سیاسی جماعتوں کااتفاق جمہوریت کازیورہے

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے اسلام آبادمیں ا یشیاکی سیاسی جماعتوں کی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی سے اکیلے نہیں متحدہوکرہی نمٹا جاسکتا ہے۔اس لیے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سیاسی جماعتیں متحدہوجائیں۔بلاول بھٹوزرداری کاکہناتھا کہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے اتحادکی اشدضرورت ہے۔انٹرنیشنل کانفرنس آف ایشین پولیٹیکل پارٹیز دنیا کے پچاس ممالک کی تین سوسے زیادہ سیاسی پارٹیوں پرمشتمل ہے۔اس تنظیم کے زیراہتمام انسانی سمگلنگ کے موضوع پرورکشاپ کااہتمام پاکستان کی چارسیاسی پارٹیوں پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن ،پاکستان مسلم لیگ ق اورپاکستان تحریک انصاف نے مل کرکیاتھا۔اسی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹوزرداری سیاسی جماعتوں کے اتحاداورمتفقہ عمل کی ضرورت پرزوردیا ہے۔وزیراعلیٰ شہبازشریف سے سینیٹرعثمان کاکڑ کی سربراہی میں بلوچستان کے پارلیمانی وفد نے ملاقات کی۔جس میں باہمی دلچسپی کے امورپرتبادلہ خیال کیاگیا۔وزیراعلیٰ محمدشہبازشریف نے اس موقع پرگفتگوکرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہم سب کا ہے۔اورہمیں مل کراسے سنوارنا ہے چاروں صوبے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔پنجاب حکومت نے اپنے تعلیمی پروگرامزمیں بلوچستان، خیبرپختونخوا،سندھ ، گلگت بلتستان اورآزادکشمیرکے طلباء وطالبات کوبھی شامل کی ہے اورضمن میں خصوصی کوٹہ مقررکیاگیاہے۔پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ،دانش سکولز،لیپ ٹاپ سکیم ،ہونہارطلباء طالبات کی بیرون ملک مطالعاتی دوروں اورپوزیشن ہولڈرزکونقدانعام دینے جیسے انقلابی پروگرامزمیں پاکستان کی تمام اکائیوں کی شمولیت سے قومی یکجہتی، ینگاگت اوربھائی چارے کوفروغ ملا ہے۔وزیراعظم محمدنوازشریف کی قیادت میں موجودہ حکومت بلوچستان کی ترقی کیلئے ٹھوس اقدامات کررہی ہے۔این ایف سی ایوارڈمیں پنجاب حکومت نے اپنے حصہ کے گیارہ ارب روپے سالانہ بلوچستان حکومت کودیے پانچ سالوں میں پچپن ارب روپے دیے جوکہ ہماری ذمہ داری بھی ہے اورفرض بھی۔انشاء اللہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت بلوچ بہن بھائیوں کی خدمت کافرض اداکرتی رہے گی۔شہبازشریف کاکہناتھا کہ پاکستان چاراکائیوں گلگت بلتستان اورآزادکشمیرپرمشتمل ہے اورہماری خوشیاں اوردکھ سانجھے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت پاکستان کی چاروں اکائیوں کوساتھ لے کرچل رہی ہے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں کی روش چھوڑکرہم کے راستے پرچلنے میں ہی ہماری بقاہے اوراسی میں پاکستان کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کارازمضمر ہے۔ بلوچستان کے عوام ہمارے بھائی ہیں ان کی ترقی اورخوشحالی کیلئے ہم ہرطرح حاضر ہیں۔مذہبی وسیاسی جماعتوں کے راہنماؤں اورعسکری وخارجہ امورکے ماہرین نے بلاول بھٹوزرداری کی تجویزپرردعمل دیتے ہوئے کہاہے کہ حقوق نسواں بل،کراچی آپریشن اورضرب عضب ہویاپھرکوئی اورقومی مسائل ان کے پائیداراورمستقل حل کیلئے تمام سیاسی قیادت کوملکی مفادکیلئے ایک ہوجاناچاہیے۔یہی مسائل کاحل ہے۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوکی تجویزخوش آئندبات ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی قیادت کوایک ہوناہوگاایسا ہونے سے دنیاکوپاکستان سے ایک خوش آئنداورمضبون پیغام جائے گا۔