مولوی نواز شریف سے لبرل نواز شریف تک
(Muhammad Younus Majaz, )
صاحبو !وطن عزیز اس وقت دو انتہاؤں میں
پھنس چکا ہے ایک طر ف مذہبی انتہا پسندی کا جادوسر چڑ کر بول رہاہے جسے
بڑھاوا دینے کے لئے عالمی منصوبہ ساز اپنا بھر پور حصہ ڈال رہے ہیں القاعدہ
ہو یا داعش سب کے پیچھے مغرب کا ہاتھ ہے ان تنظیموں کے شدت پسند نظریات نے
اسلام کا چہرہ اس قدر مسخ کر دیا ہے کہ ایک عام مسلمان بھی کنفیوژن کا شکار
ہو کر لبرل فاشسٹوں کے شکنجے میں پھنستا چلا جا رہا ہے تو دوسری جانب مغرب
کی بھرپور مالی معاونت کے عوض لبرل فاشسٹ کھل کر کھیلنے میں مصروف ہیں میاں
صاحب کا مولوی نواز شریف سے لبرل نواز شریف تک کا سفر طے کرنے میں نجم
سیٹھی، افتخار احمد ، جگنو محسن ،عاصمہ جہانگیر، امتیاز عالم جیسے د یگر
لبرل فاشسٹوں کا ہاتھ ہے جن کی اکثریت نہ صرف میڈیا پر قابض ہے بلکہ اہم سر
کاری عہدوں کے مزے بھی نو لبرل نواز شریف کی مہربانی سے لے رہے ہیں جو اس
وقت آئین میں موجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکولر جمہوریہ پاکستان
بنانے میں مصرو ف ہیں ممتاز قادری کی پھانسی میں عجلت، شرمین عبید چنائے کی
وزیر اعظم ہاوس میں پزیرائی اور آسکر ایوارڈ کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی سے
حقوق نسواں بل کی منظوری پرجہاں لبرل فاشسٹ کی خوشی دید نی ہے وہاں مذہبی
حلقے بھی بپھرے ہوئے ہیں جو حکومت کے خلا ف ایک بھرپور تحریک چلانے کے لئے
اپنی صفیں درست کر رہے ہیں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ میاں صاحب نے ایسے وقت
میں جب ملک انتہائی مشکل حالات سے گزر رہا ہے فوج ضر بِ عضب کے ذریعے
بیرونی اور اندرونی محازوں پر دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے ممتاز قادری
کو انتہائی عجلت میں نہ صر ف پھانسی دے دی گئی بلکہ پنجاب اسمبلی سے حقوق
نسواں بل کا تڑکا بھی لگا دیا گیا جس کے بعد مذہبی حلقوں سمیت عام مسلمان
پاکستانی بھی سخت غصے میں ہیں حالاں کہ ممتاز قادری کی پھانسی کو ملتوی یا
عمر قید میں تبدیل کی جا سکتا تھا چونکہ اس گستاخی کے کیس کی اپیل پر فیصلہ
ابھی تک زیر التوا ہے جو سلمان تاثیر کے قتل کا سبب بنا واضح رہے سلمان
تاثیر نے بحثیت گورنر پنجاب ایک سزا یافتہ گستاخ رسولﷺ کو بے گناہ کہنے کے
ساتھ ساتھ قانون ناموس رسالت کو بھی کا لا قانون کہا تھا اور عدالتی فیصلے
کو ماننے سے انکار کیا تھا مسلمانوں کے اس جزباتی اور ایمانی لگاؤ کے حامل
قانون کے خلاف بیان نے پاکستان بھر میں اشتعال پیدا کر دی تھی اوپر سے
سلمان تاثیر کے مختلف ٹی وی چینلز کو دئیے گئے انٹرویوز نے جلتی پر تیل کا
کام کیا جسے اس وقت کی حکومت نے روکا نہ کسی عدالت نے اس معاملہ کو اٹھایا
سو ممتاز قادری سلمان تاثیر کے قتل کا مرتکب ہوئے تو انسداد ہشت گردی کی
