’کمال کی باتیں ‘۔کمال احمد رضوی کی تصنیف
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
کمال احمد رضوی کے انتقال کے بعد ان کی چند تحریروں پر مشتمل کتاب ‘ کمال کی باتیں‘ شائع ہوئی جس کی تعارفی تقریب آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کی جانب سے منعقد ہوئی۔ ذیل میں اس تقریب کا آنکھو دیکھا حال اور کتاب کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔ |
|
|
کمال احمد رضوی کی کتاب کمال کی باتوں کا ٹائیٹل |
|
اس کالم کا عنوان ’کمال کی باتیں ‘ ہی
مناسب تھا لیکن میں نے قصداً وضاحت ضروری سمجھ کر مصنف کمال احمد رضوی لکھا
،،ورنہ کالم پڑھنے والے کالم کا عنوان پڑھ کا بدگمانی کا شکار ہوجاتے اور
سمجھتے کہ یہ لمحہ موجود کے سیاسی کمال کی باتیں ہیں۔ آج کل مصطفیٰ کمال
برقی میڈیا میں اِن ہیں ، ہر جانب ان کی بہادری اور سیاسی حکمت عملی کے
چرچے عام ہیں۔ مَیں سیاسی کمال پراپنا کالم بعنوان ’’کمال نے کوئی کمال
نہیں کیا‘‘ لکھ کر اپنی انگلی کٹا کر شہیدوں میں داخل ہوچکا ہوں۔اس وقت
کوئی بھی ٹی وی چینل ایسا نہیں جس نے کمال شو نا کیا ہو ، کوئی اینکر ایسا
نہیں جس نے کمال سے اَٹکھیلیاں نہ کی ہوں اور کوئی کالم نگار ایسا نہیں جس
نے کمال پر ہاتھ صاف نہ کیا ہو، تو پھر میں کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔ حالات
حاضرہ پر لکھنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی کرنٹ موضوع پر
کالم لکھیں۔ گویا لکھاریوں میں مقابلہ ہے لکھنے کا ۔ اس حوالے سے ایک لطیفہ
سن لیجئے ۔ میرے ایک کالم نگار دوست اور ہماری ویب رائیٹرز کلب کے ساتھی
ایم ابرہیم خان صاحب نے کلب کے حالیہ اجلاس میں اُس وقت سنایا جب گفتگو
زیادہ کالم لکھنے کے حوالے سے شروع ہوئی۔لطیفہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک دوست
نے دوسرے دوست سے پوچھا کہ اگر دائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں کھجلی ہو تو کیا
ہوتا ہے ، دوست نے جواب دیا دولت آتی ہے، پھر اس نے پوچھا کہ اگر بائیں
ہاتھ کی ہتھیلی میں کھجلی ہو تو کیا ہوتا اس نے کہا کہ رقم جاتی ہے یا نقصا
ہو تا ، اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اس نے پھر پوچھا کہ اگر پیر میں کھجلی
ہو تو کیا ہوتا ہے دوسرے دوست نے جھنجلاتے ہوئے کہا بھئی اپنا راستہ لے کسی
ڈاکٹر کے پاس جا تجھے خارش کی بیماری ہے۔ گویا بہت زیادہ لکھنا بھی بیماری
ہے ، کالم نگار کا ایک کالم ختم نہیں ہوتاذہن دوسرے کالم کے تانے بانے بننے
شروع کردیتا ہے ۔ ہماری ویب رائیٹرز کلب کے ایک اور دوست ہیں عظیم اعظم
عظیم، انہیں بھی کالم لکھنے کی دھن اور جنون ہے ان کا کہنا ہے کہ جب تک وہ
اپنا کالم مکمل نہیں کرلیتے پاگل سے رہتے ہیں۔ اس موقع پر ان کی بیگم ان سے
کہتی ہیں کہ آپ پہلے اپنا کالم مکمل کرلیں تاکہ گھر میں نارمل ہوجائیں۔حال
کچھ اپنا بھی ایسا ہی ہے، ایک کالم چھپنے کے بعد دوسرے کی فکر دامن گیر
