کمال نے کوئی کمال نہیں کیا
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
سیاست تو دنیا میں ہر جگہ کمال کی ہے
لیکن ہمارے ملک میں سیاست نے دنیا بھر کے تمام ریکارڈ توڑدیے ہیں۔ شاید
سیاست نام ہی اپنے مفادات کے حصول کا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں
بغاوت کوئی نئی بات نہیں، مسلمان حاکموں کی تاریخ کے اوراق اس بات سے بھر ے
پڑے ہیں کہ باپ نے بیٹے کو، بیٹے نے باپ کو ، بھائی نے بھائی کواقتدار کی
خاطر جیل میں ڈالاحتیٰ کے جان سے ہی مروادیا اور خود حکمراں بن بیٹھے۔ یہ
سلسلہ منتقل ہوتے ہوتے موجودہ دور تک آن پہنچا ہے۔بادشاہت ہوتی تو وہی کچھ
ہورہا ہوتا لیکن جمہوریت میں صورت حال مختلف ہوتی ہے اس لیے سیاست مفادات
کی ہوکر رہ گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں بغاوت کی تاریخ جو مجھے یاد ہے
ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے ساتھ مسلم لیگی کی حیثیت سے کی تھی۔ بہت
ممکن ہے اس سے قبل بھی ایسا ہوا ہو لیکن اُس دور کی تاریخ مجھے یاد نہیں،
ایوب خان کے مارشل لاء سے قبل بھی اقتدار کی خاطر اُکھاڑ بچھاڑ کی تاریخ
موجود ہے ، یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کسی لیڈر نے
جب بھی بغاوت کی اُسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ۔ سوائے بھٹو صاحب کے کہ
جنہوں نے ملک کی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا،
حکمرانی کی اور عالمی طاقتوں پر بھی اپنا سکہ بٹھا یا۔ یہاں تک کہ انہوں نے
پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت کے دلوں میں اپنے نام کی ایسی مہر ثبت کی کہ
اس کے پھل سے پیپلز پارٹی آج بھی مستفیض ہورہی ہے، جئے بھٹو نہ تو بے نظیر
کے لیے ہے نہ آصف علی زرداری کے لیے اورنہ ہی بلاول کے لیے ، یہ صرف
ذوالفقار علی بھٹو کے لیے ہی لگا یا جاتا ہے، بے نظیر کی تو بات ہی کیا ہے
وہ تو بھٹو کی بیٹی تھی اس لیے اس میں بھٹوکی خوبیاں اور صلاحیتوں کا ہونا
قدرتی عمل تھا۔ اس کے بعد بھٹو کے نام پر زرداری صاحب نے بھی پانچ سال خوش
اسلوبی سے گزارے۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں کئی باغیوں نے جنم لیا، مولانا
کوثر نیازی نے بھی بغاوت کی اور پروگریسو پیپلز پارٹی بنائی، انجام صفر،
ممتاز بھٹو نے بغاوت کی مختلف پارٹیاں بنائیں ،ان کے حصے میں کیا آیا؟حنیف
رامے مساوات پارٹی بناکر باغی ٹہرے حاصل کچھ نہ ہوا، غلام مصطفی کھر بھی بے
نظیر کو پارٹی سے الگ دیکھنے کی خواہش لیے رہے، غلام مصطفیٰ جتوئی نے نیشنل
پیپلز پارٹی بنا کر کیا حاصل کیا ، وہ وزیر اعظم اپنی سیاسی جماعت یا اپنی
مقبولیت کی وجہ سے نہیں بنائے گئے ، ڈاکٹر صفدر عباسی اور ناہید خان بغاوت
کا علم ہاتھ میں لیے پھر رہے ہیں، کوئی پوچھتا بھی نہیں، مخدوم امین فہیم
نے پارلیمنٹیرین بنائی وہ پیپلز پارٹی کا تسلسل ہی تھا، شیرپاؤ خیبر
