بزدل صحافیوں : اُس وقت تم کہاں تھے؟
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
آج ہر دوسرا چینل مصطفیٰ کمال کی پرانی تصاویر اور وڈیوز دکھا کر ان کے بارے میں بتا رہا ہے کہ یہ تو ایسے ہیں، ان کا کردار یہ رہا ہے، ان کو خواتین سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔میرا سوال ان تمام نام نہاد بہادروں سے یہ ہے کہ جس وقت مصطفیٰ کمال یہ سب کررہا تھا، اس وقت آپ کہاں تھے؟
الطاف حسین کی انڈیا میں پاکستان مخالف تقریر بھی آپ لوگوں کو دکھانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
کراچی پریس کلب پر ایم کیو ایم حقیقی کے کارکنوں پر سر عام تشدد کیا گیا،حقیقی کے کارکنوں کو لہو لہان کردیا گیا، لیکن حیرت انگیز طور پر کسی بہادر صحافی نے یہ خبر نہیں چھاپی ۔ یہ خبر کراچی کے دو اخبارات کے علاوہ کسی کو چھاپنے کی توفیق نہ ہوئی۔
ایم کیو ایم کو عفریت بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ صحافیوں کا ہی تھا۔ |
|
|
مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم سے بغاوت کرکے
اپنی الگ پارٹی بنانے کا اعلان کیا کِیا، ایم کیو ایم کی صفوں میں ہلچل سی
مچ گئی ہے۔ دوسری جانب یکے بعد دیگرے ایم کیو ایم کے رہنمائوں کی مصطفیٰ
کمال کے ساتھ شمولیت نے متحدہ کو وقتی طور پر ہلا دیا ہے۔ اس وقت تک رضا
ہارون آخری رہنما ہیں جنہوں نے مصطفیٰ کمال کا ساتھ دینے کا اعلان کیا
ہے۔مصطفیٰ کمال سے لے کر رضا ہارون تک جتنے بھی منحرف رہنما ہیں ، انہوں نے
ایم کیو ایم کی سیاست اور الطاف حسین کے بارے میں کوئی نئی بات نہیں بتائی
ہے۔ یہ باتیں تو گزشتہ بیس برسوں سے ہم کہتے آرہے ہیں، اور گزشتہ آٹھ
برسوں میں یہی باتیں ہم نے تواتر کے ساتھ اسی ہماری ویب کے فورم پر کہی
ہیں، ہم نے یہ باتیں اس وقت کہی ہیں جب کوئی یہ باتیں کہنے کا حوصلہ رکھتا
تھا اور نہ ہی تصور کرسکتا تھا۔
خیر یہ تو ضمنی بات ہے۔ میں اصل بات کی طرف آتا ہوں۔ مصطفیٰ کمال کراچی کے
ناظم رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے جو دو نمبر کیے ہم بار بار ان کی نشاندہی
کرتے رہے۔ دنیا کے نمبر دو مئیر کا معاملہ ہو یا نعمت اللہ خان صاحب کے
منصوبوں پر اپنی تختیاں لگانے کا، گرین بس اور میٹرو بس روٹس کا معاملہ ہو
یا مصطفیٰ کمال کی عوام کے ساتھ بد تمیزی کی بات ہو، سوشل میڈیا ( بلاگز،
یو ٹیوب، فیس بک) پر یہ ساری باتیں موجود تھیں۔لیکن کسی نام نہاد جرات مند
، آزاد ، بہادر میڈیا اور صحافی کو اتنی توفیق نہیں ہوتی تھی کہ الطاف
حسین، ایم کیو ایم اور مصطفیٰ کمال کے خلاف کوئی بات کرکے دکھائے۔شہر کراچی
میں لاشیں گرتی رہیں، سب کو پتا ہوتا تھا کہ قاتل کون ہیں ، لیکن سارے نام
نہاد بہادر چوہے کی طرح بلوں دبکے رہتے اور نامعلوم افراد کے کھاتے میں
ساری وارداتیں ڈال دی جاتی ۔ نعمت اللہ خان کے منصوبوں پر دن دیہاڑے ڈاکہ
ڈالا جاتا، لیکن کوئی کچھ کہنے والا نہ تھا۔ سٹی ناظم کھلے عام کراچی والوں
کو الو کے پٹھے کہتے، صحافیوں کو سوال پوچھنے پر ذلیل کرتے، کراچی ہارٹ
