برصغیر کا' ایران سے مختلف حوالوں سے رشتہ'
صدیوں پر محیط ہے۔ برصغیر کے یودھا' ایران کی فوج میں شامل تھے۔ ایک دوسرے
کے ہاں بیٹیاں بیاہی گئیں۔ مختلف شعبوں سے متعلق لوگ' برصغیر میں آئے۔ رشد
و ہدایت کے لیے صالیحین کرام' برصغیر میں تشریف لاتے رہے۔ یہاں کی خواتین
سے ان کی شادیاں ہوئیں اور ان کی نسل یہاں کی ہو کر رہ گئی۔ کچھ کنبہ سمیت
یہاں آئے' ان آنے والوں کی نسل نے بھی' برصغیر کو اپنی مستقل اقامت ٹھہرایا۔
ان تمام امور کے زیر' اثر رسم و رواج' علمی و ادبی اور سماجی روائتوں کا
تبادل ہوا۔ اشیا اور شخصی نام یہاں کی معاشرت کا حصہ بنے۔ اس میں دانستگی
کا عمل دخل نہیں تھا' یہ سب ازخود نادانسہ اور نفسیاتی سطع پر ہوتا رہا۔ یہ
ہی وجہ ہے کہ صدیوں پرانے' تہذیبی اور لسانی اثرات' برصغیر میں واضح طور پر
محسوس کیے جا سکتے۔
یہاں حضرت بوعلی قلندر کے فارسی کلام کا' اردو کے تناظر میں' ناچیز سا
لسانیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے' جس سے یہ کھل جائے گا کہ یہ دونوں زبانیں'
آج بھی ایک دوسرے سے کتنا قریب ہیں۔ آخر میں' تین اردو شعرا کے دو چار
مصرعے' مع جائزہ' اپنے موقف کی وضاحت کے لیے درج کر دیے ہیں۔
اس مطالعے میں کئی صورتیں اختیار کی گئی ہیں' وہ لفظ الگ کیے گیے ہیں' جو
آج بھی اردو والوں کے استعمال میں ہیں۔ کچھ لفظ ایسے الگ کیے گیے ہیں' جو
آوازوں کی ہیر پھیر سے' اردو میں مستعمل ہیں۔ کچھ اشعار باطور نمونہ پیش
کیے گیے ہیں' جن میں محض ایک دو لفظوں کی تبدیلی کی گئی اور اب وہ اردو کا
ذخیرہ ادب خیال کیے جائیں گے۔ میں نے باطور تجربہ کچھ اشعار اردو انجمن پر
رکھے' جناب سرور عالم راز ایسے بڑے
:اردو دان نے' انہیں غیراردو نہیں کہا۔ ان کا کہنا ہے
کاش یہ ترجمہ باوزن بھی ہوتا تو مزا دوبالا ہو جاتا۔ خیر معنی قاری تک
پہنچا دینا بھی بہت .بڑا کام ہے
https://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10160.0
یہ امر' اس بات کا واضح اور زندہ ثبوت ہے' کہ اردو اور فارسی قریب قریب کی
زبانیں ہیں۔ دونوں کی لسانیاتی عمر کا تعین اس سے الگ بات ہے. تاہم حضرت
بوعلی قلندر کے دور تک تو عمر کا تعین ہو ہی جاتا ہے۔
..............
