وجے مالیا: سایۂ ہما میں ادائے خسروانہ

جس شخص پر ہزاروں کروڑ روپے کا قرض تھا وہ خفیہ ایجنسی، حکمراں جماعت اور ملک کے وزیر اعظم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ملک چھوڑ کر فرار ہوگیا ـ یہ معجزہ اور خرق عادت مسئلہ ملکی سطح کا نایاب واقعہ ہے اور ہو بھی کیسے نہیں کہ جہاں ان کارپوریٹ طبقہ کی مکمل رعایت کی جاتی ہوـ گذشتہ دو سالوں سے ڈیفالٹر قرار دیے جانے والے کو کیسے موقع ملا کہ وہ چمپت ہوگیا یقیناً یہ سوال ہر ایک ہندوستانی کے دماغ میں گونج رہا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس ضمن میں ہمیں درج ذیل نکات پر غور کرنا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ یہی امور کارفرما تھے کہ جس کے باعث مالیا کیلئے فرار کی راہیں آسان تر ہوگئیں(1) وزارت داخلہ کی عنایات اور لغو کارِ تعشق (2) آر بی آئی گورنر رگھو رام راجن نے ان کی 60 ویں یوم پیدائش پر ہونے والے کثیر اخراجات کے متعلق کہا تھا کہ ایک ڈیفالٹر شخص کو اتنی دولت خرچ نہیں کرنا چاہیے، اشاروں ہی اشاروں میں کہہ تو دیا لیکن اس پر مضبوط نکیل ڈالنے میں قاصر رہے (3) کچھ روز قبل ایک دوسری کمپنی سے 515 کروڑ سے ڈیل کے موقعہ پر وجےمالیا نے یہ کہا تھا اب مزید وقت لندن میں گذارنا چاہتا ہے تاکہ اپنے اہل و عیال کے درمیان رہ سکے تو بھلا کیوں نہیں حکومت متحرک ہوئی؟ ( 4) اٹارنی جنرل موکل روہتگی نے سپریم کورٹ میں بتایا کہ وجے مالیا ملک میں نہیں ہیں تو اس کا جواب اس کے پاس کیوں نہیں ہے کہ وہ کہاں گئے جبکہ حکومت کو یہ بھی اطلاع تھی کہ وجے مالیا اب لندن منتقلی کا پروگرام بنا رہے ہیں ـ ان مذکورہ بالا شقوں کے تحت تفکرات کے نتائج جسے ملزم قرار دے رہے ہیں اسے سبھی جانتے ہیں کہ کون ہے ـ بنکوں سے قرض کے متعلق ماہرین بتاتے ہیں کہ مفاد پرستانہ عزائم کے تحت انھیں گرفتار نہیں کیا جاسکا جب کہ مرکزی حکومت اور ایجنسیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انھیں فرار سے روکا جائے، لیکن ایسا نہ ہوسکا ـ

ہندوستان جسے ہم طوعا و کرہا ایک جمہوری ملک کہتے ہیں یہاں کی ہورہا ہے یہ لمحہ فکریہ ہے ـ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی، بے گناہوں کی بیجا گرفتاریاں، کسان کے زخموں پر نمک پاشی اور ان کی فریب خوردگی کا تناسب بڑھتا ہی جا رہا ہے جو کسی بھی طرح سے جمہوری آئین کے موافق نہیں ہےـ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ جب ایک حکمراں طبقہ اپنے فرائض منصبی سے آنکھیں موند لے، تاجروں کو مکمل مراعات و تحفظ کرے، غریبوں کی گاڑھی کمائی ورلڈ چمپئن تاجروں کو دے اور وہ قرض لیکر فرار ہوجائے، کسان جہاں غربت اور قرض سے تنگ ہوکر خودکشی کرلے اور ان کا قرض بھی معاف نہ کیا جائے تو بھلا اس ملک کے خوفناک مستقبل کی یہی تصویر ہوسکتی ہے کہ کارپوریٹ طبقہ رقص و سرود کی محفل آرائی اور عیش کرے اور بیچارہ کسان سسک سسک اپنی زندگی ہلاکت کی نذر کردے، ستم تو یہ ہے کہ بھاجپا کے پیش کردہ دونوں عام بجٹ سے یہی مترشح ھوا کہ کسانوں کیلئے کچھ بھی نہیں ہے جبکہ تمام رعایتیں کارپوریٹ طبقہ کے لئے مختص ہیں!
