کے ایچ خورشید مرحوم

11مارچ تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن اور ایک مایہ ناز کشمیری رہنماء خورشید حسن خورشید کا یوم وفات ہے۔ کے ایچ خورشید کے بارے میں خود قائد اعظم اور بانی پاکستان نے فرمایا کہ پاکستان کو انھوں نے، ان کے سیکریٹری(کے ایچ خورشید) اور ان کے ٹائپ رائٹر نے بنایا۔ یعنی کے ایچ خورشید مرحوم اور ان کے ٹائپ رائٹر کا کردار انتہائی اہم تھا کہ قائد اعظم نے اس سے خود دنیا کو آگاہ کیا تا کہ ریکارڈ درست رہے۔ورنہ آج خود کو بڑا لیڈر سمجھنے والے بھی کریڈٹ کے معاملے میں انتہائی کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ دوسروں کو کریڈٹ دینے کے بجائے ان کی کارکردگی کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال کر زرا بھر شرم محسوس نہیں کرتے۔ یہی لوگ اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرنا کجا ، انہیں دوسروں کے کھاتے میں ڈالنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور خود بال بال بچ جانے کی کوشش ہی نہیں ،سازش بھی کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔

کے ایچ خورشید کو آج یاد نہ کرنا یا انہیں خراج عقیدت پیش نہ کرنا تاریخ سے بددیانتی ہو گی ۔ کیوں کہ ان کی خدمات کشمیریوں کے لئے ہی نہیں بلکہ اس خطے کے مسلمانوں کے لئے چراغ راہ تھیں۔ کروڑوں مسلمانوں میں سے قائد اعظم کی نظر اس ہونہار نوجوان پر ہی کیوں پڑیں۔ یہ معمولی بات نہیں۔

آپ کے والد محترم کا تعلق جموں اور والدہ کا سرینگر سے بتایا جاتا ہے۔ والد گرامی استاد تھے۔ ابتدائی تعلیم وادی اور گلگت میں حاصل کی۔ پھرسرینگر ایس پی کالج میں زیر تعلیم رہے۔ وہ طلباء سیاست میں کافی سرگرم تھے۔ بعد ازاں برصغیر کی پہلی مسلم پریس ایجنسی ’’اورینٹ پریس آف انڈیا لمیٹڈ‘‘ (او پی آئی)کے کشمیر میں نمائیندہ مقرر ہوئے۔اس کی شاخیں کلکتہ، پٹنہ، لکھنوء اور لاہور میں بھی تھیں۔ اس طرح انھوں نے قومی آزاد صحافت میں قدم رکھا۔ یہ ایجنسی انوسٹی گیشن میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔ جب ہندوستان ٹائمز نے بنگال کے وزیراعظم جناب اے کے فضل الحق کا ایک فرضی بیان مئی 1941کو قائد اعظم کے بارے میں شائع کیا۔ تو اورینٹ کی کلکتہ شاخ نے انوسٹی گیشن کی۔ تو اس ایجنسی نے فضل الحق مرحوم کا درست بیان شائع کر کے دونوں مسلم رہنماؤں میں غلط فہمیوں کو دور کر دیا۔

قائد اعظم جب اپنے پہلے وادی کے دورہ پر سرینگر آئے تو کے ایچ خورشید نے ہی ان کے دورہ کی رپورٹنگ کی۔ قائد اعظم کا انٹرویو لیا۔ قائد کو اس نوجوان میں قابلیت کے جوہر دکھائی دیئے۔ پھر مختلف مواقع پر ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک بار قائد اعظم نے مسلم لیگ کا پرچم کے ایچ خورشید کو دے دیا اور کہا کہ یہ آپ کا پرچم ہے، اسے تھام لیں۔

