افغانستان :بھارتی سازشوں کی آماجگاہ

افغانستان جسے ایشیاء میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اسی خاص اہمیت کی وجہ سے کبھی روس توکبھی امریکہ افغانستان پرقبضہ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہاہے اور امریکہ کی آڑ میں اب بھارت افغانستان میں اپنے پاؤں کسی حد تک مضبوط کرچکاہے۔بھارت افغانستان میں اپنے قونصل خانوں کی آڑ میں دہشت گردی اور سازشوں کے تانے بانے بُنتا رہتاہے ۔جس کی مثال ضرب عضب کے نتیجے میں پکڑے جانے والے دہشت گرد ہیں جن سے بھاری مقدار میں بھارتی کرنسی اور اسلحہ کاملنا ہے ۔جب تک برصغیر پر انگریز کی حکومت رہی ۔ افغانستان انگریزو ں اور روسیوں کے درمیان بفرسٹیٹ کے طور پررہا ۔جیسے ہی انگریز اس علاقے سے گیا تو روس کے لئے میدان صاف ہوگیا ۔ روسی مقصد افغانستان میں اپنی حامی حکومت قائم کرکے بلوچستان کے ذریعے بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرناتھی ۔اس کے لئے روس نے افغانیوں کو وظائف دے دے کر اپنے اداروں میں تعلیم دیناشروع کی تاکہ نئی نسل کو کیمونسٹ بنایاجاسکے۔لیکن یہ سب پایہ تکمیل تک پہنچنے میں افغانیوں کی اسلام سے محبت آڑے تھی ۔ظاہر شاہ لاکھ کوشش کے باوجود روس کے اس مقصد کو کامیاب نہ کرسکا اور شاہ کے عم زاد سردارداؤدخان سے ساز باز کرکے روس نے ظاہرشاہ کو جلاوطن کردیا۔اس کے بعد ایک لمبی سازشوں کی ڈوریاں تھیں جو ہلتی کہیں اور سے تھیں اور ہلنے والے کوئی اور تھے ۔جب روس نے دیکھا کہ اس کے گرم پانیوں تک رسائی اس طرح سے ممکن نہیں تو اس نے افغانستان پر حملہ کردیا۔آٹھ سال تک خونریز گوریلا جنگ میں اپنا اسلحہ اور کثیر پیسہ لگانے کے بعد جینوا معاہدے کے تحت روس افغانستان سے نکل سکا۔

روسی انخلا ء کے بعد وارلارڈز کادورشروع ہوا جس کے بعد ملا عمر کی طالبانی حکومت قائم ہوئی ۔میں اس سے قطع نظر کے افغانی طالبان کیسے تھے اور کیا تھے ۔ صرف ایک صحافی کا ذکر کرنامناسب سمجھتاہوں جو ان کی قید میں تھی اور رہائی کے بعد اس نے اسلام قبول کیا تھا۔’’یوآنے ریڈلی ‘‘ جن کا قبول اسلام کے بعد نام مریم تھا انہوں نے ’In The Hand of Taliban‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی ۔طالبان کے دورحکومت میں افغانیوں کو امن وسکون کا سانس نصیب ہوا ۔اسی اثناء میں نائن الیون کا واقعہ ہوا اور امریکہ بہادرنے بغیرکسی ثبوت کے افغانستان پرحملہ کردیا ۔14سال کا عرصہ گذرجانے کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی نہ توافغانستان پر قبضہ ہی کرسکے اور نہ ہی افغانی طالبان کو ختم کرنے میں کامیاب ہوسکے ۔اب امریکہ اور اس کے اتحادی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں ۔جب امریکہ نے افغانستان پرحملہ کیا تو بھارت کی رال ٹپکنی شروع ہوگئی اور اس نے خاموشی سے افغانستان میں امریکی حمایت سے اپنے قونصل خانے اور ایجنٹس کاکاروبار شروع کردیا ۔تاکہ پاکستان کو دونوں اطراف سے گھیراجاسکے۔پاکستان میں دہشت گردی کی جولہر اب تقریباََ دب چکی ہے ۔ اس دہشت گردی کے پیچھے یہی بھارتی دماغ اور چانکیہ سوچ کارفرماتھی ۔ ایک جانب امریکہ وافغانستان پاکستان پر زور ڈالتے ہیں کہ افغانی طالبان کومذاکرات کیلئے تیار کرے اوردوسری جانب امریکی ائیر سٹرائیک میں اضافہ اورافغانی حکومت کی جانب سے مذاکرات کی آڑمیں طالبان کوگروپوں میں تقسیم کرنے کی سازش کے سبب طالبان نے مذاکرات سے انکارکردیا۔