اس حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت پہلے ہی سب سیاسی جماعتوں کوساتھ لے کرچلنے کی پالیسی پرعمل پیراہے اورہرمعاملے پروزیراعظم نے تمام جماعتوں سے مشاورت کی ہے اوراس میں ہراول دستہ ثابت ہوئے ہیں۔ہم پی ٹی آئی کی قیادت کوبھی گاہے بگاہے پیشکش کرتے رہتے ہیں کہ وہ بھی ذاتی مفادات کوبھلاکرملکی مفادکی خاطرہمارے ساتھ چلیں اورملک میں دھرنے دینے کی بجائے ملک سے غربت،بے روزگاری اوردہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت کے ساتھ شامل ہوجائیں ہم انہیں خوش آمدیدکہیں گے۔جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کہتے ہیں کہ پہلے ہی سے پیپلزپارٹی اورن لیگ ایک ہیں اورن لیگ نے پیپلزپارٹی کے پانچ سال پورے کروائے اوراب پیپلزپارٹی مفاہمت کے نام پرن لیگ کے پانچ سال پورے کروائے گی۔ملک میں اپوزیشن نام کی کوئی چیزنظرنہیں آرہی اورعوام کی بات کوئی نہیں کررہا ہے۔اگرملکی مفادمیں مسائل کے حل کیلئے تمام جماعتیں ایک پلیٹ فارم پرآجائیں تویہ بہت بڑابریک تھروہوگا۔تحریک انصاف کے راہنماجہانگیرخان ترین کاکہناتھاکہ ن اورپی پی اپنی اپنی باری کی سیاست کررہی ہیں۔اس بیان سے لگتا ہے انہیں اگلی باری کیلئے سیاسی جماعتوں کااتحادنظرآرہا ہے۔لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی والے پھراپنی باری کیلئے اتحادکی باتیں کررہے ہیں۔بلاول بتائیں جب ملک کے عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے پی ٹی آئی سڑکوں پرنکلی توان کی جماعت نے پی ٹی آئی کاساتھ کیوں نہ دیااوراس وقت حکومت کی گودمیں جاکربیٹھ گئی ایسے لوگوں کے منہ سے اتحادکی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔مسلم لیگ ق کے راہنمامشاہدحسین سیّدکہتے ہیں کہ ہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگیوں کے اتحادکے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کوبھی ملکی مفادکی خاطرایک ہوجاناچاہیے اوروہ مسائل جوملکی کودرپیش ہیں انہیں حل کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔لیکن جن لوگوں نے اس کے حل کی طرف توجہ دینی ہے وہ اس میں سنجیدہ نہیں لگتے ہیں۔جے یوآئی کے راہنماحافظ حسین احمدنے کاکہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کوجواسمبلی کے اندرہوںیاباہرہوں ان تمام کوملم بیٹھ کرکام کرناہوگامگراس کیلئے حکومتی پارٹی کوپہل کرناہوگی اورعملی ثبوت بھی فراہم کرناہوگااورحکومت کیلئے داخلی اورخارجی خطرات بھی ختم ہوجائیں گے۔ایم کیوایم کے راہنما فاروق ستارنے کہا کہ ہم بلاول بھٹوکی تجویزکی حمایت کرتے ہیں انہیں ایساکرنے کیلئے آگے بڑھ کرتمام سیاسی جماعتوں سے رابطے کرنے چاہییں۔انہیں ایک پلیٹ فارم پرلانے کیلئے اپناکرداراداکرناہوگا۔اسلامی نظریاتی کونسل کے سنیئرممبرعلامہ افتخارحسین نقوی کاکہناتھا کہ معاملہ تحفظ حقوق نسواں کاہو،کراچی آپریشن کاہو، ضرب عضب کاہو،بھارت یاپھرامریکہ سے تعلقات کاہوحکومت ہرمسئلے پرسیاسی ومذہبی جماعتوں کے راہنماؤں کوایک پلیٹ فارم پراکٹھاکرنے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ایسا ہونے سے نہ توکوئی دھرنادے گااورنہ ہی کوئی سڑکوں پرآئے گا۔سابق وزیرخارجہ گوہرایوب کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اورن لیگ توپہلے ہی آپس میں اتحادی ہیں۔انہیں ذاتی نمودونمائش اورمفادات سے نکل کرتمام پارٹیوں کواکٹھاکرناہوگا۔اگربلاول کی تجویزملکی مفادمیں ہے توہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔جنرل (ر) ضیاء الدین بٹ نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کااتحادملکی مفاد میں ہوناچاہیے۔اس سے بھارت اورامریکہ سمیت پوری دنیاکوپاکستان سے مضبوط پیغام جاسکتا ہے۔