رہتی ہے، سلسلہ ہے کہ رکنے کانام ہی نہیں لیتا۔
معروف ادا کار، ہدایتکار اور قلمکار کمال احمد رضوی کے انتقال کے بعد ان کی
آخری بیگم محترمہ عشرت جہاں رضوی نے اپنے ادا کار اور لکھاری شوہر کمال کی
منتخب تحریروں کو جو مختلف احباب کے بارے میں تھیں یعنی کچھ خاکے اور کچھ
مضامین کو کتابی شکل دے کر ’کمال کی باتیں‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ کمال
شادیوں کے حوالے سے خاصہ کشادہ دل واقع ہوئے تھے۔عشرت جہاں ان کی غالباً
تیسری زوجہ ہیں۔ان سے پہلے دو کا ذکر کمال نے اپنی تحریر میں کیا ہے، ممکن
ہے کہ اسکور اس سے زیادہ ہو، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ مِزاح نگار، ڈرامہ نگار،
مترجم ، ناول نگار ،مدیر ، اداکار اور پاکستان میں تھیٹر کے شہسوار کمال
احمد رضوی 2015ء کے آخری شکار تھے یعنی ان کا انتقال 17 دسمبر2015 ء کو
ہوا۔ ان کی شخصیت تو تھی ہی ایسی کہ انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہر لکھاری
نے ضروری جانا، میں نے بھی ان پر کالم لکھا جو ہماری ویب پر بعنوان ’’الف
نون کے’ الن‘ اﷲ کو پیارے ہوئے‘‘ آن لائن ہوا۔کمال کے انتقال کے ڈھائی ماہ
کے اندر اندر ’کمال کی باتیں‘ کا شائع ہوجانا ، کمال کی بیگم کا اپنے شوہر
سے سچی محبت کا عملی ثبوت ہے۔ 17دسمبر کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی انہیں دنیا
سے رخصت ہوئے تین ماہ بھی نہیں ہوئے، عشرت جہاں نے عدت کی پرواہ کیے بغیر
کمال کی باتوں کو عوام الناس تک پہنچانا ضروری جانا۔اگر عدت کے چار ماہ اور
دس دن پورے کر لیتیں تو اچھا تھا،مجبوری میں ایسا کیا جاسکتا ہے۔کمال کی
باتوں کو جلد سے جلد منظر عام پر لاکر انہوں نے شوہر سے اپنی سچی محبت کا
ثبوت دیاہے۔
9مارچ 2016ء کو کمال کی باتوں کی تعارفی تقریب کا اہتمام آرٹس کونسل آف
پاکستان کی ادبی کمیٹی کی جانب سے منظر اکبر ہال میں کیا گیا۔مجھے بھی کتاب
کی تعارفی تقریب میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوابلکہ لطف دوبالا ہوگیا۔ شاعروں
اور ادیبوں کے درمیان دلی مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ سیکھنے کو
ملتا ہے، ایک جملہ بھی دل کو بھا جائے تو اطمینان ہوجاتا ہے اس تقریب میں
تو بڑے بڑے لکھاریوں کی باتیں سننے کو ملیں۔ ہال میں داخل ہوا تو کچھ مہمان
آچکے تھے ، یعنی وقت مقررہ پر پہنچنے والا صرف میں ہی نہیں تھا۔ سب سے پہلے
معراج جامی اور راشد اشرف سے ملاقات ہوئی، جامی صاحب بڑے نفیس آدمی ہیں ،
اکثر ان سے انجمن ترقی اردو کی تقاریب میں ملاقاتیں رہتی ہیں، راشد اشرف سے
ادب کی دنیا کا ہر فرد واقف ہے، پرانی کتابوں کے بازار میں جانا اور نادر و
نایاب کتب کا تعارف برقی میڈیا پر کرانا ان کا محبوب مشغلہ ہے، یہ جان کر
خوشی ہوئی کہ ’کمال کی باتیں‘ مرتب کرنے اور شائع کرنے میں کمال کی بیگم کے
ساتھ ساتھ راشد اشرف کا بھی اہم کردار ہے۔ تقریب اپنے وقت مقررہ سے بہت بعد
