”معصوم“ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی
(عابد محمود عزام, Karachi)
ملک میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف نفرت
کو پنپتے ایک عرصہ بیت گیا۔ پرویز مشرف کو ”مجرم“ کہنے والی زبانوں کی
پاکستان میں اتنی کثرت، جس کا شمار بھی مشکل ہے۔ عوام و خواص سب ہی
”آنجناب“ کو آمر کے ”لقب“ سے پکارتے رہے۔ سیاستدانوں نے اس نفرت کے الاﺅ کو
مزید بڑھکایا۔ ان کی باتیں سن کر تو یوں لگ رہا تھا جیسے یہ ممکن ہی نہیں
کہ ”آمر“ کو سزا نہ ہو۔ پرویز مشرف گرفتار ہوئے تو ان کا احتساب اور ان کے
اعمال کی سزا ملنے کی کوشش پر جمہوریت پسند لوگ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے
تھے۔ اس ضمن میں تمام اختلافات کو بھلا کر حکومت اور اپوزیشن کا ایک موقف
تھا کہ ڈکٹیٹر کا احتساب ہونا انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر جمہوریت پنپ ہی
نہیں سکتی، لیکن اب تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں۔ چند روز قبل عاشق رسول
ممتاز قادری کو پھانسی دے کر حکومت نے قانون پر ”مکمل“ طور پر عمل کیا
تھا،ایسے وقت میں پوری قوم اس انتظار میں تھی کہ ”بہادر“ اور ”خودمختار“
حکومت پرویز مشرف کے معاملے میں بھی ممتاز قادری کی پھانسی کی طرح قانون پر
مکمل عمل کرے گی، لیکن عدالت عالیہ کی طرف سے پرویز مشرف کو حراست میں
رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کا اختیار ملتے ہی ”بااصول“ حکومت نے جھٹ سے
کئی بڑے مقدمات میں ”پابند پرتعیش ہاﺅس“ اور سخت سیکورٹی میں ”محصور“ سابق
صدر کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی، جس کے فوری بعد ”سب سے پہلے پاکستان“
کے نعرے کو ”سب سے پہلے اپنی جان“ میں تبدیل کرتے ہوئے فٹا فٹ آنجناب دبئی
جا پہنچے۔ پرویز مشرف صرف اپنی ”بیماری“ کا علاج کروانے دبئی تشریف لے گئے
ہیں، سزا کے ڈر سے نہیں گئے، کیونکہ وہ کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں۔ اس سفر
کی برکات ہی تو ہیں کہ دبئی پہنچتے ہی ”کمانڈو“ کی بیماری نے یوں ”راہ فرار“
اختیار کیا، جیسے بقول مخالفین خود ”کمانڈو“ نے پاکستان سے ”راہ فرار“
اختیار کیا ہے۔
متعدد مقدمات میں مطلوب پرویز مشرف کے فیصلے سے کم از کم یہ تو ثابت ہو گیا
کہ ہر نظر آنے والی چیز حقیقت نہیں ہوتی، کیونکہ پرویز مشرف ایک ”معصوم“
انسان ہیں۔ لوگوں تو نجانے کیسے کیسے الزامات لگا کر ان کو ”مجرم“ ثابت
کرنے پر تلے رہے ہیں۔ مجرم پرویز مشرف نہیں، بلکہ وہ لوگ تھے جن کی وجہ سے
”جناب“ کو مجرم گردان کر کئی ماہ قید ”با مشقت“ میں رکھا گیا۔ یا پھر اصل
مجرم ایسی ”ماورائی قوت“ ہے جس کے حکم پر ”نامعلوم افراد“ نے ایک ایسے دور
میں جب پاکستان کے سیاہ و سپید کے مالک خود پرویز مشرف تھے، وہ جرم کیے جن
کا الزام پرویز مشرف پر لگایا جاتا رہا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر الزام
لگایا گیا تھا کہ انھوں نے ایک منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مار کر
1999ءسے لے کر اگست 2008ءتک ملکی اقتدار پر زبردستی قبضہ جمائے رکھا اور ان
کو بے نظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی اور لال مسجد میں قتل عام میں بھی نامزد
کیا گیا تھا۔ جب ”جناب“ سوشل میڈیا پر اپنے لاکھوں کروڑوں ”مداحوں“ کے
پرزور اصرار پر24 مارچ 2013ءکو چار سال خود ساختہ جلاوطنی گزارنے کے بعد
2013ءکے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے ایک بار پھر ملک کا حکمران بننے
کے لیے واپس پاکستان آئے تو 18 اپریل 2013ءکو اسلام آباد ہائیکورٹ نے
2007ءمیں ججز گرفتاری کے الزامات پر انھیں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ 26
اپریل 2013ءکو عدالت نے ”جناب“ کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام میں گرفتار
کرنے کا حکم دیا۔ 25 جون 2013ءکو پرویز مشرف پر دو الگ مقدمات اور بے نظیر
بھٹو قتل اور اکبر بگٹی قتل میں نامزد کیا گیا۔ 20 اگست 2013ءکو عدالت نے
پرویز مشرف پر بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش کا الزام عاید کیا۔ 2 ستمبر
2013ءکو پرویز مشرف کے خلاف لال مسجد آپریشن 2007ءکی ایف آئی آر کاٹی گئی