بلاول بھٹوزرداری نے تواب ملکی مسائل کے حل کیلئے سیاسی جماعتوں کے اتحادکی ضرورت کی بات کی ہے۔ جبکہ شہبازشریف اس سے پہلے بھی میں کی روش چھوڑکرہم کی روش اپنانے کی بات کرچکے ہیں۔کہتے ہیں اختلافات جمہوریت کاحسن ہیں اتفاق کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی۔ ہم کہتے ہیں کہ اتفاق جمہوریت کازیورہے۔ملک میں سیاسی اورمذہبی جماعتوں کے اتحادکی ضرورت صرف موجودہ دورمیں ہی نہیں بلکہ ہردورمیں رہی ہے اوررہے گی۔بہت سے ایسے معاملات ہیں جوقومی مفادمیں ہونے کے باوجودسیاسی جماعتوں کے عدم اتفاق کی وجہ سے تعطل کاشکارچلے آرہے ہیں۔سیاسی جماعتیں ذاتی اورسیاسی مفادات کوقومی مفادات پرترجیح دیتی چلی آرہی ہیں۔پاکستان کی سیاسی اورمذیبی جماعتیں ذاتی اورسیاسی مفادات کوایک طرف کرکے قومی مفادمیں ایک ہوجائیں توپاکستان چندسالوں میں ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکتا ہے۔کہنے کوتوملک میں مشترکہ مفادات کونسل بھی قائم ہے جس کااجلاس چندروزپہلے ہوچکا ہے۔ اس میں قومی نوعیت کے مسائل پرغورکیا جاتا ہے۔اس کے ہوتے ہوئے بھی قومی مفادات کے بہت سے منصوبے التواکاشکارچلے آرہے ہیں۔بلاول بھٹوکی تجویزاورشہبازشریف کی خواہش توچھی ہیں ایسا ہونابھی چاہیے یہ کام جتنا ملک وقوم کی ضرورت ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل بھی ہے۔پہلے توایسی شخصیت کوتلاش کرناہوگاجویہ کام کرسکے۔پیرآف پگاڑارحمۃ اللہ علیہ مسلم لیگیوں کے اتحادکی کوششیں کرتے کرتے اس دارفانی سے کوچ کرگئے ۔ایک سیاسی جماعت کے گروپوں کومتحدکرنااتنامشکل ہے توتمام سیاسی جماعتوں کااتحادبناناکتنامشکل ہوگا۔اس کیلئے سیاسی اورذاتی مفادات کی قربانی دیناہوگی جوکہ بہت مشکل ہے۔ ہرسیاسی جماعت اس اتحادمیں شامل ہوتے وقت اتناضرورسوچے گی کہ ایساکرنے سے اس کی سیاسی ساکھ پرکیااثرات مرتب ہوں گے۔اس کاکریڈٹ کس کوجائے گا۔دہشت گردی کیخلاف جنگ کے سلسلہ میں بھی سیاسی جماعتوں میں عدم اتفاق رہا ہے کوئی اسے امریکہ جنگ کہتا تھا اورکوئی اپنی جنگ۔دہشت گردی کی جنگ لڑنے اورملک سے دہشت گردی ختم کرنے بات بھی کی جاتی تھی اوردہشت گردوں کی کارروائیوں کی کسی نہ کسی حوالے سے حمایت بھی کی جاتی تھی۔ دہشت گردی کیخلاف اب اتفاق ہوا ہے جس کے بعدآپریشن ضرب عضب شروع کیاگیا جوکہ کامیابی کے ساتھ اختتامی مراحل میں جاری ہے۔کراچی میں بھتہ خوری، امن وامان اوردیگرسنگین جرائم کاسلسلہ کئی دہائیوں سے جاری تھا وہاں بھی تمام سٹیک ہولڈرزکے اتفاق رائے سے آپریشن شروع کیاگیا جس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔سابقہ ادوارحکومت میں بھی کئی ایسے مواقع آئے جن میں پاکستان کی تمام سیاسی قیادت ایک ہوگئی۔اب بھی کیاہی اچھاہوکہ پاکستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اپنی اپنی پہچان برقراررکھتے ہوئے ملک وقوم کے اجتماعی مفادات کیلئے ایک ہوجائیں۔پی آئی اے کی نجکاری تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کی جاتی توحکومت کوناکامی کاسامنانہ کرناپڑتا۔