شروع ہوسکی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے، ایک وجہ یہ بھی رہی کہ عین اسی وقت آرٹس
کونسل میں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید قائم علی شاہ صاحب کی سواری آئی ہوئی
تھی خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے انہیں کسی تقریب میں شرکت کرنا تھی،
بڑے سائیں جس جگہ ہوں وہاں سیکیوریٹی کی صورت حال کیا ہوگی، آرٹس کونسل کے
چاروں جانب پولیس موبلیں کھڑی تھیں، اتنے مہمان تقریب میں نہیں ہونگے جتنے
ان موبائلوں میں سڑک کنارے بڑے سائیں کی حفاظت پر سیکیوریٹی کا عملہ معمور
تھا۔ اﷲ ہم پر رحم کرے۔ حکمرانوں کا نیک ہدایت دے ۔آرٹس کونسل کی انتظامیہ
کو چاہیے کہ جب ایسی وی وی آئی پی شخصیت نے کسی تقریب میں آنا ہو تو اس دن
صرف وہی تقریب منعقد ہو دیگر تقا ریب ملتوی کردی جائیں اس لیے کہ ادبی
تقاریب میں آنے والوں کی اکثریت عمر رسیدہ احباب کی ہوتی ہے انہیں پارکنگ
جیسی صورت حال سے نمٹنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس قدر موبائلیں دیکھ کراور پولیس
اوسر رینجرس کو دیکھ کردل کی دھڑکن بلاوجہ تیز ہوجاتی ہے۔
نوجوان ادیب آغا شیرازی نے میزبانی کے فرائض احسن طریقے سے انجام دیے ، بیچ
بیچ میں آرٹس کونسل کی سیکریٹری ڈاکٹر ہما میر بھی جلوہ افروز ہورہی تھیں۔
دونوں ہی میزبانوں نے ’کمال کی باتیں‘کی تعارفی تقریب کوکمال طریقہ سے
تکمیل کو پہنچایا۔ اسٹیج پرپر براجمان دانشوروں میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم،
پروفیسر سحرؔ انصاری ، ذاہدہ حنا، حسینہ معین، ایس ایم شاہد، رضا کاظمی،
عشرت جہاں، بختیار احمد اورشبیح الحسن کاظمی تشریف فرما ں تھے۔ تقریب کے
پہلے مقرر ایس ایم شاہد تھے انہوں نے وہی باتیں کیں جو کتاب کے فلیپ پر
اورکمال میرا دوست ‘ کے عنوان سے انہوں نے تحریر کی ہیں۔یعنی یہ کہ ’کمال
نے انسانی کمینگی کا بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اتنا گہرا کہ جو شخص کمینہ
نہیں بھی ہوتا تھاوہ بھی اسے کمینہ نظر آتا تھا اور اس کی اہمیت ملاحظہ
فرمائیے کہ الف نون میں کمینے کے کردار کے لیے اس نے اپنے آپ کو منتخب
کیااور اُس کردار کو اس خوش اسلوبی سے سے نبھا یا کہ ساری دنیا میں اس کے
کروڑودیکھنے والے عش عش کر اٹھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کمال کا خود اپنے آپ کو
الف نون میں ایک چالاک اور برے آدمی کی طرح پیش کرنا اس کی انسان دوستی اور
محبت کا سب سے بڑا ثبوت ہے‘۔
کمال احمد رضوی کی شریک حیات عشرت جہاں رضوی جن کا اس کتاب کی تدوین و
اشاعت میں کلیدی کردار ہے ۔ انہوں نے کتاب میں’’ 84 ء سے2015 تک ۔کمال کے
ساتھ‘ ‘کے عنوان سے کمال کے ساتھ اپنے اکتیس سال اور اکتیس دن کی رفاقت کی
کہانی صاف گوئی سے بیان کی ہے، لگتا ہے کہ انہوں نے سب کچھ جوں کا توں بیان
کردیا کوئی بات چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ کہتی ہیں’یہ داستانِ حیات اس وقت