پختونخواہ تک محدود ہیں،مرزا جی یعنی ذوالفقار مرزا نے بھی اپنے پارٹی کے
قائد کے خلاف کیا کچھ واویلا نہیں کیا،پھر تھے ذلیل و خوار کوئی پوچھتا بھی
نہیں والی کیفیت ہے۔ انہوں نے الطاف حسین اورمتحدہ کے خلاف کیا کچھ الزامات
نہیں لگائے۔ آخر کار ٹھنڈے ہوگئے ۔ پیپلز پارٹی میں شاید اوربھی باغی ہوں
میرے ذہن میں نہیں ۔
دوسری بڑی جماعت جس نے سب سے زیادہ باغی پیداکیے مسلم لیگ ہے۔ قائد اعظم
اور قائد ملت لیاقت علی خان کے بعد مسلم لیگ میں جیسے باغی پیدا کرنے کی
فیکٹری لگ گئی ۔ تمام باغیوں کے نام گنوانا مشکل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے
مخدوم جاوید ہاشمی تک جنہوں نے خود کہا کہ’ ہاں میں باغی ہوں‘ سارے باغیوں
کا کیا حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ الگ پارٹی بنائی تو وہ محض تانگہ پارٹی
تک محدود رہے۔قائد اعظم مسلم لیگ پنجاب کی حکومت تک محدود رہی ، میاں نواز
شریف کو کیوں کہ اقتدار میں شریک کر کے ضیاء الحق نے ان کے لیے راہ ہمرار
کی تھی۔ جسے انہوں نے اور چھوٹے میاں صاحب نے عقل و دانش سے کام لیتے ہوئے
ملک کا اقتدار تیسری بار بھی حاصل کیا لیکن میاں برادارن کی مسلم لیگ کو
بھٹو کے مقابلے میں ملک گیر سطح پر پذیرائی آج بھی حاصل نہیں ، وہ پنجاب کے
کاندھوں پر سوار ہوکر اقتدار حاصل کرتے رہے۔ مسلم لیگ (ق) نون سے ٹوٹ کر
بنی ،پھرمسلم لیگ (ق) سے بغاوت کرکے ماروی میمن ، شیخ وقاص ،حامد زایداور
دیگر دوبارہ نون لیگ میں شامل ہوئے، شیخ رشید کی پارٹی، اعجاز الحق کی مسلم
لیگ (ضیاء) تانگہ پارٹیاں ہی ہیں، جمعیت علمائے پاکستان جس کے سربراہ علامہ
شاہ احمد نورانی تھے ان کے معتمد مولانا عبدالستار نیازی نے بغاوت کی اور
الگ گروپ قائم کیا،نیشنل عوامی پارٹی میں بھی گروپ ہوئے۔ دورکیا جانا اپنے
کپتان کی تحریک انصاف میں بغاوت نہیں ہوئی، مخدوم جاوید ہاشمی کا کیا حال
ہوا،ان کے خون میں لگتا ہے بغاوت رچی بسی ہے وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے
اور دوبارہ باغی بنے ، حاصل کیا ہوا، چند دن میڈیا میں شہرت اس کے سوا کچھ
نہیں ؟ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمدنے بھی بغاوت کا الم بلند کیا کپتان کے
سامنے کچھ نہ چلی، آخر کار خاموش ہوئے۔للو پنجوتو کسی گنتی میں ہی نہیں
ہیں۔
الطاف حسین کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کا سلسلہ رحمان ملک سے شروع ہوا تھا جب
وہ ایف آئی اے کے ڈائیریکٹرتھے، بعد میں وہی الطاف حسین کے عاشق ہوئے،جب
دیکھو لندن الطاف بھائی سے شرف ِملاقات کے لیے دوڑے چلے جارہے ہیں۔ان کے
بعد عمران خان صاحب نے فرمایا کہ میں لندن جارہا ہوں الطاف حسین کے خلاف
ثبوتوں کا بریف کیس لے کر ،دنیا سوچ رہی تھی کہ بس اب الطاف حسین کا کام
تمام ہو ا، کہاں گئے وہ ثبوت، ان کے بعد انہی کی جماعت کے ایک کارندے فیصل