کے ایچ خورشید مرحوم کو قائد اعظم نے اپنا سیکریٹری مقرر کرنے کی پیشکش کی۔ وہ ان کی قابلیت کے معترف ہو گئے تھے۔ قائد کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے انہیں اپنا بیٹا سمجھا۔ بیرسٹری بھی محترمہ نے کرائی۔ قائد نے ہی آپ کو سرینگر میں مہاراجہ ہری سنگھ ار دیگر سیاسی لیڈر شپ سے ملاقاتوں کے اپنی ایلچی کے طور پر بھیجا۔ وہ قائد کے معتمد خاص تھے۔ اس لئے ان پر قائد اور ان کی ہمشیرہ مکمل اعتماد کرتے تھے۔ کے ایچ خورشید نے یہ ثابت کیا کہ کشمیری دنیا کی ایک بااعتماد اور قابل بھروسہ قوم ہے ۔جو اپنے معتمد کے ہر راز اور ہر بات کو امانت سمجھتے ہیں ۔ اس میں کبھی خیانت نہیں کی گئی۔ الا ماشاء اﷲ۔ جس طرح کے ایچ خورشید نے قائد کا مرتے دم تک ساتھ نبھایا، ایسا کوئی دوسرا ہر گز نہ کر سکتا تھا۔

پاکستان قائد اور ایک کشمیری نے مل کر قائم کیا۔ یہ سچ ہر کسی کے مدنظر ہو گا۔ اس لئے کوئی بھی کشمیری اس پر فخر کر سکتا ہے۔ ہر کوئی کے ایچ خورشید پر فخر کرے گا۔ کہ انھوں نے اس قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔اپنے زاتی مفاد یا مراعات کے لئے ضمیر کا سودا نہ کیا۔ قوم کا استحصال نہ ہونے دیا۔ اپنے نفس کی غلامی نہ کی۔ آزاد کشمیر کے پہلے صدر بنے لیکن سادگی کی زندگی گزارنے سے باز نہ آئے۔

قائداعظم ، بانی پاکستان، گورنر جنرل کا سکریٹری، آزاد کشمیر کا پہلا صدر، فاطمہ جناح کا منہ بولا بیٹا کے ایچ خورشید ایک مسافر گاڑی میں سفر کرتا رہا۔ کرایہ کے مکان میں عمر گزار دی۔ کوئی جائیداد، کوٹھیاں، پلاٹ، مربے، فارم ہاؤس ، بینک بیلنس نہ تھا۔ یہاں تک کہ جب وفات پائی تو اس وقت بھی ایک مسافر بس میں سفر کر رہے تھے۔ جس کو حادثہ پیش آیا۔ وہیں وفات پائی۔ جس خاکی دفن کرنے کے لئے مظفر آباد لایا گیا۔ آج وہ اسی شہر میں آسودہ خاک ہیں۔ وفات کے وقت آپ کی جیب سے بتایاجاتا ہے ، 37روپے اور کچھ پیسے تھے۔ یہی ان کا کل اثاثہ تھا۔ بیگم ثریا خورشید لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔ انہیں فخر ہے کہ وہ ایک عظم شخصیت کی شریک حیات رہیں۔ ایسی شخصیت جو پا ک و صاف اور بے داغ رہی۔ کرپشن، دھوکہ، فراڈ، جھوٹ، مکاری، عیاری جیسی زلالتوں سے پاک۔ ان کی سیاست اور حکمرانی خدمت خلق پر مبنی تھی۔ اس کا تقابلہ آج کی سیاست اور طرز حکمرانی سے کر لیں۔ بالکل الٹ نطر آتا ہے۔ آج کے حکمرانوں کا تکبر اور غرور، ان کا ٹھاٹ باٹھ، کروفر، فلیگ والی بڑی گاڑی،ہوٹرز، کوٹھیاں ، محلات، بینک بیلنس ، یہ بی ایمانی خیانت چیخ چیخ کر بیان کرتی ہے کہ یہ سب کے ایچ خورشید کت جانشین نہیں۔ یہ فرعونوں کے جانشین ہیں۔ جنھیں لوگ آج بھی اور ان کے مرنے کے بعد بھی حقار ت اور نفرت سے یاد کریں گے۔ مگر کے ایچ خورشید جیسے لوگوں کو دنیا اچھے نام سے یاد رکھے گی۔ ایسے لوگ تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔ اﷲ پاک آپ کی تمام بشری خطائیں معاف فرمائے اور آپ کو جنت الفردوس نصیب کرے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 556991 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More