کیا مصطفی کمال پھر سے کمال کر دیکھائے گے
(mohsin shaikh, hyderabad sindh)
|
کیا مصطفی کمال پھر سے کمال کر دیکھائے گے |
|
سابق سٹی ناظم مصطفٰی کمال اب کہتے ہیں کہ
میں سچ بولو ں گا۔ پارٹی میں اب کوئی بڑا نام نہیں ہے۔ سب کو شمولیت کی
دعوت دیتا ہوں۔ مصطفی کمال اب ایم کیو ایم سے الگ ہوکر سچ بول رہے ہے۔ تو
کیا مصطفی کمال ایم کیو ایم میں شامل رہے کر جھوٹ بولتے تھے کیا؟ مصطفی
کمال کا اب سچ بولنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ جو فیصلہ مصطفی کمال نے اب کیا ہے۔
یہی فیصلہ مصطفی کمال نے پہلے کیوں نہیں کیا۔ کیا پہلے مصطفی کمال کو ایم
کیو ایم نے زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا کیا؟ ایم کیو ایم نے ہی مصطفی کمال کو
شہرت کی بلندیوں میں پہنچایا تھا ایم کیو ایم نے مشرف دور میں مصطفی کمال
کو کراچی کا سٹی ناظم مقرر کیا قائد تحریک الطاف حسین نے اپنی دانشمندی سے
مصطفی کمال کو ہدایت دیتے تھے۔ اور انہی ہدایت کی بدولت کمال صاحب نے کمال
کے کام کیے تھے۔ پھر عوام جاننے لگی کہ ہاں ایک مصطفی کمال بھی تھے۔ جنہیں
متحدہ قومی موومنٹ نے شہر قائد کا ناظم مقرر کیا تھا۔ اور اب اچانک کمال
صاحب نے کمال سے زوال کے کام شروع کردیے۔
مصطفٰی کمال نے ایک نامور پارٹی کو چھوڑ کر ایک اپنی ایسی سیاسی پارٹی
بنائی ہے۔ جو اب تک نا معلوم پارٹی ہے۔ اور نامور پارٹی سے نا معلوم پارٹی
کے چرچے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بڑے مشہور ہورہے ہیں۔ سنا ہے نئی نا معلوم
پارٹی بننے کے بعد ہزاروں کے حساب سے دنیا بھر سے کالز آرہی ہیں۔ متحدہ
قومی موومنٹ کے مخالفین نے نا معلوم پارٹی کو جوائن کرنے کی یقین دہانی
کرارہے ہیں۔ یقین دہانی میں دھوکہ بھی ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نئی
نا معلوم پارٹی کو عوام کتنا فالو کرتی ہیں۔ بےشک زندگی موت ذلت عزت اللہ
کے ہاتھ میں ہے۔ مصطفی کمال کہتے ہیں کہ انکی نئی پارٹی نئے نام سے ہوگی۔
یہ قومی سیاسی پارٹی ہوگی۔ علاقائی پارٹی نہیں ہوگی۔ ابھی تو اس نا معلوم
پارٹی نے علاقائی پارٹی کی اہمیت بھی اختیار نہیں کی سیاسی پارٹی کا درجہ
حاصل کرنے میں نا معلوم پارٹی کو ابھی وقت درکار ہے۔ سنا ہے کہ متحدہ قومی
موومنٹ کے بعض سنئیر رہنمائوں سے مصطفی کمال سے رابطے میں ہیں۔ اور بعض
سنئیر رہنما بھی مصطفی کمال کو جوائین کرنے کو تیار بیٹھے ہیں وقت کے ساتھ
یہ بھی سامنے آجائے گا۔
انیس قائم خانی ڈاکٹر صغیر احمد وسیم آفتاب افتخار عالم اور سیاسی منظر
نامے سے غائب رہنے والے رضا ہارون بھی مصطفی کمال کے دست بازو بن چکے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر صغیر احمد نے بھی ایم کیو ایم
سے راستے جدا کرلیے۔ اور ایم کیو ایم پر الزامات کی بارش کررہے ہیں۔ ڈاکٹر
صغیر احمد نے میڈیا پر روتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین کارکنوں کو ٹشو پیپر کی
طرح استعمال کرتے ہیں۔ وہ مہاجروں کے قاتل ہیں۔ اگر متحدہ قومی موومنٹ
قاتلوں کی جماعت ہیں۔ تو ڈاکٹر صغیر احمد نے 28 سال متحدہ قومی موومنٹ سے
تعلق کیوں قائم رکھا جب مہاجروں کا قتل عام ہورہا تھا تو ڈاکٹر صغیر کو اس
وقت ایم کیو ایم کو چھوڑنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ اس وقت ڈاکٹر صغیر احمد
کا ضمیر کیوں نہیں جاگا۔ اس وقت ڈاکٹر صغیر اور مصطفی کمال سمیت جو اب ایم