شروع ہوتی ہے جب میں عشرت بُرہان سے بیگم کمال احمد رضوی بنی۔ اُس وقت یہ
اندازہ نہیں تھا کہ جو نیا سفر میں شروع کرنے جارہی ہوں وہ کتنا مشکل ہے۔
شاید میری عمر کا تقاضا تھا یا میری آنکھوں پر بندھی ہوئی محبت کی وہ پٹی
تھی جس سے آگے دیکھنا میرے لیے شاید ممکن نہ تھا۔ میرے نزد یک کمال انتہائی
ذہین ، بذلہ سنج، محبت کرنے والے ، خوش خوراک، خوش لباس اور ہنس مکھ انسان
تھے۔ان کی شخصیت کا دوسرا رخ انا پرستی اور غصہ تھا جو میری آنکھوں سے
اوجھل تھا، پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ رنگ بھی کھلتے گئے۔ کبھی تو محبتوں کی
برسات ہوتی تو کبھی غصے کے اولے سر پر برسنے لگتے مگر میں نے میدان خالی
چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور اس چیلنج کو قبول کر لیاکہ کمال احمد رضوی کو
فتح کر لینا ہی میری کامیابی ہے، کہتی ہیں کہ ’ہماری ازدواجی زندگی میں بڑے
اُتار چڑھاؤ آئے مگر اس کے باوجود گاڑی چلتی رہی، کمال اناپرست تھے، بہ
حیثیت شوہر وہ ایک مثالی شوہر تو نہ بن سکے لیکن بحیثیت دوست ہم نے بہت
اچھا وقت گزارا۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا، کمال کے اندر کا غصہ در اصل
اُن کی وہ محرومیاں تھیں جو اُن کو ورثے میں ملی تھیں، چھوٹی عمر میں والدہ
کے انتقال کے بعد اکیلے رہے۔ والد نے دوسری شادی کی، سوتیلے پن اور تنہائی
نے اُن کے اندر ایک نفرت اور غصہ پیدا کردیا تھا، ضدی اور دُھن کے پکے تھے
۔ چیلنج کو قبول کرنا اچھا لگتا تھا‘۔آگے لکھتی ہیں کہ ’عمدہ شراب، عمدہ
کھانا، عمدہ دوستوں کی محفل بہت پسند تھی شاید اسی لیے دوستوں کی بڑی تعداد
ان کے اِرد گرد موجود رہتی تھی۔دوستوں کے معاملے میں بہت خوش قسمت انسان
تھے۔انہیں لوگوں کے دل میں گھر کرنے کا فن آتا تھا، اُن کے مطابق ان کی خوش
بختی تھی کہ وہ سعادت حسن منٹو ، فیض احمد فیضؔ، شاکر علی، سبطِ حسن جیسے
بڑے لوگوں کے درمیان اور قریب رہے۔ پینٹنگز کا بہت شوق تھا اور دوستیاں بھی
زیادہ پینٹروں سے تھیں، معین نجمی، شاکر علی، جمیل نقش، احمد پرویز، علی
امام، وہاب جعفر، سید جہانگیر جیسے مہان لوگ ان کے جگری یار تھے‘‘۔بیگم
کمال کی تحریر سے کمال کی نجی زندگی کے بارے میں اندازہ لگانا آسان ہوجاتا
ہے۔
ڈاکٹر محمد رضا کاظمی جو تقریب کے بھی مقرر تھے اور کتاب میں ’اعترافِ
کمال‘ کے عنوان سے کمال کے بارے میں اظہار خیال بھی کیا ہے۔ انہوں نے کمال
کی خاکہ نگاری کا زکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’سعادت حسن منٹو کا خاکہ لکھا
ہے وہ بھر پور ہے اور دل گرفتہ کرنے والا خاکہ ہے ۔ لیکن یہ اس دور کی بات
ہے جب سعادت حسن منٹو مشہور تھے اور کمال احمد رضوی گمنام تھے‘۔ ڈاکٹر
کاظمی کا کہنا ہے کہ ’کمال کی حقیقت نگاری ہمیشہ بے رحمانہ رہی ہے‘۔ بختیار
احمد صاحب نے بھی کمال کی شخصیت اور ان کی باتوں کے حوالے خوبصورت باتیں
کیں، خاص طور پر کمال کے ایک مخصوص جملے ’تیری تو میں ․․․․․عزت کرتا ہوں‘
