مملکت اسلامیہ السعودیہ العربیہ اور بعد
میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے یہ اعلان کہ وہ داعش کی سرکوبی کے لیے شام
میں اپنے ground troopsکو بھیجیں گے ۔میں ان کے اس فیصلے پر کسی حد تک
اتفاق نہیں کرتا کیونکہ یہ تو وہی بات ہے جو میں گذشتہ نو ماہ سے کہہ رہا
ہوں کہ ’’ داعش ایک بہانہ ہے شام ٹھکانہ ہے اور مملکت اسلامیہ سعودیہ عربیہ
یعنی الحرمین شریفین نشانہ ہے ‘‘ ۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کہیں داعش کی
آڑ میں سعودی عرب کو شام میں درپردہ گھیرنے کی بین الاقوامی سازش تو نہیں
ہو رہی ۔
راقم کی رائے میں سعودی عرب کو اپنے اس فیصلے پر اس تناظر میں نظر ثانی
کرنی چاہیے جب ماضی قریب میں پہلے روس اور پھر امریکہ اپنے اتحادیوں کو لے
کردنیا کی بہترین تربیت یافتہ فورسز ، جدید ترین ٹیکنالوجی اور انتہائی
مہلک اسلحہ سمیت افغانستان میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی عسکری مداخلت کر
بیٹھے ۔ جبکہ اس سے قبل امریکہ (بہادر )ویت نام میں بھی فوجی مداخلت کی
بھیانک غلطی کا مزہ چکھ چکا تھا ۔ ان تمام فوجی مداخلتوں کا کیا نتیجہ نکلا
؟ دنیا نے دیکھا کہ اگر ایک جانب ویت نام اور افغانستان سے روسی اور امریکی
فورسز کے اہلکاروں کے تابوتوں کے تابوت ماسکو ، واشنگٹن اور نیویارک پہنچ
رہے تھے تو دوسری جانب بھاری فوجی اخراجات کی وجہ سے دونوں ملکوں میں معاشی
بحران نے شدت اختیار کر لی ۔ جس کی بناء پر وہاں کی رائے عامہ اپنی اپنی
حکومتوں کے خلاف ہوگئی ۔
لیکن اس دوران میں روس اور امریکہ نے اپنے گماشتوں کی مدد سے پاکستان کے
خلاف تاریخ کی بدترین proxy war شروع کر دی بلکہ میرے خیال میں یہ proxy
war ہنوز جاری ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان کی سول اور ملڑی قیادت نے انتہائی
صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام تر بیرنی اور اندرونی دباؤ کو برداشت
کرتے ہوئے کوئی ایسا جذباتی قدم نہیں اٹھا یا جس سے روس یا پھر امریکہ کے
گھناؤنے عزائم پورے ہو سکیں ۔ بلکہ ہر proxy warکو ان کاؤنٹر کرتے ہوئے روس
اور امریکی اتحادیوں کو افغانستان سے ذلت آمیز طریقے سے بھاگ جانے پر مجبور
کر دیا ۔
آج بھارت بھی اسی المیہ سے گذر رہا ہے کیونکہ بھارت نے اپنی آدھی سے زیادہ
فوج کو نہتے اور بے بس کشمیری مسلمانوں کو کچلنے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ
کو مٹانے کے لیے کشمیر میں داخل تو کر دی ہے لیکن اب اس کے پاس بھی واپسی
کا راستہ مکمل طورپر بند ہوچکا ہے ۔ اگر وہ اپنی فوج کو کشمیر سے واپس
بلاتا ہے تو بھارت کو ٹکڑوں میں تقسیم ہونے میں ہفتے نہیں بلکہ دن لگیں گے
۔ راقم کی رائے میں بھارت کی تقسیم اب نوشتہ ء دیوار بن چکی ہے جس کو دنیا
کی کوئی طاغوتی طاقت نہیں روک سکتی۔ اپنی اس شدید ڈپریشن کو رفع کرنے کے
لیے اور عوامی غیظ وغضب سے بچنے کے لیے اگر ایک جانب اپنے پیش رو یعنی روس
اور امریکہ کی طرح پاکستان کے خلاف شدید proxy warشروع کروا رکھی ہے تو
دوسری جانب BJP کے انتہا پسندوں کو رام کرنے کے لیے پاکستان مخالف نعروں سے