کیو ایم سے جدا ہورہے ہیں۔ کونسی مصلحت کا شکار تھے۔ ڈاکٹر صغیر احمد کو
تین بار صوبائی وزارتوں کے عہدے بھی تو ایک نامور پارٹی کی بدو لت ملے تھے۔
انہیں نہ صرف عہدے وزارتیں ملی بلکہ شہرت دولت بھی ایک نامور پارٹی سے ہی
ملی۔ اس نامور پارٹی سے پہلے انہیں کون جانتا تھا۔
مصطفی کمال کی حالیہ پریس کانفرنس کے حوالے سے اہم شخصیت اور اداروں کی
خاموشی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ کچھ تو ہے۔ جسکی پردہ داری ہیں۔ پردہ جو اٹھ
گیا تو بھید کھل جائے گا عوام کو ہر روز ایک نئی کہانی سنائی جاتی ہے۔ پھر
اس کہانی کو نیا موڑ دیے بغیر نیا محاذ کھول دیا جاتا ہے۔ میڈیا موقع کی
تاک میں رہتا ہے۔ جیسے ہی کوئی نئی کہانی شروع کی جاتی ہے۔ میڈیا اس کہانی
کو بڑی دھوم دھام سے نشر کرتا ہے اور عوام کو نئی الجھن میں الجھا دیا جاتا
ہے۔ مصطفی کمال کی متحدہ قومی موومنٹ سے علہیدگی ایم کیو ایم پر ایک بہت
بڑا حملہ ہے۔ مصطفی کمال جو چند عرصہ دہئی میں رہنے کے بعد اچانک دبئی سے
کراچی آکر اپنی پارٹی بنانے کا جو اعلان کیا ہے۔ اس پر مصطفی کمال کو باغی
کہا جائے یہ پھر کچھ اور؟ کیا مصطفی کمال کی نئی پارٹی کراچی کو کرچی کرچی
ہونے سے بچا لے گی۔ کیا مصطفی کمال کی نئی پارٹی ماضی کی طرح پھر سے کمال
کر دکھائے گی۔؟ جو سیاسی مخالفین یہ باتیں کررہے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ
ٹوٹ چکی ہیں۔ تو بھائی لوگوں متحدہ قومی موومنٹ کو باہر سے کوئی خطرہ نہیں
ہے۔ خطرہ اندر سے ہے۔ یہ سازشیش تو ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ سے باغی ہونے والے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں بڑی
تبدیلی آرہی ہیں۔ تو بھائی لوگوں کیا واقعی اپنی جماعت سے بغاوت کرکے الگ
پارٹی بنانے سے ملک میں تبدیلی آجاتی ہیں۔ یہ لوگ بغاوت کرنے کے بجائے اپنی
جماعت میں تبدیلی نہیں لاسکے تو بھلا اپنی الگ جماعت بنانے سے ملک میں
تبدیلی کیسے لا سکتے ہیں۔ اب جیسے دیکھوں اپنی پارٹی سے جدا ہوکر نئی پارٹی
بنا کر باغیوں کو بھرتی کرکے کہہ دیتے ہیں کہ ملک میں تبدیلی آرہی ہیں۔ لو
بھلا یہ کیسی تبدیلی ہوتی ہیں۔ لیکن مصطفی کمال کا حقیقی کے رہنما آفاق
احمد سے موازنہ نہ کیا جائے۔ کیونکہ مصطفی کمال اور آفاق احمد میں زمین و
آسمان کا فرق ہے۔ مصطفی کمال کی کمالیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 23 مارچ
کو اس نا معلوم پارٹی کے نام کا اعلان ہوگا۔ نیوز سے معلوم ہوا ہے کہ پارٹی
کے تین ناموں پر غور ہورہا ہے۔ سب سے اچھا نام پارٹی کا قومی موومنٹ کا نام
اچھا رہے گا۔ یعنی اب متحدہ قومی موومنٹ سے قومی موومنٹ یا نیشنل قومی
موومنٹ بن رہی ہیں۔ مجھے سب سے اچھی بات جو نامعلوم پارٹی کی لگی وہ یہ ہے
کہ مصطفی کمال نے اپنی پارٹی کا جھنڈا الگ نہیں بنایا بلکہ پاکستان کا سبز
ہلالی پرچم ہی بنایا ہیں۔ اور سبز ہلالی پرچم ہی ہماری جان شان اور پہچان
ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ مائنس ون باہر سے نہیں اندر سے ہورہی ہیں۔ میرا
قارئین سے سوال ہیں کہ کیا ایم کیو ایم ایم اندر سے مائنس ون ہونے کے بعد
مصطفٰی کمال کی پارٹی کو کراچی میں مقبولیت حاصل ہوسکے گی یا نہیں؟ اب
دیکھنا یہ ہے کہ یہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ |
|