کا ذکر کیا۔ شیخ الحسنین کاظمی نے کمال کی ڈرامہ نگاری کا ذکر کیا، ذاہدہ
حنا نے اپنا لکھا ہوا مختصر مضمون پیش کیا ،حسینہ معین نے کہا کہ کمال صاف
گو انسان تھے جس کو پسند کرتے اسے پسند کرتے تھے جس کو نہ پسند کرتے اسے نہ
پسند ہی کیا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا پی ٹی وی میں بہت اچھے لوگ تھے ان میں
سے ایک کمال بھی تھی۔ تقریب کے صدر پروفیسر سحر انصاری نے صدارتی تقریر
کرتے ہوئے فرمایا کہ مقررین نے کمال کی شخصیت اور اس کتاب پر سیر حاصل
گفتگو کی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ اس کتاب کا عنوان ہی اچھا لگا، انہوں نے
کہا کہ کمال کی یادیں لیکن اصولِ بیان باتوں والا ہے یہ خوبی بہت کم نظر
آئے گی‘۔ تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر قاسم پیرزادہ نے اپنے خیالات کا اظہار
کرتے ہوئے کہا کہ ’کمال واقعی ہر دلعزیز شخصیت اور ہمارے عہد اور زمانے میں
اگر شخصیت ہر دلعزیز کہی جاسکتی ہے تو بچے، بڑے،بوڑھے سب کے لیے ہر دلعزیز،
قابل توجہ جاذب نظر شخصیت تھے۔ ڈاکٹر پیرزادہ نے کہا کہ وہ چوکس انسان
تھے۔ذہین اور فہیم لوگوں میں سے تھے۔چیلنج دینا اور چیلنج قبول کرنے والے
تھے، ان کی زندگی میں نشیب و فراز تھے، انسانی نفسیات میں جکڑے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر پیرزادہ نے بیگم کمال کی تحریر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک
مکمل تحریر ہے، انہوں نے پہلی مرتبہ لکھا لیکن مکمل اور بے لاگ لکھا، سچ
لکھا ، مصلحت سے کام نہیں لیا۔ کمال بزلہ سنج ، خوش خوراک بھی تھے، خوش
لباس بھی، انہیں کٹھن وقت بھی دیکھنا پڑا، وہ غصیلے اور دھن کے پکے تھے،
انہوں نے انسانی کمینگی کا بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ عمدہ شرابی ہونے کے
ساتھ ساتھ اچھی شراب پیا کرتے تھے۔عمدہ دوستوں کی محفل پسند کیا کرتے تھے‘۔
کمال احمد رضوی اداکار کے طور پر معروف ہوئے لیکن ان میں حسِ مزاح کا ایسا
لطیف احساس پایا جاتا تھا کہ دیکھنے اور سننے والے داد دیے بغیر نہ رہ
سکتے۔ ان کے جملے ظرافت کا اعلیٰ نمونہ ہوا کرتے، ان کے مزاحیہ فقرے نپے
تلے اور عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ طنز کے تیر ونشتر لیے ہوئے ہوتے تھے۔ وہ
اپنے ہی لکھے ہوئے جملوں کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس انداز سے ادا کیا
کرتے کہ مِز اح کا لطف دوبالا ہوجایا کرتا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر الن کا
تحریر کردہ ڈرامہ الف نون 72۔1971ء کے درمیان پہلی مرتبہ ٹیلی کاسٹ ہوا، یہ
متعدد قسطوں پر مشتمل تھا۔ معاشرے کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، ادبی موضوعات
کو ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ الن (کمال احمد رضوی) اور ننھا (رفیع خار) اس
خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے کہ جو وقت الف نون کی ٹیلی کاسٹ ہونے کا