اور کوئی بھی ”ثبوت“ نہ ملنے پر پرویز مشرف کی آزادی کا پروانہ جاری کر دیا
گیا تھا۔ کئی بار پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے،
عدالت کے بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کبھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی سے اگرچہ ملک میں کوئی زیادہ شور شرابا تو
نہیں ہوا، البتہ پاکستان کی اکثریت چیں بجبیں ضرور ہے۔ مخالفین کی جانب سے
سابق صدر پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی کو حکومت اور پرویز مشرف کے
درمیان ”خفیہ ڈیل“ کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق آمر
کی جگہ کوئی غریب ہوتا تو وہ ابھی تک جیل میں سڑ رہا ہوتا۔ حکومت کی جانب
سے پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے سے نظام کا وہ کھوکھلا پن بے نقاب ہوگیا
ہے، جس نے ثابت کیا ہے کہ یہ نظام کمزور کو سزا اورصرف طاقتور اور با اثر
کوہی تحفظ دیتا ہے، حالانکہ کمزور ہو یا طاقتور انصاف سب کے لیے برابر ہونا
چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ جس نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا وہی آمر
کے ساتھ ڈیل کر چکے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم کی اکثریت سابق صدر پرویز مشرف کو بہت سی
باتوں میں قصوروار ٹھہراتی ہے، ان کے نزدیک پرویز مشرف کے دور میں جو کچھ
بھی ہوا، وہ ”جناب جنرل“ کے حکم سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ عوام
محترمہ بے نظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی، لال مسجد، عدلیہ کے ساتھ کی جانے
والی زیادتیوں، ایک منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارنا، میڈیا کے ساتھ
ہونے والا جبر، آئین کو دو بار معطل کرنا، پاکستان میں دہشتگردی کا پروان
چڑھنا اور عافیہ صدیقی سمیت کئی پاکستانیوں کی امریکا کو فروخت کے معاملے
میں پرویز مشرف کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ اسی لیے وہ کئی مقدمات میں
مطلوب ہونے کے باوجود پرویز مشرف کے بیرون ملک چلے جانے کو ”ڈیل“ کا نتیجہ
قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب کئی لوگ یہ مفید مشورہ بھی عنایت فرمارہے ہیں
کہ حکومت کے ہر کام میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیے، ”چھوٹی موٹی ڈیل“ برداشت
کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔ کسی ”بندے“ کی جان چھوٹتی ہے تو چھوٹنے دیں۔
گڑھے مردے اکھاڑنے سے کیا حاصل؟ پرویز مشرف کو سزا دینے سے نواب اکبر بگٹی،
محترمہ بے نظیر بھٹو اور لال مسجد میں مارے جانے والے افراد تو دوبارہ زندہ
ہونے سے رہے۔ جہاں تک معاملہ عدلیہ اور ججوں کی نظر بندی کا ہے، اس میں تو
ان بے چارے ججوں کو خود ہی اپنی نظر بندی کا کوئی ثبوت نہیں ملا تو کسی
دوسرے کو کیا اعتراض؟ ویسے بھی ”جناب مشرف“ کا اس ملک سے چلے جانا ہی بہتر
ہے، کیونکہ یہ قوم پرویز مشرف جیسے ”عظیم لیڈر“ کی مستحق ہے ہی نہیں، ایسے
”عظیم لیڈر“ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور اس ملک میں ان کی قدر نہیں کی
جاتی۔
اب بھی ”بے چارے پرویز مشرف“ کو آمر آمر کے القابات سے نوازتے ہوئے ملک کو
آمریت پروف بنانے کا مطالبہ کرنے والوں سے گزارش ہے کہ ”جناب پرویز مشرف“
نے تو اپنے دور میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر ان کو سزا دی جائے، اگر
کچھ ایسا کرتے تو حکومت ان کو سزا نہ دیتی؟ حکومت نے ”باعزت“ بیرون ملک
جانے دیا، جس کا مطلب ہے کہ وہ ”بے گناہ“ ہیں۔ ان کے دور میں بڑے بڑے حکم
نامے خدا جانے کون دیتا رہا، وہ تو ایک لاچار اور بے بس صدر تھے، وہ ”بالکل
بے قصور“، ”بالکل معصوم“ ہیں ، اسی لیے تو انہیں کوئی سزا نہیں ملی۔ ہاں یہ
بات ذہن میں رہے کہ ہماری عدلیہ اور حکومت ”مکمل آزاد“ ہیں، تمام فیصلے
”اپنی مرضی“ سے کرتی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب کے پرویز مشرف کی رہائی کے
معاملے پر کسی سے بھی ذرا بھر بھی ڈرنے ورنے کا کیا تک؟ اس سب کے باوجود
”جناب جنرل“ بیرون ملک چلے گئے تو کیا۔ لوگ اگر ”معصوم“ پرویز مشرف کی
بیرون ملک روانگی کو ” ڈیل“ یا ”دباﺅ“ قرار دیں تو ان کی زبانیں تو بند
نہیں کی جا سکتیں نا۔ لہٰذا اس معاملے پر مٹی پاﺅ۔ |
|