حسین نواز سیاسی باپ کا غیر سیاسی بیٹا ہے
جس نے اپنے دوسرے بھائی حسن کی طرح گھر میں اقتدار کے ہوتے ہوئے بھی خود کو
حکومتی امور سے ہمیشہ بہت دور رکھا ،12اکتوبر1999ء کو مشرف نے قہر ڈھایاتو
شریف فیملی کے ہر فرد پر ایک جیسی مصیبت آئی اور حسین نواز بھی ناکردہ
گناہوں کی پاداش میں 14ماہ کے لئے قید کر دیئے گئے ، آج شریف فیملی جسے
ناقدین شاہی خاندان بھی کہتے ہیں مصائب جھیلتی اور جلاوطنی کی صعوبتیں
برداشت کرنے کے بعد ایک بار پھر اقتدار میں ہے لیکن نواز شریف کے بیٹے حسن
اور حسین حکومتی امور سے بدستور الگ تھلگ ہیں دونوں اپنے اپنے کاروبار کرتے
ہیں اوروالد کی سیاسی وراثت کو سنبھالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ،یہی وجہ
ہے کہ انکی ہمشیرہ مریم نواز شریف کو والد سے سیاست میں آنے کی تاخیرسے ہی
سہی اجازت مل گئی ،نواز شریف کا خاندان مذہبی خاندان مانا جاتا ہے اور اس
خاندان سے بیٹی کا سیاست میں آنا بہت بڑی اور غیر معمولی بات ہے لیکن دونوں
بھائیوں کی جانب سے والد کی سیاست میں ان کا ہاتھ نہ بٹانے کا فیصلہ اس قدر
حتمی تھا کہ شاید اسکے سوا اور کوئی آپشن تھا بھی نہیں،حسین نواز اگلے روز
ایک ٹاک شو میں کھری اور دوٹوک گفتگو کرتے دکھائی دیئے تو اندازہ ہوا کہ
میاں نواز شریف کا یہ بیٹا عملی سیاست سے دور ہونے کے باوجود مکمل سیاسی
سوجھ بوجھ اور شعور رکھتا ہے ،حسین نواز نے نہ صرف عمران خان کی جانب سے
اپنے خاندان پر کی جانے والی تنقید کا جواب دیا بلکہ عمران خان سے بھی کئی
سوالات کئے اور انہیں مناظرے کا چیلنج بھی کیا،انہوں نے الزامات کی بوچھاڑ
کرنے اور 68سال کی خرابیوں کی ذمہ داری صرف نواز شریف پر ڈالنے والے لیڈر
کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ ان کے خاندان کو بنک ڈیفالٹر ثابت کر دیں تو وہ
ہر سزا بھگتنے کو تیار ہیں ،حسین نواز نے اعتماد سے بھرے لہجے میں اپنے اور
اپنے بھائی حسن نواز کے بیرون ملک موجود تمام اثاثوں کی تفصیلات بتائیں اور
کہا کہ انکے تمام اثاثہ جات مکمل طور پر ڈیکلیئرڈ ہیں ،انہوں نے
12اکتوبر99ء کے فوجی اقدام اور اپنی 14ماہ قید کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ
وہ اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتی اور ناانصافی پر پرویز مشرف کو معاف کرتے
ہیں لیکن ملک و قوم کے ساتھ ہونے والی نا انصافی اور نقصان پرقانون اور
ریاست کو مشرف کا ضرور احتساب کرنا چاہئے ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ مشرف
خود اعتراف کرتے رہے کہ انہیں شریف فیملی کے خلاف مالی بدعنوانی کا کوئی
ثبوت نہیں مل سکا اورکرپشن کا ایک بھی ثبوت نہ ہونے پر میرے والد کے خلاف
ایک’’ پھٹیچر ‘‘قسم کا طیارہ سازش کیس بنا دیا گیا، حسین نواز نے اپنے دل
کی بات اس وقت کی ہے جب پاکستانی عدالتوں میں مشرف کے خلاف سنگین غداری
سمیت کئی سنجیدہ نوعیت کے مقدمات زیر سماعت ہیں مگر انکا احتساب ایک مذاق