ڈیزیز سینٹر میں خاتون سے توہین آمیز سلوک کرتے رہے لیکن یہ سب صحافی،
اینکرز وغیرہ جان کے خوف سے زیادہ ہ مال نہ ملنے کے خوف میں مبتلا رہے اور
یہ معاملات اٹھانے کی کسی نے زحمت نہیں کی۔
لیکن اب میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر دوسرا چینل مصطفیٰ کمال کی پرانی تصاویر
اور وڈیوز دکھا کر ان کے بارے میں بتا رہا ہے کہ یہ تو ایسے ہیں، ان کا
کردار یہ رہا ہے، ان کو خواتین سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔میرا سوال ان
تمام نام نہاد بہادروں سے یہ ہے کہ جس وقت مصطفیٰ کمال یہ سب کررہا تھا، اس
وقت آپ کہاں تھے؟ اس وقت آپ کی صحافتی اخلاقیات کہاں تھی؟ اس وقت آپ کی
بہادری افیون کھا کر کیوں سوتی رہی؟ اس وقت آپ لوگوں نے یہ باتیں کیوں
نہیں بتائیں، جس طرح آج بار بار مصطفیٰ کمال کی پرانی باتوں کے ٹوٹے چلا
رہے ہیں، اس وقت کیوں نہیں چلاتے تھے؟۔ آج آپ لوگ ہارٹ ڈیزیز سینٹر کی
وڈیو دکھا کر لوگوں کوبتا رہے ہو کہ مصطفیٰ کمال ایسا ہے، تو جناب من یہ
ویڈیو تو کم وبیش آٹھ سال سے یو ٹیوب پر موجود ہے، اور عوام اس کو بہت
پہلے دیکھ چکے ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ آپ نے اس وقت یہ بات کیوں نہیں
اٹھائی؟ جب مصطفیٰ کمال صحافی کو ڈانٹ رہے تھے، اس وقت آپ نے یہ کیوں نہیں
سوچا کہ یہ صحافیوں کی تذلیل ہے۔
اگر مصطفیٰ کمال کا ضمیر اب جاگا ہے تو آپ کا ضمیر بھی تو اس وقت سویا ہوا
تھا، ہاں لیکن بات یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال نے چاہے کسی کے اشارے پر ہی سہی اب
زبان کھولی ہے، لیکن آپ تو اب بھی خاموش ہیں۔ہاں یاد آیا الطاف حسین کی
انڈیا میں پاکستان مخالف تقریر بھی آپ لوگوں کو دکھانے کی ہمت نہیں ہوئی ،
تقریر دکھانا تو دور کی بات ہے، اس کی خبر تک آپ نے لوگوں نے نہیں چلائی،
یہ ویڈیو بھی آپ لوگوں نے عمران خان کے کاندھے پر رکھ کر دکھائی۔ کراچی
پریس کلب پر ایم کیو ایم حقیقی کے کارکنوں پر سر عام تشدد کیا گیا، ان کی
خواتین کے دوپٹے کھینچے گئے، ان کی بے عزتی کی گئی، حقیقی کے کارکنوں کو
لہو لہان کردیا گیا، لیکن حیرت انگیز طور پر کسی بہادر صحافی نے یہ خبر
نہیں چھاپی ۔ یہ خبر کراچی کے دو اخبارات کے علاوہ کسی کو چھاپنے کی توفیق
نہ ہوئی۔کراچی میں جعلی ووٹنگ ہوتی رہی، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کیے جاتے
رہے ، عوام کے مینڈیٹ کو چرایا جاتا رہا لیکن صحافی خاموش رہے۔
اچھا قارئین آپ کو ایک دلچسپ بات بتائیں کہ ایک چینل پر ’’ وفاق کی بات ‘‘
کرنے والے ایک نام نہاد بہادر صحافی مصطفیٰ کمال کی پرانی ویڈیو دکھا کر
سوال کررہے تھے کہ دیکھیں مصطفیٰ کمال عورتوں سے اس طرح بات کرتے تھے، لیکن
ستم ظریفی یہ کی کہ اس پر بات کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے رہنما اور بلدیہ
ٹائون کے سابق ناظم سلمان مجاہد بلوچ کو بلایا تھا۔ جناب سلمان مجاہد وہی
ہیں جنہوںنے اپنی نظامت کے دور میں سٹی کونسل کے اجلاس میں مخالف گروپ کی
خاتون کو بیلٹ سے مارا تھا۔ یقیناً یہ تصاویر اس باخبر صحافی نے بھی دیکھی