بھارتی مشاورت پرافغان حکومت کی سازشی پالیسیوں اور ضد کے جواب میں طالبان کی طرف سے انکار نے امن کے عمل کے مستقبل پرسوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے ۔پاکستانی حکومت بیک وقت طالبان،افغانی حکومت،امریکی وچینی حکام کے ساتھ بیک ڈور رابطوں میں مصروف عمل ہے ۔چیف آف آرمی سٹاف کا دورہ کابل بھی اسی تناظر میں تھا لیکن بھارتی چانکیہ سازشوں میں گھر ی ہوئی افغانی حکومت اپنی ضد سے پیچھے ہٹتی نظر نہیں آرہی ۔افغانستان نے پاکستان کو 10طالبان راہنماؤں کی فہرست دی ہے اور کہا ہے کہ یہ یا ان کے نمائندے مذاکرات میں طالبان کی نمائندگی کریں گے تو ہم مذاکرات کریں گے بصورت دیگر نہیں ۔افغانی حکومت ان دس لوگوں کو طالبان کے گروہ قراردے رہی ہے۔افغانی حکومت نے دوسری شرط یہ عاید کی ہے کہ افغانستان کی حکومت طالبان کا ہرمطالبہ مانے گی مگر کوئی بھی ایسا مطالبہ نہیں مانا جائے گا جس میں حکومت میں کسی قسم کی تبدیلی کا کہاجائے گا یاعبوری حکومت کا مطالبہ کیاجائیگا۔طالبان ذرائع کے مطابق افغان آرمی چیف بھی کھلے عام مذاکرات کے حوالے سے مختلف شکوک وشبہات کا اظہارکرچکے ہیں اورعبداﷲ عبداﷲ نے فروری کے پہلے ہفتے میں دورہ دہلی کے دوران بھارتیوں کو یقین دلایاتھا کہ طالبان سے مذاکرات اس وقت تک نہیں کیئے جائیں گے جب تک بھارت کو اعتماد میں نہ لیاجائے اور کابل میں بھارتی مفادات کا خیال نہ رکھا جائے ۔پاکستان کا کردارہمیشہ سے ہی افغانستان کے ساتھ مفاہمت والا رہاہے ۔ اب بھی پاکستان جہاں عالمی دباؤکو برداشت کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی طرف لارہاہے وہیں افغانی حکومت کو بھارتی ہتھکنڈوں سے بچانے کی کوششوں میں بھی مصروف عمل ہے ۔

افغانستان میں جہاں امریکی ونیٹو اپنے مفادات کی جنگ افغانیوں سے لڑرہے ہیں وہیں بھارت پاکستانی سرحد کے قریب قونصل خانوں کے پردے میں ٹریننگ سینٹر چلارہاہے جہاں وہ ملت اسلامیہ کے غداروں اور اپنے ایجنٹوں کو ٹریننگ دے کر پاکستان بھیجتارہاہے۔بلوچستان میں ہونے والی بدامنی اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں میں بھارتی قونصل خانوں کا بالواسطہ یابلاواسطہ لازمی تعلق رہاہے۔ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان،بلوچ لبریشن آرمی اور سیاسی گماشتوں کی ٹریننگ کروانے اور انہیں ٹارگٹ دینے اور ان کی مالی معاوت کرنے میں بھارتی قونصل خانے ایک بنیادی حیثیت کے حامل ہیں ۔بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور افغانی خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس ‘ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں ،بی ایل اے ،بلوچ ریپبلکن آرمی اور بی ایل ایف کی ہر طرح سے معاونت کررہی ہے ۔افغانستان میں موجودRAW کے حکام انہیں جعلی دستاویزات کی مددسے بھارت ،متحدہ عرب امارات اوریورپ بھجوانے میں سرگرم رہتے ہیں ۔بلوچ علیحدگی پسند کمانڈرریاض گل بگٹی کو ایک تاجر کے روپ میں بھارت کاویزہ دیاگیا اور ریاض گل بگٹی نے بھارتی خفیہ ایجنسی کے حکام کو درخواست کی تھی کہ بلوچی نوجوانوں کی ٹریننگ کے لئے بلوچی انسٹرکٹر مقرر کئے جائیں تاکہ انہیں آسانی ہو۔اس تجویز کومدنظررکھتے ہوئے ’را‘ نے اپنے اور افغانی خفیہ ایجنسی کے حکام کے بلوچی زبان پرخصوصی کورس بھی کروائے تھے ۔ ’را‘ کاایک مکمل ونگ صرف اورصرف عالمی فورمز پرپاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے اور بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے پر مامور ہے ۔بین الاقوامی این جی اوز کے پردے میں ایجنٹس پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں ۔فروری 2013ء میں کینیڈا میں مقیم ایک سیاسی شخصیت نے پاکستان کے خلاف اپنی نفرت کا خوب اظہار کرکے ثابت کردیا تھا کہ آج بھی ہم غداروں کی کمی نہیں ۔پاکستانی حساس اداروں نے افغانی سرحد پر کراچی دہشت گردی میں ملوث افراد کی ملاقات کے ثبوت بھی حاصل کئے ہیں۔مولوی فضل اﷲ جیسے دہشت گرد بھی ’را‘ کے ہاتھ کاکھلونا ہیں۔بھارت یہ سب کچھ اپنے دیرینہ خواب کے لئے کررہاہے ۔ بھارت کا خواب اکھنڈبھارت صرف اسی صورت میں پورا ہوسکتاہے جب پاکستان رستے سے ہٹ جائے ۔پاکستان کا دنیا کے نقشے پرقائم رہنا اکھنڈبھارت کے لئے ناقابل قبول ہے ۔اس کے لئے بھارت نے جہاں اپنی سرحد سے پاکستانی سرحدوں پر جارحیت کا بازار گرم کئے رکھا وہیں ان کی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے ایجنٹس افغانی مہاجروں کے روپ میں باآسانی پاکستان میں داخل کئے اور خون ریزی کا وہ بازارگرم کیا کہ پاکستانی تلملا اٹھے۔یہ ایک سازش تھی جس میں کسی حد تک امریکی واسرائیلی خفیہ ایجنسیاں بھی شامل تھیں کیونکہ وہ شکست کاداغ اپنے اوپرنہیں لینا چاہتی تھیں۔کلمہ طیبہ کی بنیاد پربننے والا ملک اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے جہاں اسے اندرونی طور پرکمزور کرنے کی دشمن سرتوڑ کوشش کررہاہے وہیں عالمی طاقتیں اس کے خلاف کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں ۔بھارت داعش کو اسلحہ دینے میں ملوث ہے لیکن اس طرف کسی نے انگلی نہیں اٹھائی کہ بھارت کے ایٹمی اثاثے داعش کے ہاتھوں میں جاسکتے ہیں ۔مجھے یاد ہے جب پاکستان میں دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد اور نام نہاد شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا تھا تو پوری دنیا چیخ چیخ کرایٹمی اثاثوں کے متعلق بات کررہی تھی۔آج جب بھارت میں شاید ہی کوئی دن جاتا ہے جب وہاں کے انتہاپسند ہندو کسی اقلیتی مذہب کے ماننے والے اور دلتوں کو اپنے نام نہاد مذہب کی آڑ میں قتل نہ کرتے ہوں اور کوئی علاقہ نہ جلاتے ہوں لیکن مجال ہے کوئی انسانی حقوق کی تنظیم یاپھر اقوام متحدہ اس چیز کا نوٹس لے ،میں یہاں مقبوضہ جموں وکشمیر کاذکرنہیں کررہابلکہ ان علاقوں کاذکرکررہاہوں جو اپنے آپ کو بھارتی کہتے ہیں ۔نہتے اورمعصوم لوگوں پر ظلم کرنا اور یہودیوں کی طرح سازشیں کرنا ہندوؤں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہاہے لیکن جب ان کے سامنے کوئی مجاہد آتاہے تو انہیں پستول تک چلانا بھول جاتا ہے ۔اس لئے ہندواپنے کرتادھرتا یہودیوں کی طرح اندرونی سازشوں پرزیادہ زور دیتے ہیں۔پاکستانی قیادت افغانستان کے اندرونی حالات کو اچھی طرح سمجھتی ہے بس ذرا ہمت سے کام لیتے ہوئے سول قیادت کو فوجی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑا ہوناپڑے گااور ضرب عضب کے بعد ایک ضرب عضب ہندوؤں کی ان سازشوں کے خلاف کرناہوگا جو سرحد پار سے آتی ہیں ۔
Muhammad Atiq Ur Rhman
About the Author: Muhammad Atiq Ur Rhman Read More Articles by Muhammad Atiq Ur Rhman: 72 Articles with 61819 views Master in Islamic Studies... View More