بھی ان کا دل بہلا یا جا رہا ہے ۔
راقم کی رائے میں سعودیہ کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس وقت انتہا پسند باغی
حوثیوں کا فتنہ سعودیہ کی سرحدوں پر پوری شدت کے ساتھ متحرک ہے ۔ جس کی وجہ
سے سعودیہ پچھلے دس ماہ سے حالتِ جنگ میں ہے ۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ
کہیں دشمن، یمن ایشو سے توجہ ہٹانے اور سعودیہ میں شدید عدم استحکام پیدا
کرنے کے لیے سعودیہ کو داعش کے بہانے شام میں مکمل طور پر پھانسنے کی ناپاک
سازش تو نہیں کررہا ہے ۔اس کی بجائے سعودیہ حکومت، امریکہ اور اس کے
اتحادیوں پر زور دے کہ وہ خود اپنے زمینی فوجی دستے شام میں اتارے کیونکہ
یہ ثابت ہو چکا ہے کہ داعش کے فتنے کا ماسٹر مائنڈ کوئی اور نہیں بلکہ خود
امریکی ہیں جو راقم اپنے گذشتہ کالم میں تفصیلاََ بیان کر چکا ہے ۔ نیٹو کے
سیکرٹری جنرل ہینس اسٹولٹن برگ نے برسلز میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا
کہ’’ NATO،داعش مخالف حصہ ضرور ہے لیکن اس کے فوجی داعش کے خلاف جنگ میں
ہرگز حصہ نہیں لیں گے ‘‘۔اسی طرح نومبر 2015کو ترکی کے شہر اناطولیہ میں
G20کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر اوباما نے شام میں داعش کے خلاف
اپنی زمینی فوج بھیجنے سے انکار کیا اور کہا کہ ایسا کرنا غلطی ہو گی ۔ اور
تو اور دنیا نیوز کی نومبر 2015کی خبر کے مطابق فرانسیسی وزیرخارجہ لوراں
فابیوس نے فرانس کے ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ داعش کا مقابلہ کرنے کے
دو طریقے ہیں ( ۱ ) فضائی حملے اور ( ۲ ) زمینی کاروائی ۔ زمینی کاروائی
میں اپوزیشن پر مشتمل FSAاور عرب سنی افواج شامل ہوں گی یقیناََ ہماری فوج
شامل نہیں ہو گی ۔
داعش کے حوالے سے ہیلری کلنٹن کا اعتراف جرم اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل ،
فرانسیسی وزیر خارجہ و امریکی صدر اوباما کے ان بیانات کا قرآن کی اس آیت
کے تناظر میں ضرور جائزہ لینا چاہیے جس میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا
’’ اے ایمان والو : اپنوں کے سوا کسی کو بھیدی نہ بناؤ کہ وہ ( دشمنان
اسلام ) تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کرتے ، جو چیز تمہیں تکلیف
دے وہ انہیں پسند آتی ہے۔ دشمنی ان کے مونہوں سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان
کے سینوں میں مخفی ہے وہ اس سے بڑھ کر ہے ۔ ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان
کر دی ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو ‘‘ ۔( العمران ۱۱۷) راقم کی رائے میں اگر
امت مسلمہ کا ہر حلقہ اور ہر شعبہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان پر پورے
خلوص کے ساتھ عمل کرے تو دنوں میں ناسور کی طرح پھیلی ہوئی دہشت گردی اور
تکفیریت کے عفریت کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔
اس دور میں کسی بھی ملک کا بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا تقریباََ ناممکن ہے ۔
جبکہ دشمن پہلے ہی سعودیہ کے اندر نفوذ کر چکا ہے ۔ سعودیہ کو یہ بھی