بنا ہوا ہے ، جنہوں نے کچھ بھی نہیں کیا تھا وہ 14ماہ کی جیل کاٹنے کے بعد
ملک بدر کر دیئے گئے تھے اوروہ شخص جو نوبرس تک ملکی تقدیر سے کھیلتا
رہا،جس نے آئین وقانون کواپنے جوتے کی نوک پر رکھا اور منتخب حکومت کا تختہ
الٹایا،ایمرجنسی کے نام پر ججز کو قید کیا اور چیف جسٹس کو بے توقیر کیا ،اکبر
بگٹی جیسے محب وطن شخص کو للکار کر قتل کرایا، لال مسجد میں خون کی ہولی
کھیلی اور ایک فون کال پر ڈھیر ہو کردہشت گردی کی پرائی آگ کو اپنے گھر میں
لے کر آیا ،میڈیا کی آزادی سلب کی وہ آج اپنے خلاف سنگین مقدمات پر اتراتا
پھر رہا ہے ،جب بھی کوئی عدالت اسے طلب کرتی ہے کسی نہ کسی شفا خانے میں
اسکے ٹیسٹ شروع ہو جاتے ہیں ،مشرف پورے طمطراق کے ساتھ ٹی وی چینلز کو
انٹرویوز بھی دیتا اور سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کرتا ہے ،اس کے اپنے
ہی گھر کو سب جیل قرار دے کر اسے بھرپور سہولت مل جاتی ہے اور اس پر مزید
ستم یہ کہ میڈیا کے کچھ ’’ظالمان‘‘ اگر اسے پاکستان میں آزاد میڈیا کا روح
رواں قرار دیں تو ہمیں کم از کم روناضرور آنا چاہئے،،حسین نواز کے والد
میاں نواز شریف کو تیسری وزارت عظمیٰ ملی تو مشرف کیخلاف وفاق نے’’ سنگین
غداری کیس‘‘ دائر کیا اور سب کچھ قانون پر چھوڑ دیا، 14سال بعد حکومت میں
آنے والے وزیر اعظم کے لئے ہر طرف مسائل کا انبار لگا ہوا تھا ،ملک میں
18,18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے،گلی گلی دھماکے خود کش حملوں اورمنہ
زور مہنگائی نے عوام کو گھیر رکھا تھا ، وزیر اعظم نواز شریف نے مشرف کے
مسئلے کو عدالتوں کے لئے چھوڑ کر خود کو ان مسائل کے ساتھ جنگ میں جھونک
دیا جس کا نتیجہ آج ملک میں دہشتگردی اور لوڈشیڈنگ میں نمایاں کمی کی شکل
میں سامنے ہے ، ان سے پہلے اقتدار کی ہوس میں ایک جرنیل نے سیاست میں
ایجنسیوں کے ذریعے ق لیگی ورادات ڈالی اور سیاست میں خوب گند بھرا،زرداری
کی جمہوریت بھی عوام سے ہی بہترین انتقام ثابت ہوئی لیکن شریف فیملی نے جسے
شاہی خاندان کہہ کر مزا لیا جاتا ہے ملک کی روشنیاں دوسال میں واپس لے آئی
ہے، دہشت گردی میں کمی اورکراچی میں خوف کے سائے ختم ہوئے ہیں پاکستان میں
امن آ رہا ہے اور عوام کی خوشیاں لوٹ رہی ہیں ، اگلے دوسال میں لوڈشیڈنگ کے
مکمل خاتمے سے عوام مزید سکھ کا سانس لیں گے،ملک میں نظام کے تسلسل کے لئے
ضروری ہے کہ جمہوریت دشمن مشرف کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے،مشرف
کے ساتھ خاص سلوک اور نظر کرم نے قانون پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ رکھے ہیں
جن کا جواب تاریخ دان ضرور لکھے گا،مشرف کا قانون کے شکنجے سے بچ نکلنا
تاریخ میں جمہوریت کی ناکامی اوربے بسی سے تعبیر کیا جائے گا ،قانون اور ’’ریاست‘‘
کو سوچنا چاہئے کہ مشرف کو معاف کر دینے والے نواز شریف کے بے گناہ غیر
سیاسی بیٹے حسین نواز کے دل سے نکلنے والی آواز میں کتنا اثراور باتوں میں
کس قدر وزن ہے۔ |