کیا امریکہ میں ایک انتہا پسند حکومت کا
قیام عمل لایا جا رہا جو آئندہ آنے والے وقت میں مسلم امہ کے خلاف مزید
جارحانہ رویہ اختیارکرسکتی ہے۔ امریکہ کی اپنی کوئی ثقافت نہیں ہے دنیا بھر
سے آنے والے مختلف النسل اقوام نے امریکہ کو امریکہ بنایا۔لاٹری سسٹم کے
ذریعے دنیا بھر سے لوگوں کو امریکہ میں بسایا گیا،لیکن امریکہ نے روز اول
سے ایک ایسی پالیسی رکھی ہوئی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اکثریت امریکہ
کی پالیسیوں کو مثبت انداز میں نہیں لیتی۔امریکہ دنیا کا واحد سپر پاوربننے
کیلئے دنیا کے80ممالک میں اپنی فوجی اڈے قائم کرچکا ہے۔دن رات تباہی مچانے
والے اسلحہ کی فیکڑیاں امریکی کمزورمعیشت کو سنبھالنے اور کھربوں روپے کے
مقروض ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے مصروف نظر آتی ہیں۔مسلمان کسی
مذہب یا کسی قوم یا ملک کے خلاف نہیں ہوسکتے کیونکہ اسلام کا نام ہی امن و
سلامتی ہے ، لیکن بد قسمتی سے امریکہ کی ایسی پالیسیاں رہی ہیں جس نے خود
اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔اسرائیل نواز پالیسیاں اختیار کرکے سب سے
پہلے مسلم امہ کے جذبات سے کھیلوار کرتا رہا تو دوسری جانب ان ممالک میں
شورش برپا کرائی جو مستقبل میں معاشی طور پر مضبوط ہوکر امریکی پالیسیوں سے
آزادی کی جانب گامزن تھے تاہم امریکہ کا مفاد امن میں نہیں بلکہ جنگ میں ہے
۔امریکہ نے پوری دنیا کو ویڈیو گیم کا ایک حصہ سمجھا ہوا ہے۔کسی بھی ملک کے
اندرونی معاملات میں اپنی پالیسیوں کو نافذ کرنا اس کے عالمی اداروں کا
اولیں فریضہ ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکہ سے تمام تر نفرت کے
باوجود مسلمانوں سمیت دیگر اقوام کے افراد ا ترقی یافتہ پر تعیش رہائش
اختیار کرنا ، اپنے بچوں کواعلی تعلیم دلانا اور ایک اچھے مستقبل کیلئے
امریکہ کو ترجیح دیتے ہیں ۔لیکن یہ نفرت کا رویہ یکطرفہ پیداوار نہیں ہے ۔
امریکہ چاہتا تو اس نے اپنے جتنے دشمن بنائے ہیں اس سے زیادہ دوست بنا سکتا
تھا لیکن امریکن خامی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو دوسروں پر مسلط کرنیکا
عادی بن چکا ہے۔خاس طور پر امت مسلمہ کیلئے وائٹ ہاوس جتنے اچھے پیغام دے
لیکن بغل میں چھری ضرور رکھتے ہیں۔امریکہ میں صدارتی انتخابات پہلی مرتبہ
نہیں ہو رہے بلکہ اپنے وقت کے مطابق وہ اپنی جمہوری روایات کو لئے چلتے جا
رہے ہیں ، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کا مسلم امہ کے خلاف انتہا پسندی
کا ایک روپ سامنے آتا جا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک انتخابی ریلی میں جمعے
کے دن ایک حجاب پہنے ہوئے مسلمان خاتون کواس وقت باہر نکال دیا گیا جب اس
نے ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کے خلاف خاموش مظاہر کیا ۔ڈونلڈ ٹرمپ
نے دسمبر2015ء میں واضح اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے
پر مکمل پابندی لگا دیں گے۔با ت یہیں رہ جاتی تو شائد ایسے ایک انتخابی مہم
کا حصہ قرار دیکر نظر انداز بھی کردیا جاتا لیکن امریکہ کی تربیت یافتہ
پولیس نے 56 برس کی روز حامد کو گھیرے میں لے لیاجب ساؤتھ کیرولینا کے شہر
روک یل میں انتخابی ریلی نکالی جا رہی تھی وہ ایک اور خاتون کے ہمراہ خاموش
کھڑی تھیں جب ٹرمپ شام کے مہاجرین کے امریکہ میں داخل ہونے کے بارے میں بات