واڈا جن کے بارے میں سنائی ہے کہ کمال سے متاثر ہیں نے یہی کچھ ڈرامہ رچا
یا،لندن گئے، پر تماشا نہ ہوا، کیا ہوئے وہ ثبوت ، کیا ہوئے وہ دعوے؟
ذوالفقار مرزا بھی متحدہ کے خلاف ثبوتوں کا ڈرامہ کرتے رہے ، الٹی ہوگئیں
سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا، فیصل واڈا کو چھوڑیں وہ تو ایک معمولی
کارکن ہی تو ہے عمران خان کو اس بات کا خیال ہونا چاہیے کہ وہ ایک قومی سطح
کے لیڈر ہیں ، اس قسم کی سیاست سے فائدہ نہیں نقصان ہی ہوتا ہے۔ کیا ہوئے
عمران خان کے دعوے، کیا ہوئے الطاف حسین کے بارے میں ثبوت، سب ہوا ہوگئے،
سب کچھ عمران خان بھول گئے ۔ جب اپنی ضرورت پڑی تو متحدہ سے کراچی میں جلسے
کے حوالے سے خاموشی اختیار کرنا پڑی، اس لیے کہ ضرورت تھی۔ یہ ہے ہمارے
سیاست دانوں کی سیاست۔
لمحہ موجود میں کمال نے کوئی کماہ نہیں کیا،ان کی بغاوت کے بارے میں ہر خاص
و عام ، پرنٹ میڈیا ہو یا برقی میڈیا سب کی ایک ہی رائے سامنے آئی ہے کہ
نیا جال لائے پرانے کھلاڑی ،حالات اور واقعات کی ، الزامات کی جو تصویر کشی
کی گئی اُسے دیکھ کر معمولی سیاسی شعور رکھنے والا بھی یہ کہہ رہا ہے کہ
الزامات گزشتہ کئی دیہائیوں سے الطاف حسین اور متحدہ پر لگائے جاتے رہے ہیں
لیکن انہیں ثابت آج تک نہیں کیا گیا۔ کیا میڈیا پررنج و الم ، سوگ ، ماتم ،
ملال ، افسوس کی صورت بنالینے سے، ہچکیوں اور سسکیوں کی کیفیت اپنے اوپر
طاری کر لینے سے ہمدردیاں حاصل ہوسکتی ہیں تو کمال میاں کے ہر دلعزیز سابق
قائد آنسوں بہانے میں ، رونے میں رنج والم کی کیفیت اپنے اوپر طاری کرنے
میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ یہ ھنر انہیں ان کے سابق قائد نے ہی سکھایا
ہے،پریس کانفرنس میں انہوں نے رونا دھونا شروع کیا ایسا لگا کہ کمال کی
صورت میں الطاف حسین کی روح آگئی ہے۔ مظلومیت کا جو نقشہ پیش کیا وہ واقعی
اچھا تھا جسے سرکاری طور پر وزیر داخلہ صاف الفاظ میں ایک سے زیادہ بار رد
کرچکے ۔ وزیر داخلہ اسی سیاسی جماعت کے کرتا دھرتا ہیں جس جماعت نے اپنے
دورِ اقتدار میں اس سیاسی جماعت کا کڑا احتساب کیا تھا، یہ احتساب اب بھی
ہورہا ہے۔ احتساب تو پیپلز پارٹی نے بھی کیا، جنرل نصیر اﷲ بابر کا احتساب
کون بھول سکتا ہے، متحدہ کی منفی کارگزاری اپنی جگہ، الطاف حسین کی غلطیاں
اور کوتاہیاں اپنی جگہ یہ جماعت اپنے پیدائش سے آج تک مسلسل باغیوں کو جنم
دے رہی ہیں۔ یہ باغی عام طور پر اندر کے بھیدی ہی ہوتے ہیں اسی لیے تو لنکا
ڈھاتے ہیں۔ الطاف حسین میں بے شمار خامیاں ہیں لیکن جتنے باغی ماضی میں جنم
لے چکے اور جن کی پیدائش چند دن قبل ہوئی اور وہ جو آئندہ دنوں میں جنم
لینے والے ہیں تمام کے تمام الطاف حسین کے انتہائی قریبی ،تربیت یافتہ
،پرورش کردہ، سکھائے ہوئے ، بنائے ہوئے، سنوارے ہوئے اور پالے ہوئے ہیں۔ ان