سمجھنا چاہیے کہ جب روس اور امریکہ نے افغانستان میں ننگی جارحیت کی صورت
میں یلغار کی تب ہر دور کی حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو ایک خاص عرصہ
کے لیے سائیڈ پر کر دیا کیونکہ افغانستان میں روس اور امریکہ کی شکل میں
ہولناک خطرہ موجود تھا ۔ اسی طرح میری رائے میں سعودیہ کے لیے بڑا خطرہ شام
کی بجائے یمن میں ہے ۔ اور سعودیہ کو اس وقت اسی حکمت عملی سے کام لینا
چاہیے جو پاکستان نے روس اور امریکہ کو ایک عبرت ناک شکست دینے کے لیے
اپنائی تھی ۔ کیونکہ ماضی کی نسبت اب کھلی جنگ کی بجائے proxy warکے ذریعے
ملکوں کو ختم کیا جاتا ہے ۔
درحقیقت ایران شام میں اپنے مسلح گروپوں کے ساتھ ساتھ اپنی فوج کو بھیج کر
سب سے بڑی عسکری strategic غلطی کر بیٹھا ہے جس کی بناء پر وہ بری طرح شام
میں پھنس چکا ہے ۔ اگر وہ شام سے فوج بلاتا ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اس
کو یمن ، عراق ،لبنان اور بحرین سے proxy war کو لپیٹ کر تہران تک محدود
کرنی ہو گی ۔ جو خطے میں ایران کے لیے یقیناََ ایک یقینی شکست کے مترادف ہو
گا ۔ اس لیے یہ ایران کے لیے ناممکن ہے کہ وہ شام سے اپنی فوج کو واپس
بلائے بے شک اس کے لیے اس کو اپنے فوجی اہلکاروں کے آئے روز تابوت وصول
کرنا پڑیں ۔
جہاں تک ایرانی پاسداران انقلاب کے چیف علی جعفری اور لبنانی شیعہ حزب اﷲ
کے ان بیانات کا تعلق ہے کہ’’ سعودیہ کے پاس نہ ہمت ہے اور نہ ہی صلاحیت،
سعودی فوج شام آئی تو ان کے لیے جہنم کے دروازے کھول دینگے ‘‘ ۔ میں سمجھتا
ہوں کہ یہ بیانات سعودیہ کی حکومت اور اس کی عسکری قیادت کو اشتعال دلانے
کے لیے دیے جارہے ہیں تاکہ سعودیہ ان کے ٹرانس میں آکر شام میں فوجی کشی کی
بھیانک غلطی کربیٹھے۔ جس طرح پچھلے سال کبھی بیروت ، کبھی صنعا ، کبھی
بغداد اور کبھی دمشق کو ایرانی حکومت کا حصہ قرار دے کر علاقے میں لسانیت
کے فتنے کو بھڑکایا گیا ۔یعنی ان بیانات کی آڑ میں عربوں کی انا اور جذبات
سے گھناؤنا کھیل کھیلا گیا ۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران
سعودیہ کے خلاف proxy and psychological war لڑ رہا ہے ۔ سعودیہ کو یہ
سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ایران کے ان اشتعال انگیز بیانات کے پیچھے
کیا خفیہ عزائم ہیں ؟
میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اور ناجائز صہیونی نسل پرست ریاست اسرائیل کی طرح
ایران کی بھی یہ خواہش ہے کہ جس طرح ایران شام میں فوج بھیج کر بری طرح
پھنس چکا ہے اسی طرح ایک دفعہ سعودی عرب داعش کے بہانے شام میں فوج اتارے ۔
میری رائے میں اگر ایک دفعہ سعودع عرب ، شام میں فوج لایا تو اس کے لیے
ایران کی طرح واپسی کا راستہ بند ہوجائے گا ۔ اسی لیے تو میں بار بار کہہ
رہا ہوں کہ ’’ داعش ایک بہانہ ہے شام ٹھکانہ ہے اور مملکت اسلامیہ سعودیہ
عربیہ یعنی الحرمین شریفین نشانہ ہے ‘‘ ۔
یہ تجزیاتی کالم تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ 12 فروری 2016کو روزنامہ ’’ نئی
بات ‘‘ میں شائع ہوچکا ہے ۔ |