے کا رنگ بدلا تھا انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ آپ وہاں اے سی کے
پاس تشریف رکھیں آپ لیٹ ہو گئے تو کوئی بات نہیں ۔‘‘
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب ملک معراج خالد اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر تھے۔
چند ماہ قبل وہ نگران وزیر اعظم بھی رہے تھے۔یاد نہیں ان سے پہلی ملاقات کب
ہوئی تھی ۔ زمانہ طالب علمی میں جب پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھ تعلق
قائم ہوا تو پیپلز پارٹی کے بڑوں میں سب سے پہلے معراج خالد سے ہی ملاقات
ہوئی تھی ۔ ان کی بہت تقریریں سنیں ۔پنجابی لہجہ اردو پر غالب تھا ۔ہم اکثر
اپنے مجمعوں میں ان کی نقالی کرتے تھے۔ پیپلز پارٹی ’’ غریبوں کی جماعت ‘‘
تھی اور اس کے اندر کوئی غریب تھاتومعراج خالد تھا یا راولپنڈی کا قاضی
سلطان ۔ باقی کوئی یاد نہیں پڑتا۔ یہ ہمارے زمانے کی بات ہے ۔ اس وقت جب
میں ان کے پاس بیٹھا تھا تو ڈیڑھ عشرہ گزر چکا تھا۔ وہ لاہور سے آئے ہوئے
ایک وفد میں گھرے بیٹھے تھے۔ ایک صاحب نے پوسٹر نکالا اور ان کے سامنے
پھیلا کر بولے آپ نے ہمارے پروگرام میں ضرور شریک ہونا ہے ۔معراج خالد
مسکرائے اور دیہاتی بھائی سے پوچھا میرا نام آپ نے بغیر پوچھے کیوں لکھا ہے
۔ وہ صاحب بھی دھن کے پکے تھے کہنے لگے مجھے معلوم ہے آپ مان جائیں گے۔
معراج خالد نے اسے بتایا کہ جس روز آپ کی ’’ قومی کانفرنس ‘‘ ہو رہی ہے اس
روز میں مصر جا رہا ہوں ۔ وہ صاحب پھر گویا ہوئے ۔ آپ کانفرنس میں شرکت کے
بعد مصر چلے جائیے گا ۔ انہوں نے بڑی نرمی سے دہقان کو سمجھایا کہ میری
فلائیٹ صبح فجر کے وقت ہے ۔‘‘
’’ اچھا جی آپ نہیں مانیں گے ‘تو میں بھی آپ کی بات نہیں مانوں گا ۔‘‘وہ
دیہاتی اڑ گیا۔
’’ نہیں آپ ایسا نہیں کریں ‘‘ میں تہاڈی منت کرداں آں۔ تسی میرے نال ناراض
نہ ہوؤ۔ ‘‘
دیہاتی کمال مہربانی سے اٹھا اور کہتے ہوئے دروازے سے نکل گیا ۔ ’’ ملک
صاحب ! میں آپ سے پیار کرتا ہوں آپ کریں یا نہ کریں ۔‘‘
وہ چلا گیا تو ملک صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے خود کلامی کے انداز میں
بولے ’’کرتا کیوں نہیں ……میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں ۔‘‘
ملک معراج خالد سے پیار کرنے والے بہت تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ
عوام کے درمیان رہتے تھے۔ وہ لاہور کے سرحدی علاقے برکی میں پیداہوئے تھے۔
ایک کاشتکار گھرانے سے تعلق تھا ۔ علاقے میں اکثر لوگ ان پڑھ اور دیہاتی
تھے۔ انتہائی غریب باپ کے گھر میں جنم لیا تھا۔ باپ اور ماں دونوں ان پڑھ ‘
لیکن اکلوتے بیٹے کو شوق سے پڑھانا چاہتے تھے ۔ ۱۹۳۰ء میں میٹرک کیا ۔۱۹۴۶
میں بی اے اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا ۔ بی اے میں پڑھ رہے
تھے اورروز گار کے سارے دروازے بند تھے۔ برکی سے دودھ جمع کرتے اور لاہور
شہر میں آ کر بیچتے ۔ باٹا فیکٹری میں پینتالیس روپے ماہانہ پر نوکری کی
۔۱۹۶۲میں پہلا الیکشن لڑا ‘ انتہائی نچلے طبقے سے تعلق نے انہیں ہرا دیا
لیکن ہٹ کے وہ بھی پکے تھے ۔ ۱۹۶۰میں پھر الیکشن لڑا تو سارے غریبوں نے مل
کر انہیں مغربی پاکستان اسمبلی کا رکن منتخب کیا ۔۱۹۷۰میں قومی اسمبلی تک
جا پہنچے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی ‘ ۱۹۷۰ء میں وفاقی وزیر
