مِہر ہر دم ستم مردم
(Mehr Liaqat Gunpal, Multan)
داستان نمک حلالوں کی |
|
|
مِہر ہر دم ستم مردم
داستان نمک حلالوں کی
تم نمک کا حق ادار کرو اور میں مٹی کا حق ادا کروں گا۔
جی ہاں ۔ دوستو
اپنی نبظوں پہ ھاتھ رکھ کے دیکھو ھم میں سے کتنے ھیں جو اپنے مفادات کے لیے
اپنی اغراض کے لیے
اپنے آقاوں کے لیے
صرف نمک کا حق ادا کرتے ہیں
اور اپنی مٹی کے حق کو جوتی کی نوک پر لکھتے ھیں۔
ھم خون کے رشتوں پر مان کرنے والے لوگ من کے رشتوں کو نہیں مانتے۔
من کا رشتہ ھمارے لیے ایک اپرادھی شودر کی مانند ھے جس کی لاش جلا کر اس کی
راکھ تک
گنگا میں نہیں بہائی جاتی بلکہ کسی گندے نالے کی نظر کر دی جاتی ھے۔
مِہربانو۔ مٹی کا حق صرف یہی نہی ھوتا کہ آپ وطن کی حفاظت کرتے ھوئے جان دے
دیں بلکہ دھرتی ماں کی مٹی پر بسنے والے ھر انسان سے نا انصافی اور ظلم کے
خلاف لڑنا بھی مٹی کا حق ادا کرنا ھے۔ اس پر پائے جانے والے ہر غدار کو تہہ
تیغ کرنا بھی مٹی کا حق ادا کرنے میں آتا ھے۔
میں سمجتا ھوں انسانیت کی نماز منافقت کی نماز سے کروڑوں درجہ بہتر ھے۔اور
ھم ھیں کہ اپنے رہنماوں کی محبت میں اتنے جوشیلے ھو چکے ھیں کہ اپن آنکھوں
پر پٹی باندھ کر اندھی امید پر زندہ ھیں۔
سچ ھے کہ محبت کی سب سے بری بات یہ ھے کہ یہ گھٹیا لوگوں سے بھی ھو جاتی
ھے۔
ھم یہ ماننے کے لیے تیار ھی نھیں کہ ھمارے گھٹنوں میں درد اس لیے رہتا ھے
کہ ھمارے ھیرو ھی ھمارے جوڑوں میں بیٹھ گئے ھیں۔
خواب خرگوش میں سونے والو اپنی نیند کو خواہ مخواہ بدنام مت کیا کرو۔ اصل
موت تو ھمیں صبح کو جاگتے وقت آتی ھے۔ اور اسی لیے ھم ایسی صبح کے ھونے کا
شوق ھی نہیں رکھتے۔
ھم ایسی بے حس قوم ھیں جو صرف جنازوں پر اکٹھے ھوتی ھے مگر اس میں بھی کلمہ
شہادت بلند آواز سے پڑھتے ھوئے ھماری جان جاتی ھے۔
میں 2009 میں پولینڈ کے شہر وارسا اپنے ذاتی دورے پر گیا۔
میری ایک دوست کی چرچ میں شادی تھی۔ اس نے مجھے دعوت دے رکھی تھی۔
شادی کے بعد میں نے نکاح پڑھوانے والے پادری سے پوچھا کہ ھم مسلمان تو نکاح
کے بعد دلہن کے لیے حق مِہر میں بڑھ چڑھ کر جتنا ھو سکے روپیہ پیسہ یا
جائیداد میں حصہ تک لکھواتے ھیں مگر آپ نے لڑکے سے کوئی حق مِہر نہیں
لکھوایا۔
پادری نے ٹھوک بجا کر میری گال پر تھپکی دیتے ھوے کہا۔
مِہر آپ کس معاشرے کی بات کرتے ھو جہاں تمارے ملک میں جہیز کے لیے مرد بھی
بک جاتے ھیں۔
جی جی قدردانوں ۔ ھم بکاو قوم کسی بھی چیز کے لیے بک جاتے ھیں۔ نمک کا حق
ادا کرنے کے لیے ھم مٹی کا حق بھول جاتے ھیں۔
پچھلے جون 2015 میں گلگت بلتستان اسمبلی کے الیکشن کے موقع پر ایک تصادم کے
نتیجے میں کافی لوگ زخمی ھوئے جس میں سیاسی جماعتوں کے ورکرز اور کچھ پولیس
کے اہلکار بھی تھے۔
چوتھی جماعت کا طالب علم 8 سالہ زوہیب اللہ اور70 سالہ بزرگ حیدر ولی خان
ولد مصرخان بھی اس الیکشن کو دیکھنے گئے تھے۔
پولیس چپکے سے دیگر لوگوں سمیت ان دونوں پر بھی دھشت گردی کی دفعات لگا کر