ہست در سینہ ما جلوہ جانانہ ما
بت پرستیم دل ماست صنم خانہ ما
سینہ جلوہ بت دل صنم خانہ
بت پرستیم: بت پرستی
جانانہ: جانان جاناں
اے خضر چشمہ حیوان کہ بران می نازی
بود یک قطرہ ز درتہِ پیمانہ ما
اے خضر چشمہ حیوان یک قطرہ تہِ پیمانہ
بران براں مزید براں
نازی ناز
مثلا کسی خاتون کا فرح ناز نام ہے' یائے مصدری کے اضافے اور لاڈ پیار سے
عرفی نام' نازی بھی سننے کو آتا رہتا ہے' گویا لفظ نازی' اردو والوں کے لیے
نیا نہیں' تہہ میں مفاہیم بھی تقریبا وہ ہی پوشیدہ ہیں۔
جنت و نار پس ماست بصد مرحلہ دور
می شتابد بہ کجا ہمت مردانہ ما
جنت و نار پس بصد مرحلہ دور بہ کجا ہمت مردانہ
شتابد: شتاب شتابی
جنبد از جائے فتد بر سر افلاک برین
بشنود عرش اگر نعرہ مستانہ ما
از جائے بر سر افلاک عرش اگر نعرہ مستانہ
برین: بریں عرش بریں
بشنود شنید گفت و شنید
ہمچو پروانہ بسوزیم و بسازیم بعشق
اگر آں شمع کند جلوہ بکاشانہ ما
پروانہ و اگر شمع جلوہ
بسوزیم: بسوز سوز سوزی
بعشق: بعشق عشق
آں: آنحضرت
بکاشانہ: کاشانہ
ما بنازیم بتو خانہ ترا بسپاریم
گر بیائی شب وصل تو درخانہ ما
خانہ ترا گر شب وصل تو در خانہ
نازیم: ناز نازی
بتو: تو
گفت اوخندہ زنان گریہ چو کردم بدرش
بو علی ہست مگر عاشق دیوانہ ما
خندہ گریہ بو علی مگر عاشق دیوانہ
گفت: گفت گفتگو گفتار
کردم: کر
'''''''''''''''''''''
اے ثنائت رحمتہ اللعالمین
یک گدائے فیض تو روح الامین
اے رحمتہ اللعالمین یک فیض تو روح الامین
ثنائت: ثنا
گدائے: گدا
اے کہ نامت را خدائے ذوالجلال
زد رقم بر جبہہ عرش برین
اے کہ خدائے ذوالجلال رقم عرش برین
نامت: نام
زد; زد نامزد قلمزد
جبہہ: جبہ جبین
بر: برباد برسراقتدار برسرپیکار برسرروزگار
آستان عالی تو بے مشل
آسمانے ہست بالائے زمین
آستان عالی تو بے مشل زمین
آسمانے: آسمان
بالائے: بالا بالاتر بالائے طاق
آفرین بر عالم حسن تو باد
مبتلائے تست عالم آفرین
آفرین بر عالم حسن تو عالم آفرین
باد: آباد برباد زندہ باد مردہ باد شاد باد
مبتلائے: مبتلائے عشق
یک کف پاک از در پر نور اُو
ہست مارا بہتر از تاج و نگین
یک کف پاک از در پر نور بہتر از تاج و نگین
از: ازاں ازیں از قصور تا پان پت
خرمن فیض ترا اے ابر فیض
ہم زمین و ہم زمان شد خوشہ چین
خرمن فیض ترا اے ابر فیض ہم زمین و ہم زمان خوشہ چین
شد: ختم شد
از جمال تو ہمے بینم مسا
جلوہ در آینہ عین الیقین
از جمال تو جلوہ آینہ عین الیقین
بینم: بین خوردبین دوربین کتاب بینی
در: دربار درگاہ درپیش درگزر درکنار
خلق را آغاز و انجام از تو ہست
اے امام اولین و آخرین
خلق آغاز و انجام از تو اے امام اولین و آخرین
غیر صلوۃ و سلام و نعت تو
بو علی را نیست ذکر دلنشین
غیر صلوۃ و سلام و نعت تو بو علی ذکر دلنشین
'''''''''''''''''''''
اے شرف خواہی اگر وصل حبیب
نالہ مے زن روز و شب جون عندلیب
خواہی: خواہ خیر خواہ خیر خواہی
زن: موجزن غوطہ زن خیمہ زن
اے شرف چاہے ہے اگر وصل حبیب
نالہ کرتا رہ روز و شب جون عندلیب
من مریض عشقم و از جان نفور
