شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ ملنے پر یہ واویلہ کیوں؟

ہم خود جو کرتے رہے جو لیتے رہیں جو کہتے رہیں ٹھیک ہوتا ہے اگر دوسرا کرے، کہے تو غلط۔ ایسا کیوں ہے ہمارے نظریہ اور عمل میں فرق، قول و فعل میں تضاد، ظاہر و باطن میں اختلاف کیوں ہے

ملالہ اینڈ شرمین

شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ ملنے پر بھی اسی طرح تنقید کے نشتر چلائے گئے جس طرح ملالہ کو نوبل پرائز ملنے پر شور مچا یا گیا اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ شرمین نے جس فلم پر ایوارڈ حاصل کیا اس میں اُس نے ایک لڑکی پر ظلم و تشدد کی کہانی کو بیان کیا۔ اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ اسلام اور خاص کر پاکستان کے منفی پہلو دنیا کو دکھانے کی وجہ سے دیا گیا۔ اسی طرح ملالہ کو نوبل انعام ملنے پر کہا گیا کہ طالبان کی مخا لفت کرنے پر اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہ دینے پر اور پاکستان کے خلاف جاسوسی کرنے کہ وجہ سے ملالہ کو نوبل انعام دیا گیا۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں اور اگر اس میں حقیقت ہے بھی تو اس میں دینے والوں کا یا لینے والوں کا کیا قصور؟ ہر ملک، ہر قوم اور ہر انسان کا اپنا اپنا شعور، اپنی اپنی سوچ، اپنا اپنا مفاد اور اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جن کو مدِنظر رکھ کر وہ کوئی فیصلہ کرتا ہے، کوئی قدم اٹھاتا ہے، کوئی کام سر انجام دیتا ہے اور کوئی خطرہ مول لیتا ہے۔

ہم مسلمان بھی کتنے سادہ اور معصوم بنتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ کوئی غیر مسلم اپنے ایوارڈ بھی اسلام کی ترویج اور ترقی کے لئے مختص کرے۔ آسکر اور نوبل پرائز کے بانی یا اس کو جاری و ساری رکھنے والے کوئی مسلمان نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے اس کو اسلام کی خدمت کرنے اور اسلام کے روشن پہلو کو اجاگر کرنے والے کو دینے کا منشور بنایا تھا ان کے مقاصد اور ان کے ٹارگٹ مذہب سے ہٹ کر ہی تھے۔ ظاہر ہے کہ کوئی غیر مسلم اس بات پر کسی کو ایوارڈ نہیں دے گا کہ اس نے اسلام کو ترقی دی ہے اور اس کے مذہب کے منفی پہلو پیش کئے ہیں بلکہ اس کی کوشش ہوگی ایک تو اپنی بنیادی مقصد اور منشور کو مد نظر رکھے اور دوسرا ان کے مذہب کے مقابل میں آنے والے مذہب کا کوئی منفی پہلو سامنے آئے تا کہ اس کے مذہب کو زیادہ ترقی ملے۔
اگر مسلمانوں کو ان پر اعتراض ہے تو غیرت ملی کو تقاضا تو یہ ہے کہ ان پر تنقید کرنے کی بجائے مسلمان خود ہی ایسے ایوارڈ جاری کریں جو ان کا مقابلہ کر سکیں مثلا کسی مرد یا عورت خاص کر عورت کو اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے اور سال بھر اپنی تمام مجبوریوں اور پابندیوں کے باوجود اپنے تمام امور اس طرح سر انجام دینے کا اعزاز حاصل کیا کہ اس کو شرم و حیا کا پیکر قرار دیا جاسکے تو اس کے لئے شرم و حیاء پر ایک ایوارڈ ’’ عثمان ایوارڈ ‘‘ کیونکہ حضرت عثمانؓ کے بارے مشہور ہے کہ فرشتے بھی ان سے حیا کرتے تھے کیونکہ وہ بہت زیادہ باحیا اور شرم والے تھے ، اسی طرح اپنی زندگی میں تکالیف ، رکاوٹوں اور مسائل کے باوجود اپنی زندگی کے تمام امور اور فرائض بغیر کسی ڈر اور خوف کے بے باکی اور بے خوفی سے ادا کئے تو اس کے لئے بہادری پر ’’ علی ایوارڈ ‘‘ یا ’’ حیدر ایوارڈ ‘‘ دیا جائے کیونکہ حضرت علیؓ کی بہادری اور جرات کی وجہ سے انہیں حیدر کہا جاتا ہے، اسی طرح اگر کوئی جج اپنے فرائض عدل و انصاف کے تمام اصولوں کو مدنظر رکھ کر اور تمام خوف ، ڈر، دھمکیوں اور لالچ کو پس پشت ڈالتے ہوئے سر انجام دیاتا ہے تو اس کے لئے ’’ فاروق ایوارڈ ‘‘ ہونا چاہیے کیونکہ حضرت فاروقؓ کا انصاف سب تسلیم کرتے ہیں اور اسلام کی خدمت اور سچائی پر ’’ صدیق ایوارڈ ‘‘ وغیرہ وغیرہ جاری کریں-
kashif imran
About the Author: kashif imran Read More Articles by kashif imran: 122 Articles with 156705 views I live in Piplan District Miawnali... View More