عام بجٹ 2016 میں وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 2022 میں ہر کسان کی آمدنی دوگنی ہوجائے گی بھلا یہ تو طے ہو کہ کسان ماہانہ کماتا کتنا ہے؟ بینکوں سے قرض لیکر کاشت کاری کی پھر اس عفریت کو کو کتنی رقم واپس کی ـ حالیہ ایک سروے میں جس الم انگیز امر کا خلاصہ ہوا وہ یہ کہ ایک کسان ماہانہ 1663 روپے ہی کماتا ہے اب اس کی جمع تفریق کریں تو سالانہ صرف 20.000 ہی ہوتے ہیں تو اس سے ظاہر یہ ہوا کہ وہ چالیس ہزار سالانہ کمائیں گے اب کسان ہی بتلائیں گے کہ وہ محض بیس ہزار میں سال بھر کس طرح گزربسر کرلیتے ہیں یا پھر بینکوں سے قرض لینا پڑتا ہے یقینا قرض لینا ہی پڑتا ہوگا اور پھر جب قرض کی ادائیگی مع شرح سود کے ہوتی ہے تو ان کے پاس کیا بچ جاتا ہے ـ ہمیں اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا ہوگا اور لازماً دوسرے ساہوکاروں سے مزید قرض لیتے ہونگے نتیجتاً قرض اور اس کی ادائیگی کی عدم صورت کے باعث ذہنی تناؤ میں آکر ایک بڑی تعداد موت کو گلے سے لگالیتی ہے؛ کیونکہ وجے مالیا جیسے تاجر تو ہیں نہیں کہ مراعات کیساتھ سرکاری تحفظات بھی فراہم ہوں نیز یہ بھی نہیں ہے کہ بیرون ملک جائیداد ہے جہاں منتقل ہوجایا جائے مجبوراً اس صورت میں موت کو گلے لگانا ہی سودمند ثابت ہوتا ہے ـ آئیے اس سروے کو بھی دیکھیں صرف 2014 میں 5642 کسانوں کی خود کشی کی مہاراشٹر میں 2001 تا 2015 تک 20.504 کسانوں نے خودکشی کی، مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ میں ہی 2015 میں 1100 کسانوں نے خودکشی کی نیز اسی سال جنوری میں 140 کسانوں نے خود کشی کی ـ عموماً اس کی وجوہ قرض کی عدم ادائیگی ہےـ یہ اعداد و شمار کسی ٹیسٹ کرکٹ میچ میں اسکور کیے رن کی نہیں ہے؛ بلکہ کسانوں کی خود کشی کا تناسب اور فیصدی ہے جو ایک ملک کے لیے نہایت ہی تباہ کن اور حوصلہ شکن ہے ـ اس کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی کسانوں کی خودکشی کا تناسب بڑھا ہوا ہے ـ الغرض ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ کہنا آسان ہے کہ موجودہ سرکار کی پالیسیاں کسان کے مخالف ہیں ـ آخر جب کسان اتنی قابل رحم صورتحال میں ہونگے تو بھلا اشیاء خوردنی کی قحط سالی نہ ہوگی؟ جس نے ایفائے عہد کا وعدہ کیا وہ فریب، دھوکہ اور دجل ثابت ہوا اور یہ بھی قابل توجہ امر ہے کہ کیا کبھی "جملہ" بھی درست ہوا ہے؟ یقیناً ان ہی امور کی کارستانی اور ارتعاشِ وجود ہے کہ تاجر برادری خوشحال ہے اس کے بچے اور اہل خانہ خوش و خرم گذران زندگی کر رہے ہیں اور جو ملک کو دو وقت کی روٹی فراہم کرتا ہے سیاسی شعبدے، عدم توجہ، بوالہوسی اور مفاد پرستانہ عزائم کی وجہ سے جاں بلب ہے ان کے اہل خانہ محنت کے باوجود حق المحنت سے محروم ہیں ـ مزید طرہ یہ کہ جتنی بھی مراعات اور پالیسیاں ہیں بداہۃً کسان مخالف ہی ہیں اور پھر ستم یہ کہ انھیں یہ کہہ کر فریب میں ڈالا جا رہا ہے کہ 2022 میں ان کی دوگنی آمدنی ہوجائے گی دوگنی آمدنی کیلئے آئندہ چھ سال کا انتظار کریں ایک کسان 1632 ماہانہ کماتا ہے تو آئندہ چھ برس میں 3264 روپے حاصل کرکے "جشنِ بہاراں " منائیں، یہ سوال مودی حکومت اور وزارت کیلئے بھی چیلنج ہےـ