عدالت نے ممتاز قادری کو دو مرتبہ سزائے موت سنا دی جسے سپریم کورٹ نے بھی
بحال رکھا عدالتوں کی طرف سے گستاخی کے سزا یافتہ مجرموں کو تو تاحال بوجہ
پھانسی نہیں دی جا سکی لیکن ممتاز قادری کو پھانسی د ے دی گئی ممتاز قادری
کی نماز جنازہ کی کوریج کا بھی پاکستانی میڈیا نے مکمل بلیک آؤٹ کیاجس سے
نہ صرف میڈیا کی آزادی کا پو ل کھل گیا ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ
اس گھناؤنے کردار کے پیچھے کیری لوگر بل کے ذریعے آنے والے امریکی ڈالر
اپنا کام دکھا رہے ہیں جو میڈیا ہاؤسسز پر اشتہارات اور دیگر ذرائع سے
لٹائے جا رہے ہیں تاکہ وہ لبرل ازم اور موجودہ جمہورہت کے نام پر آمریت و
لوٹ مار کا تحفظ کر سکیں جسے میڈیا ہاؤسسز خوب نبا رہے ہیں اگلا مرحلہ
قانون ناموس رسالت اور قادیانیوں کو کافرقرار دیئے جانے والے قانون میں
تبدیلی کے لئے راہ ہموار کرنا ہے اور یہی مغرب کی سب سے بڑی خواہش ہے اپنے
آقاؤں کی خواہش کی اس تکمیل کے لئے ہکلاتی زبان کے مالک ایک ٹی وی اینکر
پرسن ٹی وی کے ایک پروگرام کے دوران شدت جذبات میں آئین میں موجود قرار
دادمقاصد کو ہی آئین سے نکالنے کا مطالبہ کر بیٹھے جو اسلامی نظریاتی کونسل
کے سربراہ مولانا شیرانی کے اس بیان پر تبصرہ کر رہے تھے جس میں انھوں نے
پنجاب اسمبلی کے پاس کردہ حقوق نسواں بل کو آئین اور اسلام کے متصادم قرار
دیا ہے جس کی شق 227 کے تحت کوئی بھی قانون قرآن سنت کے منافی نہیں بن سکتا
لیکن موصوف کو پزیرائی نہ ملنے پر پروگرام ہی چھوڑ کر چلے گئے جہاں تک تعلق
ہے گھریلو تشد د کے خلاف حقوق کے نسواں بل کا تو اسلام جو ایک مکمل ضابطہ
حیات نے عورت کو ماں بہن ،بیوی اور بیٹی کے روپ میں عظمت کا جو مینار بنا
یا ہے اور حقوق دئیے ہیں کوئی اور مذہب اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا
خاندانی نطام میں اسے مرکزی حثیت حاصل ہے جس کے ذریعے پورا خاندان رشتوں کی
ایک لڑی میں پورویا ہوا ہوتا ہے پنجاب اسمبلی کے مغرب زدہ مادر پدر آزاد بل
سے کچھ بھی نہیں ہونے والا یہ صر ف اور صرف چھوٹے میاں صاحب نے بڑے میاں
صاحب کی حکومت بچانے کے لئے مغرب کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی ایک حقیر سی
کوشش ہے جنھیں احتساب کے اس جھکڑ کا سامنا ہے جو سندھ سے پنجاب کی طرف چل
نکلا ہے جس کی لپیٹ میں مسلم لیگ ن کے بڑے بڑے جگادری آنے والے ہیں اگر
مسلم لیگ ن عورتوں کے حقوق دلانے میں اتنی ہی مخلص ہے تو اسلام میں موجود
بہن اور بیٹی کو جائیداد میں حصہ نہ دینے والوں کے لئے قید اور جرمانہ کی
سزا کیوں مقرر نہیں کرتے یونیورسٹیوں میں اسلام کی تبلیغ پر پابندی لگانے
والے کیٹ واک اور کلچر شو کے نام پر عورتوں کی تضحیک، بے حیائی کے پھیلاؤ
کی حوصلہ افزائی کرنے اور مادر پدر آزاد معاشرے کو فروغ دینے والے حکمران
اور لبرل پسند وں کی بہنیں بیٹیاں اگر نشے میں دھت رات گئے گھر لوٹنے لگیں