کر رہے تھے۔ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی تصاویر میں ، روز حامد ٹرمپ کی
پشت والی قطار میں کھڑی تھیں اور روز حامد نے اپنا سر ڈھانپ کر ایک کپڑا
پہنا ہوا تھا جس میں ایک تحریر واضح پڑھی جا سکتی تھی کہ "سلام ۔میں امن کا
پیٖام لے کر آئی ہوں "۔ ویڈیو میں دیکھا گیا کہ روز حامد کی تضحیک و بے
عزتی کی گئی ، اس کا مذاق اڑایا گیا کہ کیا تمارے پاس بم ہے ۔ کونسل آن
امریکن اسلامک رلیشنز نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ٹرمپ سے معذرت کیلئے کہا
ہے بقول ان کے"ایک مسلمان خاتون کو ایک سیاسی ریلی سے بے عزت کرکے نکالنا
مسلمان امریکیوں کو بہت خراب پیغام دیتا ہے۔"ٹرمپ کہتے ہیں کہ رائے عامہ کے
اعداد و شمار کے مطابق مسلمان ملکوں کی بڑی آبادی امریکیوں کیلئے نفرت کے
جذبات رکھتی ۔ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف بیانات دینا جس طرح نئی
بات نہیں اسی طرح دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں
مسلمانوں کو متعدد ٹرمپ جیسے انتہا پسندوں کا سامنا رہتا ہے۔ ٹرمپ اپنے ایک
بیان میں مساجد پر نگاہ رکھنے کا مطالبہ سمیت اپنی پہلی تجویز سے دستبردار
ہونے کے تیار نہیں ہیں۔بلکہ وہ اپنی انتہاپسندی میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں
امریکہ کے مسلمانوں کے ناموں پر مشتمل ، ایک ڈیٹا نیس قائم کرنیکے حق میں
بھی نظر آتے ہیں۔امریکہ میں انتہا پسند رجحانات کی قیاس آرائیاں نہیں ہیں
بلکہ حقیقت میں امریکہ کا چہرہ بھیانک خدوخال کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ امریکہ
میں حالیہ ایک سروے کیا گیا جس میں امریکہ کے ارب پتی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ کی
قومی سطح پر مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔اس سروے کے بعد ٹرمپ نے
ریاست نیو ہیمپشر میں ہونے والا ری پبلکن کا پرائمری انتخاب با آسانی جیت
لیا تھا جس کے بعد ری پبلکن کی نا مزدگی کے خواہش مند مزید دو امیدوار
مقابلے سے دست بردار ہوگئے تھے۔روز حامد کے ساتھ روا رکھے جانے والا رویہ
امریکی شہریوں کے رجحانات کی مکمل عکاسی تو نہیں کرتا لیکن جس طرح ٹرمپ کی
مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، اسلام فوبیا کے شکار امریکی ٹرمپ کی
پالسیوں پر کھل کر اظہار بھی کرنے لگے ہیں۔دل جسپ بات یہ ہے کہ پوپ فرانسس
نے امریکی صدر کے عہدہ کیلئے ری پبلکن امیدوار ٹرمپ کو عیسائی ماننے سے
انکار کردیا کہ جس قسم کے ٹرمپ کے خیالات ہیں اوروہ باہم جوڑنے کے بجائے
توڑنے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے وہ عیسائی نہیں ہوسکتا ۔ا س پر ٹرمپ
چراغ پا ہوکر پوپ فرانسس پر برس پڑے کہ ان کے مذہبی عقیدے پر سوال اٹھانا
شرمناک ہے ۔ ٹرمپ اپنی ایک تقریر میں یہ بھی کہہ چکے تھے کہ اگر وہ ملک کے
صدر منتخب ہوئے تو وہ ملک میں غیر قانونی طریقوں سے داخل ہونے تارکین وطن
کی آمد روکنے کیلئے امریکہ اور میکسیکو کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردیں
گے۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ کسی بھی دوسرے ملک میں جانے کیلئے غیر
قانونی طریق کار کے بجائے قانونی طریق طریقہ اختیار کرلیا جائے تو وہ اچھا
طریقہ ہے لیکن ٹرمپ پر انتہا پسندی کا بھوت سوار ہے اور اس نے یہاں تک کہہ