کسانوں کے ساتھ اس بدترین مذاق کےبعد کارپوریٹ طبقہ کی کفش برداری اور کورنش بجا لانے کی رودادِ ستم کے بعد وجے مالیا جیسے مفرور تاجروں پر حکومتی عنایات مسلسل اور بخشِ لازوال کی ہوشربا داستانیں ملاحظہ فرمائیں، وجے مالیا جس نے مختلف 17 بینکوں سے نوے سو کروڑ روپے قرض لیے اور جس رقم کو آئی پی ایل کی رنگینی، لیڈی چیئرس، اہل خانہ کی عیش کوشی اور اداکاراؤں کے تقریبی سلسلے میں پانی کی طرح اڑا دیتا ہے ـ کنگ فیشر ایر لائنس چونکہ ایک بین الاقوامی کمپنی تھی؛ لہذا اسے قرض دینے میں کوئی تأمل نہ کیا گیا اب جبکہ غیردرست مارکٹینگ اور خسارہ کی وجہ سے کمپنی مقروض ہوگئی تو کچھ رقم واپس کی اور کچھ واپس کی ہی نہیں ـ اعداد وشمار جو بھی ہوں تاہم یہ سرکار کی غفلت، نااہلی اور عنایات ہی ہیں کہ لک آؤٹ نوٹس کے باوجود اور ایک مستعد "چوکیدار" کی موجودگی میں مالیا فرار ہوگیا ـ فرار کی راہیں کیوں آسان تر ہوئیں وجوہات مندرجہ ذیل ہیں: (1) دیفالٹر قرار دیئے جانے کے بعد ان پر مزید شکنجہ کسا جاتا، لیکن مکمل آزادی دی گئی (2) وزارت داخلہ کی طرف سے بروقت مالیا کا پاسپورٹ کیوں نہیں ضبط کیا گیا (3) 60 ویں یوم پیدائش کے موقعہ پر بے تحاشا روپے خرچ کئے گئے اس مبینہ بے دریغ اخراجات کے متعلق کیوں نہیں پوچھ گچھ کی گئی دراں حالیکہ وہ ڈیفالٹر قرار دے دیئے گئے تھے؟ (4) اور بھلا جس کالے دھن کے متعلق ایوان سے سڑکوں تک زلزلہ برپا کردیا جاتا تھا کم از کم اسی "قرض دھن " کیلئے موجودہ حکومت کیوں نہیں ہوشیار ہوسکی؟ اگر اسی قرض دھن کو لے کر سنجیدہ ہوجائے تو کالے دھن سے نہ سہی قرض دھن ہی سے ملک کا کچھ بھلا ہوجائے گا ـ ان امور کے سوا کانگریسی دور میں بھی وجے مالیا کے تعلقات سیاستدانوں سے رہے ہیں، کانگریس جو کل ایوان میں مالیا قضیہ پر چیخ رہی تھی اولا اسی نے پھلنے اور پھولنے کا موقعہ فراہم کیا، نوازشیں اور عنایات کا سلسلہ جاری رکھا حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی اسی حمام میں ننگے کھڑی ہے ـ لہذا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک دوسرےپر الزام تراشی اور تحقیق کے نام پر اس واقعہ کو ملک باسیوں سے بھلا دینے کی خواہش ظاہر ہوتی ہے ـ اس المیہ کو کیا نام دیں کہ ملک کا کسان بدحالی کا شکار ہے اور صنعت کار عیش کوشی میں پڑ کر ملک کے اقتصادی نظام کو ڈھانے کی جرأت پر آمادہ ہےـ ضرورت یہ ہے کہ ان بھگوڑے صنعت کاروں پر نکیل ڈالی جائے ورنہ ملک کا اقتصادی بحران اپنی آمد کا منتظر ہے ـ
Iftikhar Rahmani
About the Author: Iftikhar Rahmani Read More Articles by Iftikhar Rahmani: 35 Articles with 23739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.