ایف آی آر درج کر کے خاموش ھو جاتی ھے۔ یہ معصوم بچہ زوہیب اللہ باپ کے
ھمراہ تھانے میں گرفتاری دینے جاتا ھے مگر پولیس انھیں گرفتار نہیں کرتی
اور نو ماہ بعد اخبار اشہار کے ذریعے انھیں اشہتاری قرار دے دیتی ھے۔
گلگت سے ھی تعلق رکھن والے پی ٹی آئی کے رہنما میرے دوست ڈاکٹرمحمد زماں
صاحب پولیس کی اس غنڈہ گردی پر حرکت میں آتے ھیں ۔ وہ میڈیا اور انسانی
حقوق کی تنظمیوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ھیں۔
ایک شور اٹھتا ھے اور اس معصوم دہشت گرد کی آواز پورے پاکستان کے کانوں تک
جا پہنچتی ھے۔
یہ معصوم ملزم باپ کے ھمراہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں حاضر ھوتا ھے
جہاں پر جج راجہ شہباز اسے بے گناہ قرار دے کر بری کر دیتا ھے اور ڈی ایس
پی رحمت کو جھوٹا مقدمہ درج کرنے پر ھتھکڑی لگوا دیتا ھے۔
یہ وہی جج ھے جس نے الطاف حسین کو چھیاسی سال قید کی سزا سنای تھی اور جیو
چینل کے سربراہ میر شکیل کی جائیداد قرقی کے بھی آرڈر دیے تھے۔
پولیس نے نمک کا حق ادا کر دیا اور جج نے مٹی کا۔
مِہر آپ کو نمک حلالوں اور مٹی حلالوں کی اپنی ذاتی کہانی جلد قسط وار سناے
گا جو میری ذات پر گزری ھے اور میں ھی اس کا عینی شاہد ھوں کہ کس طرح پولیس
عدلیہ اور حکومتیں ایک دوسرے کی نمک حلالی پر انسانیت کو صفحہ ھستی سے نگل
رہی ھیں۔
اور حد یہ کہ ان نمک حلالوں کو لعنت ملامت اور سزا دینے والے خود ان کے
پیٹی بھائی بنے ھوئے ھیں اور یہ لوگ عدلیہ کے چیف جسٹس ھو کر با عزت
رئیٹائر ھو گئے ھیں یا اس وقت حاضر معزز جج ھیں، پولیس میں اعلی عہدوں پر
ھیں اور حتی کہ ملک کے صدر بنتے آ رھے ھیں۔
1999 میں نواز شریف جنرل مشرف کو غدار تصور کرتے ھوے اسے آرمی چیف کے عہدے
سے ھٹانے کی کوشش کرتا ھے مگر خود دھر لیا جاتا ھے۔
دونوں بھائیوں نواز اور شہباز کو طیارہ سازش کیس میں عمر قید کی سزا ھوتی
ھے۔ مگر ابھی ڈیڑھ سال نہیں گذرتا کہ ان پیدایشی بادشاہوں کو جیل کے مچھر
برداشت نہیں ھوتے۔
یہ کلثوم نواز کو مشرف کے پاس بھیجتے ھیں۔ اور پھر مشرف دونوں بھائیوں کے
ساتھ دس سالہ معاہدہ کرتا ھے کہ وہ ملک واپس نھیں آئیں گے۔ سعودی آقاوں کا
نمک حلال کرتے ھوئے دونوں نازک اندام بادشاہوں کو جیل سے نکال کر سعودیہ
بھیج دیتا ھے۔
نمک کا حق مشرف بھی ادا کر دیتا ھے انھیں باہر بھیج کر۔۔۔۔
اورنمک کا حق نواز اور شہباز بھی ادا کر دیتے ھیں
یہ سات سال تک سعودیہ اور انگلینڈ میں اپنی بزنس ایمپائر بنانے میں مصروف
ھو کر پاکستانیوں کو مڑ کر نہیں دیکھتے۔
اور اس دوران یہ سب نمک حلالی مشرف اور نورا گروپ ایک دوسرے کو نہیں
چھیڑتے۔
ایک 1999 سے 2008 تک ملک پر حکمرانی کرتا ھے تو دوسری طرف دونوں بھائی غیر
ممالک میں قارونی خزانے کی ایمپائر پر حکمرانی کرتے ھیں۔
ھاں مگر مٹی کا حق نہ نورا برادرز کو یاد رہتا ھے اور نہ ھی مشرف کو۔
اگر مٹی کا حق ادا کرتے تو نہ نورا گروپ پاکستانیوں کو تنہا چھوڑ کر جیل سے
بھاگتا اور نہ جنرل مشرف اپنی حکومت پکی کرنے کے لیے انھیں ملک سے بھاگنے