تو ان کا ردِعمل کیا ہو گا؟
صاحبو !رہی بات شرمین عبید چنائے کے آسکر ایورڈ کی تو ایک محترم کالم نگار
عتیق صدیقی جو نیو یارک سے پشاور کے ایک مقامی روزنامہ میں لکھتے ہیں نے
اپنے کالم میں جو نکات اٹھائے ہیں پاکستانیوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی
ہیں معاصر کالم نگار لکھتے ہیں ’’شرمین کے حاصل کردہ دونوں آسکر ایوارڈ وں
کا صحیح سیاق و سباق وہ نہیں جو پاکستانی میڈیا پیش کر رہا ہے ہمارے میڈیا
دانشوروں کو کو کچھ خبر نہیں کہ امریکہ میں ان کے ملک کے خلاف کیا ہو رہا
ہے وزیر اعظم اس لئے مظلوم ہیں کہ وہ اپنی مرضی کا وزیر خارجہ مقرر نہیں کر
سکتے تو انہیں یہ کیسے معلوم ہو گا کہ امریکہ اور یورپ میں ان کے ملک کو کس
نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس طرح کی ڈاکو منٹریوں کو آسکر ایورڈ کیو ں
دئیے جاتے ہیں ‘‘وہ آگے چل کر لکھتے ہیں ’’بات زیادہ پرانی نہیں ،پانچ برس
پہلے ایبٹ آباد میں یکم مئی 2011ء کی رات اسامہ بن لادن کا قتل ہوا اس
واقعے پر ہالی ووڈ نے معرکتہ الا آرا ء فلم زیرو ڈارک تھرٹی بنائی جس میں
آئی ایس آئی کو دہشت گرد تنظیموں کا سر پرست بنا کر پیش کیا گیا اس فلم کے
چر چے امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ میں اتنے زورو شور سے ہوئے کہ اسکی
کہانی اب مغربی ممالک کے لوگوں کا طرز ِاحساس بن چکی ہے ۔شرمین عبید چنائے
کی پہلی آسکر ایورڈ یافتہ ڈاکو منٹری کا ٹائٹل The saving Face تھا یہ
2012میں منظر عام پر آئی شرمین نے امریکہ کے سمتھ کالج سے اکنامکس کی ڈگری
حاصل کی تھی وہ امریکہ اور کینیڈا میں کئی سال تک فری لانس جرنلزم کرتی رہی
ہیں اس سے پہلے اس نے سٹین فورڈ یونیورسٹی سے ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرز
کیا تھا ،دی سیونگ فیس پنجاب کی دو مظلوم خواتین کی کہا نی ہے جن کے چہرے
ان کے شوہروں نے تیزاب پھینک کر مسخ کر دئیے تھے ان کے نام رخسانہ اور ذکیہ
تھے یہ اور کئی دیگر ڈاکو منٹریاں شرمین نے نیویارک ٹائمز ٹیلی ویژن اور
سمتھ کالج کے مہیا کردہ کیمروں اور فنڈز کی مدد سے بنائی تھیں انکی ایک
ڈاکو منٹری چلڈرن آف طالبان تھی جو پاکستان میں افغان بچوں کی حالت زار پر
بنائی گئی تھی ان کی ایک معر کتہ الآ را ء ڈاکو منٹری کا ٹائٹل Pakistan,s
Double Game ہے اس کی تھیم سبجیکٹ اور کہانی وہی ہے جو گزشتہ دس برسوں سے
امریکی ذرائع کا نہ ختم ہو نے والا پسندیدہ موضوع ہے شرمین نے نیو یارک
ٹائمز کے اس من پسندیدہ موضوع پر پاکستان کی ڈبل گیم والی ڈاکو منٹری اسی
اخبار کے سر مائے سے بنائی تھی اس کے بعد 2014ء میں عالمی شہرت یافتہ
امریکی صحافی کارلو ٹا گال نے The Wrong Enemy لکھی جس کا مقصد یہ ثابت
کرنا تھا کہ امریکہ کا اصل دشمن پاکستان تھا طالبان نہ تھے میں اگر شرمین
