تحفظِ خواتین قانون اور مذہبی جماعتوں کی حکومت کو 27مارچ تک وارننگ . . . ؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
آج اگر دیکھاجائے توتحفظِ خواتین قانون کے
حوالے سے بات کچھ بھی نہیں ہے، مگرجس زمانے اور جس تہذیب کے جس معاشرے کے
لوگوں بشمول حکمرانوں ،سیاستدانوں اور مولوی ملاؤں کا مشغلہ ہی بال کی کھال
نکالنا اور رائی کو پہاڑ بناناہوجائے تو پھر اِن کی یہ عادت کوئی نہیں
چھڑاسکتاہے اور ایسے ٹولے سے تویہی توقع کی جاسکتی ہے جیساکہ اِن دِنوں
ہمارے مُلک میں تحفظِ خواتین قانون کو ہوابناکر پیش کرنے والوں نے بہت
شورشرابہ شروع کررکھاہے۔
خبرہے کہ گزشتہ دِنوں منصورہ میں ا میرجماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کی
زیر صدارت 25دینی جماعتوں، مدارس دینیہ کی تنظیمات اور علمائے کرام پر
مشتمل اپنی نوعیت کا ایک اہم ترین اجلاس منعقد ہوا جس میں شریک تمام شرکاء
سرجوڑکربیٹھے اورپھر سب نے متفقہ طور پر تحفظِ خواتین قانون کی شرعی حیثیت
کا جائزہ لیا اور اِس کے بعد اجلاس میں شامل تمام حضرات نے باہم متحد اور
منظم ہوکر حکومت کو 27مارچ تک پنجاب میں حقوق ِ نسواں قانون کو ختم کرنے کی
ڈیڈلائن دے دی ہے۔اَب یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ آج مذہبی جماعتیں جس حقوقِ
نسواں قانون کو مغربی ایجنڈا قرار دے کر لاتعلقی کا اعلان کررہی ہیں یہ اِن
کی سمجھ اور عقل کا معاملاہے جس پریہ کھلم کھلا حکومت کو ڈیڈلائن دے کر
حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اپنا ارادہ بھی ظاہر کرچکی ہیں اَب اِس حوالے
سے کیا اِن مذہبی جماعتوں کا یہ رویہ درست قراردیاجاسکتاہے؟؟
یہ ٹھیک ہے کہ آج اگر حکومت الوقت نے حقوقِ نسواں قانون کے حوالے سے کوئی
ایسا قدم اُٹھابھی لیا ہے تو اِس پر اسلام کی ٹھیکیدار بننے والی ہماری
مذہبی جماعتوں کا یہ طریقہ اور رویہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ وہ تُرنت حکومت
مخالف تحاریک چلائیں اور اپنی قوت اور طاقت کے استعمال کا عندیہ دے کر
حکومت کو بلیک میل کریں اور اپنی مرضی چلائیں اور جوچاہیں کرنے کی دھمکی
دیں۔آج اگر ہماری مذہبی جماعتوں کو حقوقِ نسواں قانون پر حکومت سے تحفظات
بھی ہیں تو اِس کے بہتر حل کے لئے تو کبھی بھی کسی نے ٹیبل ٹاک اور
مذاکراتی عمل کا راستہ تو بند نہیں کیاہے، مذہبی جماعتوں نے افہام وتفہیم
کا یہ دروازہ کیوں نہیں کھٹکٹایا ہے؟؟افسوس کی بات ہے کہ بہتری کاراستہ
اپنانے کے بجائے ایک ذراسے قانون کے خلاف مذہبی جماعتیں افہام وتفہیم اور
ٹیبل ٹاک کا دورکئے بغیرہی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کررہی
ہیں۔
جبکہ یہاں یہ امربھی قابل افسوس ضرور ہے کہ آج کیوں مذہبی جماعتوں نے اپنے
اجلاس کے اختتام پر ایک ایسا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے ؟؟ جس میں دوٹوک
الفاظ میں حکومت کو 27مارچ تک حقوقِ نسواں قانون کے خاتمے کی ڈیڈلائن دی
گئی ہے، ایسے میں یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی ہے کہ ایک طرف تو مذہبی جماعتوں
کی جانب سے اِسی مشترکہ اعلامیہ میں بڑے مضحکہ خیز اندازیہ موقف اپنایا
گیاہے کہ ’’ حکومت خاندانی نظام کی تباہی کے مغربی ایجنڈے سے لاتعلقی کا
اعلان کرے‘‘ تووہیں دوسری جانب اِن ہی مذہبی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا
اظہارکرتے ہوئے حکومت سے اپنا یہ پُرزور مطالبہ بھی کردیاہے کہ’’ اسلامی
نظریاتی کونسل کی مشاورت سے نیابل لایاجائے‘‘اور ساتھ ہی حکومت پر اپنی
طاقت کا دباؤ بڑھانے کے انداز سے یہ بھی کہہ دیاہے کہ’’ 2اپریل کو آئندہ کا
لائحہ عمل دیں گے‘‘ اِس موقع پر مجھے اُمید ہے کہ آپ بھی میری طرح اپنی
مذہبی جماعتوں کے مشترکہ اعلامیے میں کہی گئیں یہ باتیں نہیں سمجھ سکے ہوں
گے کہ اور آپ بھی ضروریہ سوچ رہے ہوں گے کہ آخرہماری مذہبی جماعتیں چاہتی
کیا ہیں؟؟؟
اگرچہ حکومت کو حقوقِ نسواں قانون کو ماہ رواں کی 27تاریخ تک ختم کرنے کی
ڈیڈلائن دینے والی مذہبی جماعتوں نے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے کوئی کسر
نہیں رکھ چھوڑی ہے اور آج یہ اُس حدتک جانے کو تیاردکھائی دیتی ہیں جہاں
دنیا اِن کے نزدیک حقیر شئے اور پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں ہے تب ہی
مذہبی جماعتوں نے حقوقِ نسواں قانون کی تبدیلی کواپنی اَنا کا مسئلہ
بنالیاہے اوریہ اپنے گریبان چاک کرنے کا ارادہ کچھ اِن الفاظ کے ساتھ بھی
کررہی ہیں کہ’’مُلک کی تمام مذہبی جماعتیں سیکولراور لبرل نظریات کا مل کر
مقابلہ کریں گیں،حکومت آرٹیکل 31کے تحت ذمہ داریاں پوری کرے، حکمران
نظریاتی کرپشن پر چل رہے ہیں،تحریک کے ذریعے قانون ختم کرائیں گے‘‘ آج
مذہبی جماعتوں نے حقوقِ نسواں قانون کو تبدیل کرنے کی نیت سے اپنے ہنگامی
اجلاس کے بعد ایک دھمکی آمیز مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے اپناکام تو کرکے
حکومت کو پوری طرح سے پریشر میں لے لیا ہے تب ہی اِن دِنوں باخبر ذرائع کے
مطابق حکومت الوقت کے ذمہ داران کے حوالے سے ایک خبر یہ بھی گردش کررہی ہے
کہ’’تحفظِ نسواں قانون کا نوٹیفکیشن روک دیاگیاہے اور کہایہ جارہاہے کہ
نوٹیفکیشن روکنے کا عمل حکومتی سطح کے ایک اہم ترین اجلاس میں مشاورت کے
بعد کیاگیاہے اور اِس کے ساتھ ہی ذرائع کا یہ بھی کہناہے کہ’’ اَب علماء
کرام سے مشاورت سے قانون میں ترمیم لانے پر غورکیاجارہاہے۔‘‘جبکہ حکومت کی
جانب سے آنے والی ایسی خبریں کہاں تک درست ہیں ؟ یہ تو جلد پتہ چل ہی جائے
گاکہ حکومت اِس حوالے سے کتنی سنجیدہ ہے مگراَب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی
حکومت مذہبی جماعتوں کی ایک دھمکی سے ڈرگئی ہے؟؟ اور یہ اپنی مدت پوری
کرناچاہتی ہے؟؟یاایساہرگزنہیں ہے جیساکہ خیال کیاجارہاہے،مگریہاں راقم
الحرف کی اپنی رائے یہ ضرورہے کہ آج جو مذہبی جماعتیں تحفظِ نسواں قانون کو
تنقیدوں کا نشانہ بناکر اپناقداُونچاکررہی ہیں اِن مذہبی جماعتوں کے
سربراہاں تنہائی میں اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر اپنے ایمان سے خود یہ فیصلہ
کریں کہ آج یہ مردوں کے جس معاشرے میں زندہ ہیں یہ خود توآزادی سے سانس لے
رہے ہیں اِن کے معاشرے کے ہرسطح کے مردوں نے اپنے سے جڑی خواتین کو کتنے
اسلامی حقوق دیئے ہیں؟آج اگر حکومت اپنی مظلوم خواتین کو اِن کے جائز حقوق
دلانے کا قانون لارہی ہے توکیوں چیخیں نکل رہی ہیں یہ مذہب کا لبادہ اوڑھ
کر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے نام پر اپنے مردانہ جابراور ظالم حقوق کی
حفاظت کے لئے جمع ہوکرحکومت کے خلاف تحریک چلانے کی ڈیڈلائن دے رہے
ہیں۔؟(ختم شُد) |
|