دیا کہ وہ ایک ایک بھارتی کو امریکہ سے نکال دیں گے انھوں نے امریکیوں کے
روزگار پرقبضہ کرلیا ہے۔کبھی کبھار ایسالگتا ہے کہ امریکہ میں امریکی نہیں
بھارتی انتخابات ہور رہے ہیں جہاں ووٹ حاصل کرنے کیلئے جس قدر بے سروپا
بیانات دیئے جا سکتے ، دیئے جائیں ، کشیدگی بڑھتی ہے تو بڑھے ، اقلیتیں عدم
تحفظ کا شکار ہوتی ہیں تو ہوتی رہیں۔لیکن تہذیب یافتہ قوم خود کو سمجھنے
والے امریکیوں کو یہ سمجھنے میں کیا پریشانی کا سامنا ہے کہ پوری دنیا میں
کسی اور نے نہیں بلکہ امریکہ نے جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ایران و عراق کے
درمیان گیارہ سالہ جنگوں میں عراق کو ایرانی مخالفت میں پیٹھ ٹھوکنے والا
کوئی اور نہیں ، بلکہ امریکہ تھا ، عراق کو کویت پر حملہ آور ہونے کہ شہ
دینے ولا کوئی اور نہیں امریکہ تھا ۔ عراق میں بے بنیاد پروپیگبڈا کرکے
لاکھوں عراقیوں کی تباہی کا ذمے دار کوئی اور نہیں امریکا ہے ۔ اب تو ہیلری
کلنٹن مان چکی ہیں کہ امریکہ نے غلطی کی تھی ، لیکن کیا انکے مان لینے سے
عراق میں امن واپس آجائے گا ،عراق کا مکمل انفرا سٹرکچر تباہ ہوچکاہے ،
فرقہ وارنہ بنیادوں پر عراق و افغانستان کو تین حصوں میں تقسیم کرنی کی
منصوبہ بندی ہے تواس کا ذمے دار امریکہ ہی ہے۔اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے
مسلمانوں پر ظلم و ستم اور یہودی بستیوں کی تعمیر و آبادکاری اور یہودیوں
کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کرنے ولا امریکہ ہی ہے ، شام، مصر ،
لیبیا میں خانہ جنگی کا ماسٹر مائنڈ امریکہ ہے۔جاپان میں ایٹم بم کسی
مسلمان نے نہیں بلکہ امریکہ نے گرایا تھا جس لاکھوں انسان ہلاک ہوئے ،
یہودیوں کی نسل کشی و ہولو کاسٹ کا ذمے دار کوئی مسلم نہیں بلکہ ٹرمپ جیسے
لوگ تھے۔ افغانستان میں صرف اس بات پر جارحیت کرکے قبضہ کرلینا کہ اس نے
ایک شخص کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا ، کیا یہی عمل اس نے اپنے باٖغٰی ویکی
لیکس کے بانی جولین اسانش اور اس کے احباب کے خلاف اختیار کیا جس نے امریکہ
کے چہرے سے نقاب اتار کر پوری دنیا کے سامنے امریکہ کو برہنہ کردیا ، جولین
اسانش بھی مسلمان نہیں ہے ۔ پاکستان میں بلیک واٹر کی سرگرمیاں اور شمالی
مغربی علاقوں ، سمیت یمن و دیگر ممالک میں ڈرون حملے امریکہ کر رہا ہے۔پھر
کیا امریکہ کی ان پرتشدد کاروائیوں کے بعد بھی اگر ایک صنف نازک یہ کہتی ہے
کہ "سلام۔میں امن کا پیغام لائی ہوں "تو یہ اتنا بڑا جرم ہوگیا کہ اسے
تہذیب یافتہ ، اعلی تعلیم یافتہ ، نام نہاد سپر پاور ملک کے صدراتی امیدوار
صرف اس لئے ریلی سے باہر نکال دیتے ہیں کہ کیونکہ اس نے خاموش رہنے کے
باوجود دنیا میں ایک پیغام دے دیا کہ اسلام سلامتی کا دین ہے ، اسلام کے
نام پر انتہا پسندی ، دہشت گردی اور خانہ جنگیوں کا ذمے دار کوئی اسلامی
ملک نہیں بلکہ ٹرمپ جیسے لوگ ہیں ، بش جیسے امریکی صدر ہیں جو نائن الیون
کے بعد صلیبی جنگوں کا اعلان کرتے ہیں۔ہم امت مسلمہ اسلام کے داعی ہیں اور
ہم اسلام کے ذریعے امن کا پیغام پھیلانا چاہتے ہیں ، امریکہ کو پرتشدد
کاروائیوں اور مسلم ممالک پر قبضے کے جنون سے باز رکھنے کیلئے روز حامد کی
خاموش تحریر پھر دنیا بھر کے سامنے لانا چاہتے ہیں کہ " سلام ۔میں امن کا
پیغام لائی ہوں۔" |