دست بر نبض من آرد چون طبیب
عشقم: عشق
مریض عشق اور بےزار از جان ہوں
مرے دست بر نبض کیوں رکھے طبیب
بر: اردو میں بے ب کی آواز پے پ میں بدل گئی ہے پر' تاہم بر بھی فقرے میں
قابل فہم ہے۔
مرے نبض پر دست کیوں رکھے طبیب
رسم و راہ ما نداند ہر کہ او
در دیار عاشقی ماند غریب
رسم و راہ نہ جانے کہ ہر کوئی
دیار عاشقی میں مانند غریب
شربت دیدار دلداران خوش است
گر نصیب ما نباشد یا نصیب
دلداران: دل داران
شربت دیدار خوش آتا ہے دل داروں کو
نصیب میں ہے یا ہوں میں بےنصیب
ما ازو دوریم دور اے وائے ما
از رگ جان است او ما را قریب
دوریم: دوری
وائے: ہائے وائے' اردو میں مستعمل ہے
ما ازو دوریم دور اے وائے ما
اس سے دور ہائے ہائے میں دور ہوں
مگر رگ جان سے بھی وہ مرے قریب
بر سرم جنبیدہ تیغ محتسب
در دلم پوشیدہ اسرار عجیب
سرم: سر
دلم: دل
سر پر تنی ہے تیغ محتسب
دل میں پوشیدہ اسرار عجیب
بو علی شاعر شدی ساحر شدی
این چہ انگیزی خیالات غریب
شدی: شدہ
اردو میں ختم شد' تمام شد' شادی شدہ وغیرہ مرکبات مستعمل ہیں
بو علی شاعر ہوا ساحر ہوا
کرے ہے انگیزی خیالات غریب
'''''''''''''''''''''
اگر رندم اگر من بت پرستم
قبولم کن خدایا ہر چہ ہستم
رندم: رند
پرستم: پرست
قبولم: قبول
اگر رند ہوں اگر میں بت پرست ہوں
قبول کر خدایا جو جیسا بھی ہوں
ندارم ننگ و عا ر از بت پرستی
کہ یارم بت بود من بت پرستم
ندارم: ندارد
بت پرستم: بت پرست
یارم: یار
از' ادو میں مستعمل ہے
ننگ و عار نہیں بت پرستی سے
کہ یار بت ہے میں بت پرست ہوں
بہ پیچ و تا ب عشق افتادم آنگہ
دل اندر زلف پیچان تو بستم
بہ: اردو میں مستعمل ہے
افتادم: افتاد دور افتادہ
بستم: بستہ بستی بند و بست
پیچ و تا ب عشق میں گرفتار ہوں
دل اندر زلف پیچان کا بسیرا ہے
'''''''''''''''''''''
ہم شرح کمال تو نگنجد بہ گمانہا
ہم وصف جمال تو نیاید بہ بیانہا
شرح کمال' شرح کمال
گمان' بیان' تو
ہا: جمع بنانے کے لیے اردو میں ہا اور ہائے مستعمل ہیں
یک واقف اسرار تو نبود کہ بگوید
از ہیبت راز تو فرد بستہ زبانہا
واقف اسرار' ہیبت راز' فرد بستہ
زبانہا زبان ہا
ما مرحلہ در مرحلہ رفتن نتوانیم
در وادئے توصیف تو بگستہ عنانہا
مرحلہ در مرحلہ' ادئے توصیف
رفتن: رفتہ' رفتار
نتوانیم: ن توان یم ناتواں
عنانہا: عنان ہا عنان حکومت
حسن تو عجیب است جمال تو غریب است
حیران تو دلہا و پریشان تو جانہا
دلہا و پریشان: دلہا و پریشان
جانہا: جان ہا
حسن تو عجیب' جمال تو غریب' حیران' پریشان
چیزے نبود جز تو کہ یک جلوہ نماید
گم در نظر ماست مکینہا و مکانہا
جز' تو کہ' گم' نظر
چیزے: چیز
یک جلوہ
مکینہا: مکین ہا
مکانہا: مکان ہا
یک ذرہ ندیدیم کہ نبود ز تو روشن
جستیم ز اسرار تو در دہر نشانہا
یک ذرہ' اسرار تو
روشن' دہر
ندیدیم: دید' نادید' نادیدہ
جستیم: جست
نشانہا: نشان ہا
یک تیر نگاہت را ہمسر نتوان شد
صد تیر کہ برجستہ ز آغوش کمانہا
یک تیر' صد تیر' تیر نگاہ' آغوش کمان
نگاہت: نگاہ
کمانہا: کمان ہا
ہمسر' برجستہ
