1968 میں بھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘
کی بنیاد رکھی جس کا سب سے بڑا مقصد پاکستان کے خلاف کام کرنا تھا اور وہ
اُس نے کیا۔مشرقی پاکستان جہاں تین اطراف سے بھارت سے گھرا ہوا تھا وہیں
مغربی پاکستان سے ہزار میل کے فاصلے پر تھا اور بھارت کے لیے ایک آسان ہدف
تھا لہٰذا اُس نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور مشرقی پاکستان میں مغربی
پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانا شروع کر دی۔خود بھارتی لکھنے والوں نے اس بات
کا اعتراف کیا کہ بھارت نے 1962-63 سے شیخ مجیب سے تعلقات بڑھانے شروع کر
دیے تھے اور اُس نے بھارتی آقاؤں کی ایماء پر اس مشن کو بڑی تندہی سے سر
انجام دیا۔مشرقی پاکستان میں سوچے سمجھے منصوبے اور سازش کے تحت حالات کو
اس نہج پر لایا گیاکہ واپسی کے راستے مسدود کر دیے گئے ۔بھارت عملی طور پر
مشرقی پاکستان میں سرگرم عمل ہو گیا اُس نے اپنے سرحدی علاقوں میں فسادیوں
کے لیے کیمپ قائم کیے جہاں اُس نے اُن کی تربیت کی ،انہیں فنڈز مہیا کیے،
اسلحہ دیا اور پھر انہیں مشرقی پاکستان بھیجا جاتا۔ یہ کیمپ مغربی
بنگال،اروناچل پردیش،بہار،آسام،ناگا لینڈ،میزو رام اور تری پورہ میں
تھے۔مکتی با ہنی کے پاس ڈکوٹا جہاز بھی تھے جو کہ ظاہر ہے انہیں بیرونی
امداد ہی کے ذریعے حاصل ہوئے اور یہ بیرونی امداد انہیں اپنے آقا یعنی
بھارت سرکار سے مل رہی تھی اور اتنی مقدار میں مل رہی تھی کہ انہیں کسی اور
کی طرف دیکھنا بھی نہیں پڑ رہا تھا۔بھارت ہر ماہ بڑی باقاعدگی سے مکتی با
ہنی کے پانچ ہزار تربیت یافتہ دہشت گرد مشرقی پاکستان میں داخل کرواتا رہا
یہ شاید کسی ملک میں موجودہ تاریخ کی سب سے بڑی بیرونی مداخلت ہے جو
انتہائی کھل کر کی گئی۔بھارت اب بھی اسی طرز عمل پر قائم ہے اور بلوچستان ،فاٹا
اور اب تو کراچی میں ایم کیو ایم کے ذریعے اُس کی مداخلت کے کھلے شواہد مل
رہے ہیں اُس نے مشرقی پاکستان میں اسی طرح نفرت اور دہشت گرد ی کا بیج بویا
تھا۔مکتی بانہی کے ان دہشت گردوں نے مشرقی پاکستان کے مختلف شہروں اور
دیہات میں قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا اور نہ صرف غیر
بنگالی پاکستانیوں کی املاک لوٹیں بلکہ سرکاری املاک وعمارات اور بینکوں کو
بھی لوٹا اور نقصان پہنچایا۔ عام لوگوں کا یوں قتل عام کیا کہ ایسے دشمن
ملک میں بھی نہیں ہوتاآج بھی ان واقعات کے چشم دید گواہ زندہ اور موجودہیں۔
کچھ واقعات تو تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہوچکے ہیں اور یقیناًبہت سارے لوگ
ایسے تھے جوبے نام ونشان مارے گئے اور ان کو یونہی راستوں میں چھوڑ دیاگیا۔
بھارت نے مشرقی پاکستان میں جو قتل عام کیا اگرچہ اُس وقت اُس کا اعتراف
نہیں کیا بلکہ اُسے پاک فوج کے کھاتے میں ڈال دیا لیکن اس کے کئی اعلی ا
ہلکاروں نے اپنی کتابوں میں اسے اپنے کارناموں اور کامیابی کے طور پر ضرور
بیان کیا مثلاََ میجر جنرل سخونت سنگھ نے اپنی کتاب Indain Wars Since
Independenceمیں لکھا کہ بھارت تیس اپریل 1971تک مکتی باہنی کو املاک کو
نقصان پہنچانے،اور لوگوں کو اکسانے کے لئے تربیت اور لوٹ مار اور قتل و
غارت کے لئے ہتھیارفراہم کرتا رہا ، اس کے بعد تو وہ ظا ہر ہے کہ کھل کر
سامنے آگیا۔ اسی طرح ’’را‘‘ کے ایک سابق افسر یادیو نے اعتراف کیا کہ چودہ
اپریل 1971کو کلکتہ میں بنگلہ دیش کی عا رضی حکومت قائم کی گئی اور
دارلحکومت کا نام مجیب نگر رکھا گیا۔ ایسے ہی کئی اعترافات کئی عام
بنگالیوں نے کیے کہ کیسے بھارت کے تربیت یافتہ مکتی با ہنی کے غنڈے سر عام
وحشت وبربر یت کا بازار گرم رکھتے تھے۔ کھلنا سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی
ایک عینی شاہد ایم اے غفور ولد جوناب علی کا کہنا ہے کہ کریسنٹ جوٹ ملزخالص
پور اور سٹار جوٹ ملز چندی محل میں پانچ ہزار معصوم افراد کو مارا گیا ان
کے گھر تباہ کیے گئے اور جلادیے گئے۔محمدپور کے محمد عزیز الرحمن ایڈوکیٹ
کا کہنا ہے کہ یونین کونسل ٹھاکر گاوءں دیناج پور میں مکتی بانہی کے دہشت
گردوں نے نہ صرف گاوءں کے گھر جلائے بلکہ نوجوان لڑکیوں سے بد سلوکی کی گئی
ظلم کی انتہا یہاں تک کہ حاملہ خو اتین کو مارا گیا اور ان کے بچوں کے ٹکڑے
ٹکڑے کر کے پھینک دیا گیا۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن حیرت ہے کہ حسینہ واجد کی
حکومت نے ایسا کرنے والوں پر دہشت گردی کا نہ کوئی مقدمہ چلا یا اور نہ ہی
کوئی پھانسی دی ۔میمن سنگھ کے گاؤں کمال پور کے عبدالحمیدولدطیب الدین کے
مطابق میمن سنگھ شہر میں لوٹ مار، قتل، بینک ڈکیتی اور دوسرے جرائم کے لئے
اسلحہ اور تربیت دی گئی اور لوگوں کویہ سب کچھ کرنے پر مجبور کیاگیا۔ ضلع
بوگرہ کے گاؤں بٹ گڑھی کے مظفر حسین کے مطابق بوگرہ میں سٹیٹ بینک
سے6.7کروڑ روپے کی ڈکیتی،املاک کی لوٹ مار، پولیس سٹیشن سے اسلحے کی لوٹ
اور17فوجی اہلکاروں اور بارہ دوسرے افراد کا قتل بھی مکتی با ہنی نے کیا۔یہ
اُن ہزاروں واقعات میں سے صرف چند ایک ہیں جو مکتی با ہنی کے حوالے سے منظر
عام پر آئے۔معلوم اعداد شمار کے مطابق کم از کم ایک لاکھ سے زیادہ ہلاکتیں
ان پر ثابت ہیں۔لیکن انتہائی دیدہ دلیری اور بھارتی پر وپیگنڈے کے باعث
ایسے سارے الزامات پاک فوج پر رکھ دیے گئے۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے
اس وقت کی حکومت اور ریاست کے ساتھ وفاداری کے جرم میں اپنے ہی شہریوں کو
پھانسیوں پر لٹکایا لیکن یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اسے نظرنہ آئی ۔بنگلہ
دیش اور بھارت نے جس طرح پاک فوج کو بدنام کرنے کی عالمی مہم چلائی اس کی
تحقیق کیے بغیر یہ الزامات پاک فوج پر لگادیے گئے اور اسے مجرم بنا کر پیش
کیا گیا جب کہ اُس کی کاروائیاں ظاہر ہے ملک کے باغیوں کے خلاف تھیں اور
دنیا کی کوئی فوج بھی باغیوں اور غداروں کو پھو لوں کے ہار نہیں پہناتی ان
کے خلاف ضرورت کے وقت مسلح کاروائی ہی کرتی ہے اور پاک فوج کو تو بنگلہ دیش
میں بھارت اور بھارت کی تربیت یافتہ مکتی با ہنی سے سامنا تھا جو اس نے کیا
لیکن نفرت کا جو بیج بھارت نے بویا تھا اُس کا مقابلہ ممکن نہیں تھا اور
پھر یہ بھی کیا گیا کہ بھارت نے بنگالی، بہاری اور غیر بنگالی مسلما نوں کو
گاجر مولی کی طرح کا ٹا ،پاکستان کو دولخت کیا، ایک خودمختار ملک کے خلاف
سازش کی، اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی، اس کے خلاف اس ہی کے لوگوں
کو استعمال کر کے اور خود اپنی بہت بڑی فوج کے ساتھ اس پر چڑھ دوڑا ۔اگر
مرکزی حکومت اور مشرقی پاکستان میں کچھ اختلافات تھے بھی تو اس میں مداخلت
کا حق کسی دوسرے کو نہیں تھا تو آخر کیوں نہ ان تمام جرائم کی بنیاد پر
بھارت سے عالمی سطح پر باز پرس کی جائے کیوں نہ جنگی جرائم کا مقدمہ بھارت
پر قائم کیا جائے اور سزائیں مکتی با ہنی کے غنڈہ گردوں کو دی جائیں اس کے
بارے میں د نیا کو با خبر کرنا ضرور ی ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا
ہے اور الگ اسلامی ملک ہے لیکن تاریخ کی درستگی بھی ضروری ہے اورمجرم کی
پہچان بھی اور آئندہ کے لیے اُس کا راستہ بھی روکنا ہے، چاہے وہ بلوچستان
میں ہو فاٹا میں ہو یا پھر کراچی میں۔ اس نے اگر اُس وقت ایک سیاسی جماعت
عوامی لیگ کو استعمال کیا تو اب کسی اور جماعت یا گروہ کو’’ را‘‘سے تعلقات
استوار کرنے سے ہر صورت روکنا ہو گا پاکستان کی بقاء سب سے پہلے اور مقدم
ہے اور اس حفاظت ہر پاکستانی کی اولیں تر جیح ہے۔ |