کا موقع دیتا۔
پھر 2008 آتا ھے۔ ۔
اب زرداری اور نورا برادرز کا معاہدہ ھوتا ھے کہ اس دفعہ پیپلز پارٹی کو
وفاق میں حکومت دے دی جائے اور بدلے میں نورا لیگ کو وہ پنجاب میں حکومت
کرنے دیتے ھیں۔
اور پانچ سال کے بعد مرکز میں نورا لیگ کے نورا نواز کو وزیر اعظم بنانے کا
مک مکا کر لیا جاتا ھے۔
نورا برادرز سزا یافتہ ھونے کی وجہ سے نہ الیکشن لڑ سکتے تھے نہ وزیر اعلی
اور وزیراعظم بن سکتے ھیں۔
زرداری حکومت حرکت میں آتی ھے اور سپریم کورٹ میں رٹ دائر کرتے ھیں کہ
جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں نورا برادرز کی نہ صرف سزا معاف کی جائے بلکہ
بعد میں اسمبلی سے بل پاس کروا لیتے ھیں کہ تیسری مرتبہ وزیر اعلی اور وزیر
اعظم کے عہدوں کی اجازت عام ھے سب کے لیے۔
جو سپریم کورٹ نورا برادرز کو عمر قید کی سزا دے چکی تھی وہی ججز کالی پٹی
آنکھوں پر باندھ کر اسی قلم سے دوبارہ لکھتے ھیں کہ یہ دونوں بہشتی ٹولہ
بھائی بے گناہ تھے اور سزائیں ختم کر دی گئیں۔
زرداری نے بھی نمک حلال کیا اور سپریم کورٹ نے بھی نمک حلال کیا۔
اور پھر کانے دجال چوہدری افتخار کو اپنے عہدے پر بحال کرنے سے پہلے نواز
شریف اس سے وعدہ لیتا ھے کہ اگر نورا اسے بحال کرا دے تو منصف اعظم بدلے
میں نمک حلال کرتے ھوئے نہ صرف نورا فیملی کے خلاف نیب میں تمام مقدمات ختم
کرواے گا بلکہ زرداری کے مقدمات بھی ختم کر دے گا۔
پھر چوہدری افتخار نمک کا حق ادا کرتا ھے۔ بحال ھوتے ھیں نورا فیملی کے
تمام مقدمات پر پہلے سٹے آرڈر جاری کرتا ھے اور پھر ایک ایک کر کے انھیں
ختم کر دیتا ھے۔ اور ایسا ھی وہ زرداری کے سوئٹزرلینڈ والے مقدمہ میں کرتا
ھے۔
زرداری اور نورا برادرز ""ونڈ کھائئے تے کھنڈ کھائئے"" کے فارمولہ پر من و
عن عمل کرتے ھیں۔
بھاڑ میں گئی عوام جن کا پیسہ نورے اور زرداری نے کھایا۔
بھاڑ میں گئے بنک جن کے اربوں روپے یہ نمک حلال کھا چکے ھیں۔
سابقہ آرمی چیف جنرل کیانی کو ایکسٹنشن دی جاتی ھے۔ اس کے بھائیوں کو اربوں
روپے کے پروجیکٹس میں شہباز شریف اور ملک ریاض حصہ دار بناتے ھیں۔
کیانی صاحب کو ملک ریاض بحریہ ٹاون میں کم و بیش ایک ارب روپے کا گھر بنا
کر دیتے ھیں اور آسٹریلیا میں پراپرٹی پرچیز میں اپنا پارٹنر بنا لیتے ھیں۔
یوں کیانی صاحب نے بطور آرمی چیف بھی مٹی کا حق ادا کرنے کی بجائے اپنے
آقاوں کا نمک حلال کیا اور بدلے میں نمک کی قیمت بھی خوب وصول کی۔
یہی چوہدری افتخار ھے جس کا بیٹا ارسلان ملک ریاض سے کروڑوں روپے رشوت کھا
لیتا ھے کہ بدلے میں ملک ریاض کے خلاف تمام مقدمات اپنے باپ کے ذریعے ختم
کروا دے گا۔
جب مزید رقم لینے کے لیے ارسلان بلیک میلنگ کرتا ھے تو ملک ریاض ارسلان
سمیت تمام میڈیا کو دی گئی رشوت کا بھانڈہ پھوڑ دیتا ھے۔ کسی میں جرات نہیں
ھوتی کہ ملک ریاض کو جھوٹا ثابت کر سکے۔
اور پھر یہی عدالت اور میڈیا اپنی نمک حلالی ثابت کرتے ھیں۔
عدالت کا چیف جسٹس اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے اتنی زیادہ نمک حلالی کر جاتا