دارد شرف از عشق اے فتنہ دوران
در سینہ نہان آتش و در حلق فغانہا
فتنہ دوران . فتنہ دوراں' نہان آتش۔ آتش نہاں' حلق فغاں
اے' عشق' سینہ' حلق
فغانہا: فغان ہا
'''''''''''''''''''''
من کہ باشم از بہار جلوہ دلدار مست
چون منے ناید نظر در خانہ خمار مست
بہار جلوہ دلدار مست نظر در خانہ خمار مست
باشم: میم ہٹانے سے باش' اردو میں شاباش' شب باش' پرباش مستعمل ہیں۔
مے نیاید در دلش انگار دنیا ہیچ گاہ
زاہدا ہر کس کہ باشد از ساغر سرشار مست
دلش: شین ہٹا دیں دل
مے انگار دنیا ہیچ گاہ زاہدا ہر کس کہ از ساغر سرشار مست
دلش: شین ہٹا دیں دل
جلوہ مستانہ کردی دور ایام بہار
شد نسیم و بلبل و نہر و گلزار مست
جلوہ مستانہ دور ایام بہار نسیم و بلبل و نہر و گلزار مست
کردی
کاف ہٹانے سے ردی
دی ہٹانے سے کر
کر ہٹانے سے دی اور دی سے سردی گردی وردی
من کہ از جام الستم مست ہر شام کہ سحر
در نظر آید مرا ہر دم درو دیوار مست
کہ از جام مست ہر شام کہ سحر نظر مرا ہر دم درو دیوار مست
الستم کا میم گرانے سے الست' اردو میں الست مست مرکب مستعمل ہے
چون نہ اندر عشق او جاوید مستیہا کنیم
شاہد مارا بود گفتار و ہم رفتار مست
نہ اندر عشق جاوید شاہد گفتار و ہم رفتار مست
چون: اردو میں چونکہ مستعمل ہے
مستیہا کو الگ الگ لکھیں مستی ہا' صرف مکتوبی صورت اس لفظ کو اردو میں داخل
کر دیتی ہے۔
تا اگر راز شما گوید نہ کس پروا کند
زین سبب باشد شمارا محرم اسرار مست
تا اگر راز نہ کس پروا زین سبب محرم اسرار مست
غافل از دنیا و دین و جنت و نار است او
در جہان ہر کس کہ میباشد قلندر وار مست
غافل از دنیا و دین و جنت و نار در جہان ہر کس کہ قلندر وار مست
'''''''''''''''''''''
بوعلی قلندر کے نو اشعار کا' اردو کے تناظر میں تجزیہ پیش ہے۔
ان نو اشعار کے نو قوافی درج ہیں۔ یہ اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔۔
آدم' دمادم' ابکم' محرم' اعظم' پیہم' اعظم' آرم' مسلم
مصرعوں کے پہلے لفظ
جمالت' کہ' اگر' ہزاراں' اگر' تو' بر' ملائک' کسے' حریم
کلام میں استعمال ہونے والے مرکبات' اردو والوں کے لیے غیریت نہیں رکھتے۔
روئے آدم' جملہ آدم' ہزاران سجدہ' جملہ اسما' حریم قدس' کورا زبان' نوشتہ
بر جبین' عرش اعظم' صاحب نام' اسم اعظم' صورت پاک' جمال لا یزالی
اردو میں مستعمل الفاظ
اندر روئے آہزاراندم کہ مے شرف بر جملہ آدم اگر نقطہ عزازیل ہزاران سجدہ
دمادم آدم منکشف جملہ اسمائے ملائک اندران جا کسے کورا زبان بستہ حریم قدس
محرم نامے چند فصلے نوشتہ بر جبین عرش اعظم نام را جانم بہ قربان نام دور
پیہم خوشا نامے و خوش صاحب نام بہ جز اسم اعظم بہ عشق دنیا و دین مست اگر
مستانہ آوازے بر آرم شرف در صورت عیان دید جمال لا یزالی مسلم
آوازیں گرانے یا معمولی تبدیلی سے اردو میں داخل ہونے والے الفاظ۔
جمالت بودش دانستے آوردے ماندہ ثنائش رود نامش
جمالت: تے گرانے سے جمال۔ جمال' اردو میں عام استعمال کا لفظ ہے۔
روئے: ئے گرا دینے سے رو. روئے بھی مستعمل ہے۔