عبید کو پاکستانی کار لوٹاگال کہوں تو مجھے غلط ثابت کرنے کے لئے پاکستانی
دانشوروں کو ٹھوس شواہد دینا ہوں گے اب آئیے دیکھتے ہیں کہ آجکل امریکہ میں
پاکستان کے خلاف کیا کچھ ہو رہا ہے’’اے گرل ان دا ریور ‘‘کو آسکر ایورڈ
29فروری کو ملا ہے اس سے ایک مہینہ پہلے 30جنوری کو نیویارک ٹائمز کے مشہور
کالم نگار نکولس کر سٹوف نے Her father shot her in the head as honor
killing کے عنوان سے ایک با تصویر کالم لکھا ،اس زہریلے کالم کا مقصد
پاکستان کی خواتین سے ہمدردی سے زیادہ ان کے وطن کے چہرے کو مسخ کرنا تھا
اس کے بعد وال سٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ میں پاکستان کے خلاف کالموں اور
رپورٹوں کا سلسلہ شروع ہوا ان میں سے ایک کالم نیویارک ٹائمز کی Gail
Collins کا لکھا ہوا تھا یہ اتنا بھیانک تھا کہ اسلام آباد کے دی نیوز میں
اس کے جواب میں کالم شائع ہوئے اب آتے ہیں ہم اپنی مشہور زمانہ ملالہ یو سف
زئی کے ذکر کی طرف آج کل نیویارک ٹائمز میں ہی He Named me Malalaیعنی ا س
نے میرا نام رکھا ملالہ کے نام سے بنی ہوئی ایک ایسی ٹیلی ویژن فلم کا پورے
صفحے کا اشتہار ہر روز شائع ہو رہا ہے جسے ہالی ووڈ کے نامی گرامی پروڈیوسر
Davis Guggenheimنے بنایا ہے اور جو جلد ہی امریکہ بھر میں ٹیلی ویژن پر
دکھائی جائے گی میرا سوال صرف اتنا ہے کہ ملالہ اور شر مین انڈیا ،
افغانستان ،بنگلہ دیش ،سوڈان یا صومالیہ کی شہری ہوتیں تو کیا انہیں اتنی
عالمی شہرت مل سکتی تھی کتنا بد قسمت ہے وہ ملک جس کی بیٹیوں کو عالمی
تھانیداد نہایت مہارت سے اس کی رسوائیوں اور ذلتوں کا چلتا پھرتا اشتہار
بنا دیتے ہیں ‘‘
صاحبو ! یہ ہے وہ بھیانک چہرہ لبرل فاشسٹوں کا جس سے پردہ سرکایا ہے محترم
عتیق صدیقی نے ،شرمین ہو یا ملالہ مغربی ایجنڈے پر گامزن ان خواتین کو بھر
پور حمایت حاصل ہے لبرل فاشسٹوں کی جنھوں نے آج کل نوازشریف کے گرد گھیرا
ڈالا ہوا ہے اور انھیں مولوی نواز شریف سے لبرل نواز شریف تک لانے میں اہم
کردار ادا کر رہے ہیں جہاں تک تعلق ہے مذہبی حلقوں کا تو انھیں بھر پور
عوامی حمایت اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک وہ اپنی صفوں سے ایسے شد ت
پسندوں کونکال باہر نہیں کرتے جو ذاتی مفادات اور لیڈری کے شوق میں قرآن و
حدیث کی غلط تشریح کرنے اور ذاتی اختلاِ ف رائے کو دینی اختلا ف سے تعبیر
کر کے مخالفین کو دین سے خارج کرنے کا فتویٰ لگانے میں بھی دیر نہیں لگاتے
اسی لئے ایک عام آدمی لبرل فاشسٹوں کے نکلتے پروں سے جہاں تشویش کا شکار ہے
وہاں شدت پسند مولویوں سے بھی خوف زدہ ہے جس کی وجہ سے عوام کھل کر کسی
اسلامی تحریک کاحصہ بننے سے ہچکچا رہے ہیں جس سے لبرل طبقہ کے حوصلے بلند
ہو رہے ہیں ورنہ 1977میں چلائی جانے والی بھٹو مخالف کامیاب تحریک نے انھیں
آج تک خو فزدہ کئے رکھا تھا ۔ |
|