جب پھول انگارے بن جائیں

ہمارا وطن ایک باغیچے کی مانند ہے اس باغیچے میں اس نے بہت سارے خوشبودار پھول پیدا کیے تاکہ وہ پھول بہتر نشوونما پا کر اس باغیچے کی خوبصورتی میں اضافہ کریں اور نوازائیدہ پھولوں کو اچھی تربیت ملی کھانے اور پہننے کو بھی اچھا ملا مگر جب یہ پھول اپنے جوبن پر آئے تو چاہیے یہ تھا اپنی خوبصورتی کے ساتھ خوشبو سے اس گلشن کو مہکاتے مگر ان پھولوں نے صرف اپنی خوبصورتی ہی دکھائی یہ جا وہ جا اور خوشبو کی جگہ اپنی حوس کی آگ سے اس گلشن کو ہی جھلسا دیا جس کے نتیجے میں یہ گلشن پھولوں کی خوشبو کی بجائے ان کی حوس کی آگ سے جھلس چکا ہے آج والدین اپنے لخت جگر کے ٹکڑوں کو بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کوئی جگر کے ٹکڑوں کو دووقت کی روٹی مہیا کرنے کیلئے اپنے اعضائے رئیسا بیچ رہے ہیں اور انتہایہ ہے کہ باپ سے بچے کھانا مانگتے ہیں اور وہ کہتا ہے یہ مشروب پی لو دوبارہ کبھی بھوک نہیں لگے لگی ۔کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ وہ باپ کتنا مجبور ہو گا ،’’خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کتا بھی دریائے فرات کے کنارے پیاس سے مر گیا تو مجھے روز قیامت جواب دینا پڑے گا ‘‘یہ بھی پھول تھے مگر آج کے پھول انگارے بن گئے ہیں ۔

کیا اس گلشن نے ان پھولوں کو اس لیئے پالا پوسا تھا کہ وہ اسے ہی جھلسا دیں ؟ بلکہ یہ لکھنا بجا ہو گا کہ جھلسانے بعد اب اس گلشن کے نوازائیدہ پھولوں کو پید اکرنیوالے پودوں کو ہی جڑ سے اکھاڑنے میں مکمل تگ و دو کر رہے ہیں کتنے نامی گرامی سیاستدان ایسے ہیں جو خود کو اس گلشن کا حصہ باور کرواتے نہیں تھکتے ہیں مگر ان میں خوشبو نام کی کوئی چیز نہیں ہے مسند اقتدار پر بیٹھنے والے یہ پھول اپنی حوس کی آگ میں اس گلشن کو تباہ برباد کرنے میں مصروف ہیں ہر کسی کی خواہش مجھے زیادہ مل جائے حسین نوخیز کونپلوں کو آزادی کے نام پر اپنا غلام بنانا ان کا مشغلہ ہے ’’سامراج نے کہا تھا کہ شراب و شباب دے دو فتح کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گا‘‘آج ہر طرف لاقانونیت ہے ’’ایک وقت تھا زیور و جواہرات سے لدی عورت اکیلی حج کرنے جاتی تھی کسی کی جرت نہیں تھی اُسے چھیڑے ‘‘اور آج گھر میں بیٹھے کوئی محفوظ نہیں ہے نت نئے قوانین بنا بنا کر اس وطن عزیز کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کا عمل جاری و ساری ہے معاملہ ہو غریبوں کے چولہوں کا تو اپوزیشن صرف مگر مچھ کے آنسو روتی ہے ،جب باری آئے اپنے اللوں تللوں کو تو اپوزیشن معہ حکومت غریبوں کے منہ کا نوالہ چھیننا اپنے حقِ نوابی سمجھتے ہیں یہ گلشن جسے دنیا پاکستان کے نام سے جانتی ہے اسے پھولوں نے ہی نوچ ڈالا ہے اور وہ پھول اب انگارے بن گئے ہیں ان پھولوں میں ابدی جھوٹے لیڈر ان ،اینکر پرسنز ،قانون دان ،علماء و ملاں ،لکھاری اور جرنیل اور کیا لکھا جائے قلم شرماتا ہے کہ روز قیامت ہر چیز کو حساب دینا ہے نہ لکھوں تو اُدھر پکڑا جاؤں گا تو کوئی چھڑانے نہیں آئے گا مگر لکھنے پر پکڑا جانااِدھر بھی لازم ہے مگر یقین کامل ہے کہ ساتویں آسمان پر چھڑانے والا تو بیٹھا ہے جن پھولوں کو مسند اقتدار پر بیٹھایا گیا تھا کہ وہ اپنی خوشبو سے گلشن کے چاروں کونوں کو مہکا دیں افسوس کہ انہوں نے اُلٹا اس کو حوس کی آگ سے جھلسا دینا فرض عین سمجھ لیا کراچی اس کی مثال ہے جسکو آپ جھٹلا نہیں سکتے ہیں اپنا گلشن اپنا ہی ہو تا ہے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اغبار سے فنڈنگ لیکر اس کو تباہ کر دیں کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں پر عملدرآمد میں رکاوٹ بن کر عصبیت پھیلائیں ـ’’ہر دفعہ سیلاب سے آدھا کے پی کے ڈوب جاتا ہے ‘‘ اپنا پانی انڈیاء کو بیچ دیا اپنی عزت کو امریکہ کے سامنے پیش کردیا ۔مختلف ٹاک شوز میں بیٹھ کر غیروں کے ایجنڈے پر لیکچر دیں اب یہ پھول انگارے بن چکے ہیں ۔

ان انگارے نماء پھولوں سے اب جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے بیورو کریٹ اس ملک کے اعلیٰ درجے کے پھول ہیں کچھ پھول اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنی خوشبو سے اس گلشن کو حقیقت میں مہکا گئے ’’جیسے شہاب نامہ‘‘ ہائے افسوس کہ ان پھولوں کی اکثریت نے اپنی حوس سے جھلسانے کا کام عروج پر کر دیا ہے اس میں سیاستدان ملوث ہیں فضول کی میٹینگز فضول کے تھنک ٹینک صرف اور صرف پالیسی یہ کہ لوٹ مار کر کے مال بناؤ جتنا بڑا منصوبہ اتنی بڑی کمیشن ،ریلوے ،پی آئی اے ،پاکستان اسٹیم مل اور واپڈا دیگر ادارے مکمل نام لکھنے سے مضمون میں طوالت ہو گی پھر کبھی سہی عقلمندوں کیلئے اشارہ کافی ہے ۔اپنے آفس میں ماتحت افسران کو بٹھا کر لاکھوں کی کڑائیاں اور دیگر لوازمات پر پیسے کا ضیاع کرنے کی بجائے انہیں کام کرنے دیں ،ان کے دفاتر میں عوام ان کی منتظر ہو تی ہے، اخلاقیات کو مدنظر رکھیں کیونکہ معروف لکھاری ’’حسن نثار‘‘بارہا کہہ چکے ہیں اس قوم میں اخلاقیات کی کمی ہے ان انگاروں سے جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے طریقہ کوئی بھی ہو مگر موجودہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ طریقہ اچھا ہونا چاہیے نیب ہی سہی ؟؟۔
mehar sultan mehmood
About the Author: mehar sultan mehmood Read More Articles by mehar sultan mehmood: 9 Articles with 7205 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.