قانون اور ۱۹۷۶ء میں سماجی بہبود اور دیہی ترقی کے وزیر بنے ۔۱۹۷۷ میں قومی
اسمبلی کے پہلی بار اسپیکر اور۱۹۸۸ء میں دوبارہ اسپیکر بنے ‘۵نومبر ۱۹۹۵ء
کو پاکستان کے نگران وزیر اعظم بن گئے ۔ شفاف انتخاب کے بعد وہ اس منصب سے
الگ ہو گئے اور اسلامی یونیورسٹی والی نوکری پر واپس آ گئے۔ اس سب کچھ کے
باوجودساری زندگی کے اثاثوں میں آج جو چیز باقی ہے ‘وہ برکی ( ڈیرہ جاہل )
میں ایک کچا مکان اور چھ ایکڑ زمین ۔ پوری زندگی کڑوے سگریٹ پیتے رہے جن
دنوں ریکٹر تھے ‘ریڈ اینڈ وائٹ کی جگہ گولڈ لیف کا ایک پیکٹ جو سعودی عرب
سے لایاتھا پیش کیا ۔ پہلے تو ڈبے کو دیکھ کر مسکرائے ‘ پھر شکریہ ادا کیا
اور بولے ’’ صغیر! کیوں عادتیں خراب کرتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر ڈبہ اپنے دراز
میں ڈال دیا ۔ کہنے لگے یہ چوہدری خالق داد کو دوں گا آج کل بہت ناراض ہے
مجھ سے ‘‘ کیوں ناراض ہے میں نے پوچھا۔ کہنے لگے میں اس کے بیٹے کو نوکر ی
نہیں دلا سکا۔ کوئی وزیر کوئی مشیر میری سنتا ہی نہیں ۔‘‘
تذکرہ آج کی ملاقات کا ہو رہا تھا۔ بہت سارے مہمانوں کو ’’ دلاسہ ‘‘ دینے
‘پانی ‘ چائے اور سگریٹ پلانے کے بعد وہ میرے سامنے آن بیٹھے ۔ آج ایک
واقعہ سناتا ہوں ‘ وہ بولے ۔ اس واقعے کا بہت دکھ ہے مجھے ‘ بہت زیادہ ‘ یہ
میر ے سینے میں کنکر کی طرح ’’ رڑک ‘‘ہے ۔
’’میرے پاس کچھ بھی نہیں نہ مال نہ دولت ‘ بس یہاں سے نوکری کی تنخواہ ملتی
ہے ‘ میں چاہتا ہوں یہ لوگوں کو پتہ چلے ۔ ہمارے آج کے حکمران کیا ہیں ‘ کل
کیا تھے۔ ‘‘پھر وہ بولے ۔
’’ میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ صبح سکول جانے لگا تو ہمارے گھر میں
کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ میں بھوکا تھا ‘ ضدی بچوں کی طرح اپنی ماں سے لڑ
پڑا وہ بے چاری رونے لگی اس کے پاس کچھ نہیں تھا ۔ میں خالی پیٹ سکول چلا
گیا ۔ شام کو گھر لوٹا میری ماں نے کچھ کھانے کا انتظام کر لیا تھا۔لیکن
نوالا حلق سے نیچے نہیں اتر رہا تھا۔ میں اس کے جھریوں بھرے چہرے کو دیکھتا
رہا ۔ بہت ترس آیا ‘ وہ مجبور تھی میرے لیے اس نے پتہ نہیں کہاں سے کھانا
لایا تھا۔ یہ واقعہ نوک خنجر بن کر سینے میں پیوست ہو گیا ۔میری ماں ایک سو
پانچ برس کے بعد فوت ہوئیں ۔ میں ساری زندگی اس سے معافی مانگتا رہا ۔ وہ
معاف بھی کر چکی تھیں لیکن میں نے اپنے آپ کو معاف نہیں کیا ۔ ساری زندگی
میں نے دن کو جو کمایارات کو کھالیا ۔‘‘ کچھ بھی بچا کر نہیں رکھا ۔ مجھ سے
اس دنیا میں بہت سے لوگ ناراض ہوتے رہے ہیں ۔ میں ان کو راضی کر لیا کرتا
تھا۔ لیکن ’’ ماں کو میں کچھ بھی نہ دے سکا لیکن اﷲ توجانتا ہے ناں میرے
پاس دینے کو کچھ بھی نہیں تھا۔کیا کہتے ہیں آپ مذہبی لوگ؟‘‘
ہمارے پاس جواب تو نہیں تھا ایک سوچ تھی جو لے کر اٹھ آئے جس ملک کا ایک بی
ڈی ممبر کروڑوں کمالے ‘ ایک ممبر اسمبلی ‘ سپیکر ‘ وزیر اعظم کیوں نہ کما
سکا ۔اپنی ماں تو دور کی بات اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی ویسا ہی چھوڑ گیا
جیسا خود تھا۔ اپنے لیے کچھ نہ کر سکا ۔ اس کے ہاتھ کس نے باندھے تھے
اورہمارے حکمرانوں کے ہاتھ کس نے کھول رکھے ہیں ۔ ایک سوال باقی ہے ۔ جس کا
جواب نہیں ملتا۔
ملک معراج خالد ۱۳جون ۲۰۰۳ء کو اس دنیا سے چلے گئے اپنی ماں کے پاس ۔ اس
ملک کا سربراہ خالی ہاتھ چلا گیا ایک کچا مکان ‘ چھ ایکڑ زمین ۔
حیرت ہے معراج خالد!حیرت۔ |