سب نے اسی ہانڈی میں کھایا ہے جسے الطاف حسین اپنے ہاتھوں سے پکایا کرتے
تھے۔ میں الطاف حسین کا طرفدار کبھی نہیں رہا اور نہ ہی متحدہ کا حامی لیکن
سیاسی شعور اور سیاسی سوچ یہ بتارہی ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے کہنے والا آزادی
سے، دل سے یہ بات نہیں کہہ رہا بلکہ اس سے کہلوایا جارہا ہے بالکل اسی طرح
جیسے ماضی میں کہلوایا گیا، کروایا گیا، لایا گیا ، ٹرکوں میں بٹھا کر ۔
فرق اتنا نظر آرہا ہے اس مرتبہ ڈرامہ نگاروں نے اداکاروں کو اسکرپٹ تو
پرانا ہی تھما دیا البتہ سختی سے تاکید کی کہ خبردار کسی بھی عمل سے معلوم
نہ ہوسکے کہ تمہیں کس کی آشیرواد حاصل ہے۔ لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر
منائے گی ایک نہ ایک دن اس راز سے پردہ اٹھ ہی جائے گا، جیسے ماضی میں ہونے
والے الزامات پر سے پردہ اٹھ چکا ہے۔یہ بھی کہ کمال نے اپنے قائد جسے وہ
اپنا باپ بھی کہا کرتے تھے سے ایسے وقت میں غداری کی ہے جب کہ الطاف حسین
کی زبان بندی ہے اور وہ صحت کے حوالے سے بھی انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔
اگر یہ دونوں چیزیں نہ ہوتی تو کسی بھی گھر کے بھیدی کو یہ جرات ہر گز نہ
ہوتی۔
کمال کے دامن میں تو نیک نامی تھی ، شہر کراچی کو بنانے کا ، محنت سے کام
کرنے کا، ایمانداری اور خلوص سے کام کرنے کا ہار گلے میں پڑا ہوا تھا،بس
زبان کے بیہودہ ہیں، طاقت کے نشے میں میڈیا پر کراچی والوں کو الو کا پٹھا
کہہ چکے ہیں،اب ان کا ظمیر جاگ گیا ہے ان کے ساتھ چند اور کا بھی ظمیرجاگا
ہے،اس ظمیر نے انہیں سچ بولنے پرمجبور کر دیالیکن انہوں نے اپنی بغل میں جس
کو بٹھا کر ظمیر کی آواز لوگوں تک پہنچائی اس کے بارے میں تو مختلف کہانیاں
ہیں۔ تمام کہانیوں کو جانے بھی دیں تو خود موصوف اپنے زبان سے جو کچھ کہہ
رہے ہیں اس میں سچائی کی رمق دکھائی نہیں دے رہی، پاکستان کے لیے ان کا
ظمیر جاگا، انہوں نے اپنے لیے علم بغاوت بلند نہیں کیا بلکہ یہ عوام کا درد
ہے جس نے انہیں مجبور کیا ، بقول ان کے وہ پاکستان کے لیے آئے ہیں۔ بہت خوب
پاکستان سے محبت کا درد ؟ کیا کہنے، تیسرے صاحب ڈاکٹر ہیں ان کا ایک واقعہ
سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے سنایا غالباً ان کا نام عارف ہے لندن میں مقیم
ہیں، باغی تو نہیں ہوئے لیکن متحدہ کے اب کارکن نہیں ،الطاف بھائی کے
جانثار ضرور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نوے کی دیہائی میں ایک مرتبہ ڈاکٹر
صغیرکو کسی جگہ بلایا گیا تو یہ لیٹ پہنچے معلوم کیا تو موصوف نے بتا یا کہ
ان کے پاس کنوینس نہیں تھا کسی کی موٹر سائیکل مانگ کر یہاں تک پہنچے ہیں ۔
اب کمال سے جھپی ڈالنے وہ کس گاڑی میں آئے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے قوم
کے ہمدردوں کا، ان کا بھی ظمیر جاگ چکا ہے۔بچپن میں قائد کے عاشق ہوئے،