ھے کہ بجائے بیٹے اور میڈیا کے اینکرز کے خلاف سو موٹو ایکشن لینے کے اندر
کھاتے سب کھوہ کھاتے میں ڈال کر ان کا پیٹی بھائی ھونے کا حق ادا کرتا ھے۔
ارسلان بھی بچ جاتا ھے۔ میڈیا بھی اور ملک ریاض بھی اور بدلے میں
جا کر اسلام آباد بحریہ ٹاوں میں دیکھ لو چوھدری افتخار کا اربوں روپے کا
بنگلہ جو ملک ریاض اسے گفٹ کر دیتا ھے۔
اور پھر 2013 آ جاتا ھے۔
جنرل کیانی آرمی چیف ھوتا ھے۔ اور چوھدری افتخار عدالت عالیہ کا چیف۔
دونوں سر جوڑتے ھیں اور پھر نورا برادرز سمیت تمام بنک ڈیفالٹرز سزا یافتہ
اور اربوں کے غبن میں ملوث سیاسداتوں کو آرٹیکل 62 اینڈ 63 کے شکنجے سے صاف
بچا کر الیکشن لڑنے کی کلین چٹ جاری کر دی جاتی ھے۔
اب نورا برادرز ٹیم اور چوھدری افتخار جنرل مشرف سے بدلہ لینے کی ٹھان لیتے
ھیں۔
ٹی وی پر آ کر جنرل کو آرٹیکل چھ کے تحت پھانسی کی سزا کے بلند و بانگ دعوے
کیئے جاتے ھیں۔
نواز شرہف ۔ اس کے تمام خواجے ماجے ساجھے چوھدری نثار خواجہ آصف ، خواجہ
سعد رفیق اور احسن اقبال وغیرہ طبل جنگ بجاتے ھیں کہ مشرف کو پھانسی کے
تختے پر نہ لٹکایا گیا تو وہ سیاست ھی چھوڑ دیں گے۔
مگر اندر کھاتے وہی چوھدری افتخار نواز شریف کے کہنے پر جنرل مشرف سے رابطہ
کرتا ھے اور اسے آرٹیکل چھ سے نجات دینے کے قانونی مشورے عین کارِ حق سمجھ
کر دیتا رہتا ھے اور پھر
مشرف عدالتون میں حاصری سے بھی استثنا لے لیتا ھے اور جب اس کی پیٹیشن
سپریم کورٹ میں جاتی ھے کہ اسے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے تو عدالت
عالیہ کے آج کے موجودہ چیف جسٹس حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل سے پوچھتے ھیں
کہ کیا حکومت بھی چاھتی ھے کہ مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے تو
حکومتی وکیل محترم اٹارنی جنرل جواب دیتا ھے کہ عدالت خود فیصلہ کرے
جس پر چیف جسٹس اسے جواب دیتے ھیں کہ آپ حکومت والے عدالت کے کندھوں پر رکھ
کر بندوق کیوں چلانا چاہتے ھیں۔ اگر آپ مشرف کو ملک سے جانے کی اجازت دینا
چاہتے تو صاف کہیں ورنہ عدالت کو کہہ دیں کہ اسے نہ جانے دیا جائے۔
اس پر حکومتی وکیل مشرف کے باہر جانے پر کوئی اعتراض نھیں کرتا اور پھر
حکومت مشرف کا نام راتوں رات ای سی ایل سے خارج کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری
کرتی ھے اور پھانسی گھاٹ پر پہنچے والا مشرف حکومت کے پروٹوکول میں رات 3
بج کر 55 منٹ پر ایرپورٹ پہنچ کر ھمیشہ کے لیے غیر ملک روانہ ھو جاتا ھے۔
مشرف جاتے جاتے قوم کو ایک زور دار تھپڑ کے ذریعے پیغام دے جاتا ھے کہ
اس دھرتی ماں پر مک مکا ھی ماھان ھے۔ دھنی ھے۔ فاتح ھے۔
نمک کا حق جیت گیا
مٹی کا حق ھار گیا
مِہر اور کوئی حق تو ادا کرنے سے رہا سوائے اپنے قلم کی نمک حلالی کے۔
مگر ایسا ھوتا تو میں بھی ان نمک حلالوں کے حق میں لکھتا۔
الحمد للہ تا حیات میرا قلم مٹی کے حق کے لیے لکھے گا ، نمک کے حق کے لیے
نہیں۔
رب راکھا |
|