بودش: بود' بود و باش
دانستے: دانست' دانستہ' مرکب دیدہ دانستہ
آوردے: آورد' آمد آورد دونوں اصطلاحیں اردو شاعری کے لیے مستعمل ہیں۔
ماندہ: پس ماندہ' درماندہ
ثنائش: ثناء
پاکش: شین گرانے سے پاک
رود: رود کوثر شیخ اکرام کی کتاب کا نام ہے۔
نامش: شین گرا دیں نام
تلمیحات' جو اردو میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔
آدم عزازیل سجدہ اسما ملائک حریم قدس عرش اسم اعظم لا یزالی مسلم
سابقہ لا
لا یزالی: لا کا سابقہ اردو کے استعمال میں ہے۔ مثلا لایعنی لاحاصل
امرجہ
دنیا حریم قدس عرش اعظم
اب کلام پڑھیں' اردو اور فارسی کو' قریب قریب کی زبانیں' محسوس کریں گے۔
جمالت بود اندر روئے آدم
کہ مے بودش شرف بر جملہ آدم
اگر این نقطہ دانستے عزازیل
ہزاران سجدہ آوردے دمادم
بر آدم منکشف جملہ اسمائے
ملائک اندران جا ماندہ ابکم
کسے کورا زبان بر بستہ نبود
حریم قدس او را نیست محرم
چہ نامے ثنائش چند فصلے
نوشتہ بر جبین عرش اعظم
رود آن نام را جانم بہ قربان
کنم آں نام را من دور پیہم
خوشا نامے و خوش آن صاحب نام
بہ جز نامش نباشد اسم اعظم
بہ عشق او شود دنیا و دین مست
اگر مستانہ آوازے بر آرم
شرف در صورت پاکش عیان دید
جمال لا یزالی را مسلم
'''''''''''''''''''''
جدید
غالب کی ایک معروف غزل کے چار مصرعہءثانی پیش ہیں' ردیف کے سوا باقی الفاظ'
فارسی والوں کے لیے غیر نہیں ہیں۔
سامانِ صد ہزار نمک داں کئے ہوۓ
سازِ چمن طرازیِ دَاماں کئے ہوئے
جاں نذر دل فریبی عنواں کئے ہوے
سر زیر بارِ منّتِ درباں کئے ہوئے
غالب شاعر:
.........
جدیدتر
علامہ طالب جوہری کے ان چاروں مصرعوں میں' تین لفظوں: کی' میں اور ہو کے
سوا کوئی لفظ فارسی والوں کے لیے اجنبی نہیں ہو گا۔
اے فکر جواں! صفحہءدانش پہ رقم ہو
اے فرق گماں! علم کی دہلیز پہ خم ہو
اے خامہء جاں! دشت معنی میں علم ہو
اے طبع رواں! زیب دہ نون و قلم ہو
اب اس مصرعے کو دیکھیں اردو اور فارسی والوں کے لیے غیر نہیں ہے۔
باسطوت افکار و بہ جوش معنی
طالب جوہری شاعر:
.........
جدید ترین
:اب مہر افروز کے یہ مصرعے ملاحظہ فرمائیں
عشق ہے' خواب ہیں، میرے دم ساز
ہے ہیں میرے
عشق خواب دم ساز
میری دیوانگی کی عمر دراز
میری کی
دیوانگی عمر دراز
ہوں عطا عشق کے نئے انداز
ہوں کے
عطا عشق نئے انداز
دشتِ بیچارگی میں گم آواز
میں
دشتِ بیچارگی گم آواز
شاعر: مہر افروز
دونوں زبانوں کا لسانیاتی اشتراک' نادانستہ طور پر اور مستقل رویے پر
انحصار کرتا ہے۔ غالب کا دور' انگریز اور انگریز سے پہلے سے متعلق ہے۔
مغلیہ عہد نام نہاد سہی' پرانی روش اور روایات سے متعلق تھا۔ پرانی روایات
برقرار تھیں۔ طالب جوہری' انگریز کے آخری اور تقسیم ہند کے بعد سے تعلق
کرتے ہیں' جب کہ مہر افروز موجود یعنی تقسیم ہند کے بعد سے' تعلق کرتی ہیں۔
ان کی زبان میں فارسی کا نام و نشان تک نہیں ہونا چاہیے' لیکن ان کے ہاں
استعمال میں آنے والے لفظ' اہل فارسی کے لیے غیرمانوس اور اجنبی نہیں ہوں
گے۔ یہ لفظ ان کے ہاں آج بھی مستعمل ہیں۔ |