جوان ہوئے تو وزارت ملی گئی، گفتگو کا انداز فلسفیانہ رہا ہے، پاکستانی اور
انگریز شہریت رکھتے ہیں، ان کا بھی ظمیر جاگا اور دوڑے چلے آئے کمال کی
محبت میں، اچھی بات ہے ، یہ سب وہ ہیں جو اپنا ناتا متحدہ سے توڑ چکے تھے،
بعض دور اندیش ایسے ہوتے ہیں کہ وہ جس کشتی میں سوار ہوں اگر انہیں یہ
محسوس ہوجائے کہ یہ کشتی ڈوبنے والی ہے تو وہ کھٹ دوسری کشتی میں سوار ہونے
کی تگ و دو کرنے لگتے ہیں۔الطاف حسین کی کشتی بھی ہچکولے کہا رہی ہے۔ کمزور
دل والوں کا کیا کام ہچکولے لیتی کشتی میں سفر کرنے کا۔
ایک اور اہم نقطہ جس کی جانب سوشل میڈیا پر عارف نام کے کوئی صاحب ،نے اپنے
ویڈیو پیغام میں بتایا کہ الطاف حسین کئی سالوں سے ایک ہی خاندان کے چار
افراد کے نرغے میں ہیں۔ان تک لندن میں موجود کسی کارکن کی رسائی ممکن نہیں۔
یہی چار افراد جو آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں الطاف حسین کے سیاہ و سفید کے
مالک ہیں، جو یہ کہتے اور چاہتے ہیں وہ الطاف حسین کہتے اوربولتے ہیں۔ڈاکٹر
ندیم نصرت لندن میں الطاف حسین کے قریب ہوتے ہوئے بھی بے بس ہیں۔ یہ بیان
متحدہ کے ذمہ داران کے لیے سوچنے اور تحقیق کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ اگر
واقعی کچھ ایسا ہے تو ذمہ داران کو اس جانب بھر پور توجہ کرتے ہوئے اس بات
کی تحقیق کرنی چاہیے۔ ویڈیو پیغام دینے والے نے محمد انور کا نام لے کر یہ
تفصیل بیان کی ہے۔دیگر قریبی لوگوں میں محمد انور کے بھائی، بہنوئی اور
بیٹی کا نام لیا گیا ہے۔سیاست میں ’مائنس ون‘ کی اصطلاح کافی استعمال ہوتی
رہی ہیں ۔ اب بھی یہی کہا جارہا ہے کہ بغاوت کی بنیاد مائنس الطاف ‘ ہے ،
یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ماضی میں مائنس بے نظیر، مائینس آصف علی زرداری،
حتیٰ کہ مائینس نواز شریف بھی ہوتا رہا ہے۔ متحدہ میں تو مائنس کی باتیں
بہت پہلے سے چلی آرہی ہیں، کیونکہ متحدہ کی سیاسی حیثیت مختلف ہے اس کے
مخالف اس کے اپنے بھی ہیں پرائے بھی ، ہر سیاسی جماعت کی نظروں میں یہ کھٹی
ہے ، نواز شریف ہوں یا آصف علی زرداری جب متحدہ سے فائدہ ہورہا ہو تو یہ
حضرات نائن زیرو جانے میں دیر نہیں لگاتے، جب کام نکل جاتا ہے تو اس میں سو
سو کیڑے نظر آنے لگے ہیں، آصف علی زرداری کو صدارت کے لیے سب سے پہلے کس نے
نامزد کیا، الطاف حسین نے، اس وقت الطاف حسین بہت اچھا تھا،این اے 246 کا
ضمنی انتخاب ہوا حقیقت سامنے آئی ، بلدیاتی انتخابات ہوئے ، پردہ اور چاک
ہوا تو تمام تر سوچ بدل گئی، اقتدار ، کراچی ہاتھ سے چلے جانے کا ڈرتو
فورناً آنکھیں پھیر لیں، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نواز شریف کی حکومت ڈولنے
لگی تو متحدہ بہت پیاری لگی، اسے گلے لگانے میں دیر نہیں کی۔ یہی سیاست ہے
ہمارے ملک کی۔کمال کی پریس کانفرنس کے بعد جو صورت حال محسوس کی جاسکتی تھی