پی آئی اے کی بحالی کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اورسٹیک ہولڈرزکی مشاورت سے جولائحہ عمل ترتیب پاتااس پرکسی کواعتراض بھی نہ ہوتا۔اقتصادی راہداری جوپاکستان ہی نہیں ایشیاکی معیشت کیلئے اہم منصوبہ ہے اسے بھی اختلافات کامجموعہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ پہلے یہ روٹ بنایاجائے۔روٹ توسب پاکستان کے تھے جوبھی پہلے بن جاتا وہ پاکستان کاہی روٹ ہوتا۔وزیراعظم نوازشریف نے مغربی روٹ کی پہلے تعمیرکااعلان کرکے اس منصوبہ کوکالاباغ ڈیم بننے سے بچالیا۔کالاباغ ڈیم کی بات چلی ہے تویہ منصوبہ بھی سیاسی جماعتوں کے عدم اتفاق کی وجہ سے گذشتہ کئی دہائیوں سے تعطل کاشکارہے۔جب بھی سیلاب آتا ہے دریائے سندھ کے آس پاس رہنے والوں کاقیمتی جانی اورمالی نقصان ہوتا ہے حکومتوں کو متاثرین کے بچاؤاوران کی بحالی کیلئے کثیرسرمایہ خرچ کرناپڑتا ہے۔دریائے سندھ کالاکھوں کیوسک پانی سمندرمیں چلاجاتا ہے ۔دوسری جانب فصلوں کوان کی ضرورت کیمطابق پانی نہیں ملتا۔جس سے فصلات پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم بن جانے سے ان مسائل سے نجات مل جائے گی۔نہ صرف موجودہ نہری علاقوں میں پانی کی کمی پوری کی جاسکے گی بلکہ جہاں نہری پانی کی سہولت نہیں ہے وہاں کی فصلات بھی اسی پانی سے سیراب کی جاسکیں گی۔تمام ماہرین اس بات پرمتفق ہیں کہ اس ڈیم کے بننے سے کسی کوکوئی نقصان نہیں ہوگا۔تمام سیاسی جماعتیں قومی نوعیت کے اس منصوبہ کی تکمیل پرمتفق ہوجائیں تویہ ان کاقوم پراحسان ہوگا۔نیب سندھ میں کارروائیاں کرتا رہا توسب ٹھیک تھاجب پنجاب میں داخل ہونے لگاتواس میں اصلاحات کاخیال آگیا۔نیب کے طریقہ کارمیں کوئی خامی تھی تواس کاخیال اس کے سندھ میں کارروائیاں کرنے سے پہلے کیوں نہ آیا۔کوئی کہتاکہ نیب کے پرکاٹے جارہے ہیں توکسی نے کہا کہ نیب کے پرنہیں ناخن کاٹیں گے۔جس نے کرپشن کی ہواس کے خلاف ضرورکارروائی ہونی چاہیے چاہے وہ حزب اقتدارکاحصہ ہویااپوزیشن کانمائندہ۔ملک سے کرپشن کے خاتمہ پربھی تمام سیاسی جماعتیں ایک ہوجائیں توحکومتوں کوآئی ایم ایف اورورلڈ بینک سے سخت شرائط پربھیک نہیں مانگناپڑے گی۔الیکشن کمشنرکیلئے سابق جج ہونے کی شرط ختم کی جارہی ہے۔ ایسا ہوگیا توالیکشن کمشنرکاتقرر اوربھی مشکل ہوجائے گا۔کیونکہ سیاسی جماعتوں کااتفاق ہی مشکل سے ہوگا۔بلاول بھٹوزرداری اپنی اس تجویزکوعملی جامہ پہنانے کاآغاز ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کوکالاباغ ڈیم کی تعمیرپرمتفق کرکے کریں ۔ا س وقت نہ صرف پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں بلکہ دنیابھرکے مسلمانوں کوایک پلیٹ فارم پرمتحدہونے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ملک سے غربت، کرپشن، دہشت گردی، بے روزگاری، جہالت، لاقانونیت، ذخیرہ اندوزی، مہنگائی،ٹیکس چوری، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ،اغوابرائے تاوان، پانی کی کمی،ماحولیاتی آلودگی،کینسر، پولیو اوراس طرح کی دیگرجان لیوابیماریوں، جعل سازی،ملاوٹ، لوٹ مار، ناجائزمنافع خوری،اوورچارجنگ، اوورریڈنگ، اوورلوڈنگ کے خاتمہ اورناموس رسالت کے تحفظ کیلئے ایک ہوجائیں ۔یہی قوم کی خواہش بھی ہے اورتمنابھی۔مسال یوم پاکستان مناتے وقت سیاسی جماعتیں قومی مسائل اورچیلنجزپراتفاق کاباضابطہ اعلان کرکے قوم کوتحفہ د ے کرقراردادپاکستان کی تکمیل کی جانب ایک اورقدم بڑھائیں۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351402 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.