ہونگی لیکن انتہائی ڈھیٹ بن کر سلمان مجاہد سے عورتوں کی عزت پر بات کررہے
تھے۔ہے نا ستم ظریفی
ویسے بر سبیلِ تذکرہ گزشتہ روز ایم کیوایم کے سابق ایم پی اے اور حالیہ
منحرف کارکن رضا ہارون شاہ زیب خانزاد ہ کے پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ
’’شاہ زیب بھائی ایم کیو ایم اردو بولنے والے سب افراد کی نمائندہ جماعت
نہیں ہے۔‘‘ ساتھ ہی فرمانے لگے کہ’’ گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کے
خلاف آٹھ ساڑھے آٹھ لاکھ ووٹ پڑے ہیں۔‘‘ قارئین یہی بات تو ہم ایک عرصے
سے کہہ رہے ہیں۔ رضا ہارون نےتو صرف پی ٹی آئی کو ملنے والے آٹھ ساڑھ
آٹھ لاکھ ووٹ کا ذکر کیا ہے، جب کہ یہاں سے پی پی پی ، جماعت اسلامی مسلم
لیگ اور دیگر جماعتوں کو ملنے والے ووٹ الگ ہیں۔ لیکن بات وہی ہے کہ جب ہم
کہہ رہے تھے تو کوئی نہیں مانتا تھا ، اب اندر کی گواہیا ں آرہی ہیں۔
یاد رکھیے کہ ایم کیو ایم کو عفریت بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ صحافیوں کا ہی
تھا۔ اگر یہ لوگ ہمت دکھاتے، ایم کیوا یم کا چہر ہ بے نقاب کرتے، ظلم کو
ظلم کہتے، تو کوئ وجہ نہیں تھی کہ ایم کیو ایم اپنی اوقات میں رہتی۔ کراچی
اس طرح تباہ و برباد نہ ہوتا، یہاں ہزاروں بے گناہوں کا خون نہ بہتا، اگر
یہ صحافی ایم کیو ایم کے جرائم پر پردہ نہ ڈالتے، ان کے لوگوں کو حد سے
زیادہ اہمیت نہ دیتے تو آج کراچی کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ لیکن افسوس کہ
ایسا نہیں ہوا ، بلکہ اس وقت بھی جب کہ ایم کیو ایم اپنے منطقی انجام کی
طرف گامزن ہے، یہ لوگ اپنے مفادات کے لیے اس کا تحفظ کررہے ہیں۔ ہاں یہ
ضرور ہے کہ آج پس پردہ قوتوں کے ڈنڈےکے خوف سے ایم کیو ایم کے خلاف کچھ
خبریں چلا دیتے ہیں، اوراسی قوت کے ڈر سے بھائی کے خطابات پر پابندی بھی
لگی ہوئی ہے ، ورنہ یہ وہی لوگ ہیں جو نشے میں بھائی کی نشے میںدھت ہوکر کی
جانے والی گھنٹوں پر محیط تقاریر براہ راست دکھاتے رہے ہیں۔
آخری بات کہ گزشتہ ایک سال میں کراچی کی سیاسی فضا یکسر تبدیل ہوئی ہے۔
آج ہر دوسرا فرد ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے خلاف آسانی سے بات کررہا
ہے، ایم کیو ایم کا خوف ختم ہوتا جارہا ہے، لیکن ایک سال پہلے تک کسی کی
ہمت نہیں ہوتی تھی، اور جس وقت کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی اس وقت ہم اس ظلم
کو ظلم کہتے تھے، جب ہر کوئی اس سیلاب کے آگے بے بس تھا، ہم اس کے آگے
بند باندھ رہے تھے، جب اہل کراچی خوف ، اہل سیاست مصلحت اور اہل صحافت
مفادات کا شکار تھے، تو اس وقت ہم تھے جو ان کے خلاف آواز بلند کرتے رہے،
جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں ایم کیو ایم نے سب سے
زیادہ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کو شہید کیا ہے، لیکن
ہم میدان میں ڈٹے رہے۔ لیکن صحافی حضرات سے سوال یہی ہے کہ جب کراچی میں یہ
سب ہورہا تھا اس وقت تم کہاں تھے؟
ہمارا لہو بھی شامل ہے تزئین گلستان میں
ہمیں بھی یاد رکھنا چمن میں جب بہار آئے |
|