ہوتا اس وقت محلوں کی گلیوں میں سنناٹا ہوا کرتا لوگ اس بات کی کوشش کیا
کرتے کہ وہ الف نون کے نشر ہونے سے قبل اپنے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔اس
ڈرامہ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ 1970سے 1980 کے
درمیان یہ سیریل کراچی ٹیلی ویژن سے تین بار ٹیلی کاسٹ کی گئی۔ کمال احمد
رضوی نے متعدد ڈرامے تحریر کیے ان میں مسٹر شیطان، آدھی بات، بلاقی بدذات،
بادشاہت کا خاتمہ، جوس سیزر، صاحب بی بی گلام، چور مچائے شور،کھویاہوا
آدمی، خوابوں کا مسافر، ہم سب پاگل ہیں، آپ کا مخلص شامل ہیں، انہوں نے
مختلف رسائل کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے ان میں تہذیب، آئینہ، شمع کے
علاوہ بچوں کا رسالہ بچوں کی دنیا، تعلیم و تربیت،پھلواری شامل ہیں۔ کمال
احمدرضوی بے بہا خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کے قلم میں روانی اور پختگی تھی۔
ان کی سوچ کا دھارا ہمیشہ معاشرے میں کسی نہ کسی برائی ، خامی یا کمزوری کو
دور کرنے کی جانب ہوا کرتا۔ الف نون کے بے شمار اقساط میں انہوں نے روزمرہ
کے مسائل ، لوگوں کی مشکلات پر خوبصورت انداز سے طنز کے تیر چلائے ۔ وہ قلم
کار ہونے کے ساتھ ساتھ اداکار بھی اتنے ہی اچھے تھے۔ بنیادی طور پر وہ
تخلیق کار تھے۔ تھیٹر کے حوالے سے ان کی خدمات کو پاکستان میں پہلا پتھر
تصور کیا جاتا ہے ۔
’کمال کی باتیں‘ میں جو خاکے کمال کے تحریر کردہ شامل ہیں ان میں فیض ؔ
صاحب، منٹو صاحب، احمد پرویز۔نامہر بان یادیں، ہماری انیس آپا، حفیظ جاوید،
حمید کاشمیری، انور جلال ثمزا، پراسرار نجمی، صفدر میر، شاکر علی، شوکت
رضوی، سبطِ حسن، ستارہ بائی کانپوری، تجمل بھائی شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ
پاک ٹی ہاؤس، الحمراکے عنوان سے مضامین ، ترگنیف ۔شخصیت اور فن گلیرٹ
گارڈنر ، یہ ترجمہ ہے جو کمال نے کیا۔ کمال پر لکھے گئے کالموں میں منو
بھائی کا کالم ’کمال احمد رضوی ہمارے ہاتھوں میں سے نکل گئے، یہ جنگ میں
شائع ہوا تھا، انتظار حسین کا کالم ’ کچھ کمال احمد رضوی کے بارے میں، یہ
روزنامہ ایکسپر یس میں شائع ہوا تھا، کشور ناہید کا کالم ’الف نون یا کمال
احمد رضوی بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر کتاب کمال کی تحریروں کا اچھا
مجموعہ ہے۔ یہ تو ابتدا ہے کمال کی بے شمار تحریریں ہیں جن کو کتابی صورت
میں مرتب کرنے اور شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ راشد اشرف نے اپنے مضمون میں
لکھا ہے کہ ’کمال احمد رضوی ان لوگوں میں سے تھے جو زندگی کو کھیل نہیں
سمجھتے اور اسے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا جانتے ہیں‘۔ کتاب کا عنوان ’کمال کی
باتیں ‘ کمال رضوی اپنی زندگی میں ہی طے کر گئے تھے۔ راشد ہی اس کتاب کی
تدوین و اشاعت کے اصل محرک ہیں۔ راشد کا یہ عمل علم و ادب کی تدوین ، اشاعت
اور فروغ کے حوالے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ |
|