وہ کسی شاعر کے اس شعر سے عیاں ہے ۔
مٹا رہا تھا نام میرا وہ انہی پتھروں سے اب
میرے نام کو چوم کر جو قسمیں کھاتا تھا
کمال کے بعد قائم خانی، وسیم اور رضا ہارون نے جتنے الزامات لگائے وہ تمام
کے تمام ماضی میں متحدہ اور الطاف حسین پر لگائے جاچکے ہیں ، یہ کسی عدالت
میں ثابت نہیں کیے گئے۔اس لیے کہ الزام تراشی کرنے والوں نے الزام تو لگائے
لیکن ثبوت کسی نے پیش نہیں کیے ۔ کمال سے جب کہا گیا کہ آپ ثبوت پیش کریں
تو صاف کنی کاٹ گئے اس لیے کہ یہ الزامات سینہ بہ سینہ چلے آرہے ہیں۔ آج
بھی کچھ ایسا ہی ہے، الزامات ہیں لیکن ثبوت نہیں، برقی میڈیاکوایک اچھا
موضوع ہاتھ آگیا ، کئی دن اس میں گزرجائیں گے، کالم نگاروں کو بھی موضوع
چاہیے ہوتا ہے۔ مجھ سمیت شاید ہی کوئی کالم نگار ایسا ہوگا جس نے کمال کی
باکمال باتوں کو اپنا موضوع نہ بنا یا ہو۔ حکومت کی پالیسی وہ ہے جو
وزیرداخلہ نے اس حوالے سے بیان کردی ہے اور یہ بھی کہ دیکھو اور انتظار
کرو۔برقی میڈیاکے بعض تنگ نظر الطاف حسین اور متحدہ سے اپنی اگلی پچھلی
تمام کد ور توں اور نفرتوں کا انتقام لے رہے ہیں ، بہت عرصہ کے بعد یہ موقع
ہاتھ آیا کہ جس کا نام لیتے ہوئے ڈر لگتا تھا آج الطاف اور کمال کے تعلقات
کے حوالے سے ایک خاتوں اینکر اتنا آگے نکل گئیں اور ا یسا سوال بھی کمال سے
پوچھ لیا جومرد بھی ٹی وی پر کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ مہربانوں
نے الطاف حسین کی موت کی خبرسوشل میڈیا پر دی حتیٰ کہ الطاف حسین کو مردہ
اور کفن پوشی میں بھی دکھاد یا گیا۔ یہ ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ اس کے
ذریعہ زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ دکھانا کوئی مشکل کام نہیں۔ سیاسی
دشمنی میں اس قدر آگے نکل جانا حیرت اور افسو س کی بات ہے ۔ ایک نہ ایک دن
سب ہی کو جانا ہے، اگر الطاف حسین کا وقت آگیا ہے تو وہ ضرور جائے گا، دنیا
کی کوئی طاقت اسے روکنے والی نہیں۔ الطاف حسین حتمی اور آخری آدمی نہیں ،
قائد اعظم ، قائد ملت، ذوالفقار علی بھٹو،بے نظر بھٹو رخصت ہوئے ان کی جگہ
اوروں نے لے لی، انسان آنی جانی چیز ہے، یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد
تک جاری رہے گا۔ سیاست میں شخصیات وقتی طور پر تو اہم ہوتی ہیں لیکن وقت کے
ساتھ ساتھ ان کی اہمیت کم ہوتی جاتی ہے۔ بڑے بڑے سیاست داں چلے گئے الطاف
حسین بھی رخصت ہو جائے گا تو قیامت نہیں آجائے گی۔ یہ ملک قائم رہے گا،
کراچی آباد رہے گا، یہاں کی نمائندگی کرنے والے اور پیدا ہوجائیں گے۔ آخر
الطاف حسین سے پہلے بھی تو کراچی کی نمائندگی لوگ کر رہے تھے اب اگر کوئی
تبدیلی آجائے گی تو اس سے اہل کراچی پر قیامت برپا نہیں ہوجانے والی ۔
شخصیت سے بڑھ کرہمارا ملک ہے ، ہمارا شہر ہے ہمیں اس کی فکر زیادہ ہونی
چاہیے۔ (15مارچ 2015) |
|