ہر چیز کی ایک کہانی ہوتی ہے، چاہے وہ چیز
چھوٹی ہو کہ بڑی۔
جیسے ہر جسم ایک اپنی ساخت بھی رکھتا ہے اور پرچھائی بھی۔
کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو کہانی نہیں بلکہ داستان رکھتی ہیں۔
ان چیزوں میں قلم بھی ایک ہے۔
جہاں شمشیر ہار جاتی ہے وہاں قلم کام کرجاتا ہے۔
جب شہنشاہیت ختم ہوئی، جمہوریت عام ہوئی تو تلوار تاریخ کا حصہ بن گئی
اورقلم منظر عام پر آگیا۔
ویسے قلم کی اہمیت آج کی نہیں ہے بلکہ عرصہ دراز کی ہے۔
ادیب قلم کا تصور نہ جانے کہاں کہاں تک کر لیتا ہے ملاحظہ ہو۔
بقول شاعر
دیدہ نم ہوکر قلم یہ کرگیا تحریر ہے
یہ میری تحریر گویا کہ میری تصویر ہے۔
میں نے جو لکھا میرا کچھ بھی نہیں میں کچھ نہیں
جو بھی لکھا خالقِ لولاک کی تقریر ہے
میری تحریریں دلِ کاغذ سے باہر آگئیں
میری آزادی کے پیروں پر پڑی زنجیر ہے
میرے نالے چاک کرتے ہیں شبِ تاریک کو
نوک ہے میری کہ گویا یہ لبِ شمشیر ہے
حسرتِ دیدار لے کر لوح سے گذرا نثارؔ
دید میں میرے لبِ پا عالم تقدیر ہے
ایک اور خوبصورت تصور ہمیں ایک پرانی کتاب میں دیکھنے کو ملا۔ اس کتاب میں
تحریری شروعات کچھ یوں ہوتی ہے؛
قلم لولو سیاہی مشک و بو کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر ، حسب عادت میں یہ سوچتا رہا کہ یہ میاں قلم ہیں کیا؟ اور ان کی پیدائش
کب اور کیسے ہوئی؟ ذرا جانیں تو صحیح۔۔۔۔۔
کتابیں ٹٹولنے لگا، مگر قلم پر کوئی خاص کتاب نظر نہیں آئی۔ پھر دیکھا کہ
کوئی لغت میں ان کا پتا مل جائے۔ لیکن نہیں ملا۔ پھر سے کچھ ضخیم
دائرۃالمعارف اٹھائی مگر اس میں بھی مکمل پتا و تاریخ نہیں ملی۔ طئے کیا کہ
چلو آج قلم کے تاریخی پنے اُلٹ ہی لیتے ہیں۔ کئی کتابیں تلاشی، آنکھوں میں
سرمہ لگا لگا کہ تلاش کیا تو کچھ تاریخ ابھر کر آئی۔ مطمین ہوا کہ چلو اتنی
تاریخ کار آمد ضرور ہوگی۔
میں : آداب بزرگ قلم صاحب
قلم صاحب : آداب، کیا ہے میاں آج آپ کا لہجہ کچھ بدلا ہوا ہے، آداب کہہ رہے
اور ہمیں بزرگ پکار رہے ہو؟
میں : جی ، آج کچھ جی چاہ رہا ہے کہ آپ کو سیکولر انداز میں مخاطب کروں،
اور آپ کو بزرگ اس لیے خطاب کیا کہ آپ بہت قدیم ہیں، دنیا کی ہر تہذیب و
تمدن دیکھی ہوگی، اس لیے۔ (ذرا اپنی دانائی پر مسکرایا)
قلم صاحب : ہاہاہا ۔۔ تم ادیبوں اور مورخوں کے ناز و نخرے جاتے ہی نہیں۔
جہاں کہیں لکھنے بیٹھو وہاں اپنی اپنی اکی خاصی چھاپ چھوڑنا نہیں بھولتے۔
یعنی تاریخ کے آٹے میں مورخ کا نمک۔ بہت خوب۔
میں : (میں میری دانائی نام کی احمقی پر شرمایا اور کہنے لگا) نہیں بزرگ
محترم ، تعظیم ہمارا شیوہ ہے، اور تکریم ہمارا فریضہ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
قلم صاحب : خیر، آئے ہو تو کچھ کام ضرور ہوگا۔ بتاؤ کا کام ہے۔
میں : محترم قلم صاحب میں جاننا چاہتا تھا کہ آپ کی تاریخ کیا ہے، آپ لسانی
اعتبار سے ادبی اور صفاتی اعتبار سے کیا ہیں۔
قلم صاحب : اچھا، چھان بین کا سلسلہ شروع کیے ہو۔ اچھی بات ہے سنو، ویسے
میری کہانی کہانی نہیں بلکہ داستان ہے۔ کیا تمہارے پاس اتنا استقلال ہے کہ
میری داستان سن سکو؟
میں : جی بالکل، آپ اپنی داستان گوئی مرحمت فرمائیں، ہم سننے کے خواہاں ہیں۔
قلم صاحب : تو سنو!
٭ میرا نام ’’ قلم ‘‘ ہے۔
٭ میرا تلفظ ’ قَلَم ‘ ہے ۔
٭ میرا یہ لفظ عربی سے ماخذ ہے۔
٭ میرا جنس مذکر ہے۔
٭ مجھے پہلے بصورت مونث بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
٭ پنجابی میں کہیں کہیں اب بھی مونث ہی بولتے ہیں۔
٭ اور مجھے خامہ یعنی لکھنے کا آلہ مانا جاتا ہے۔
٭ بڑی دلچسپ بات جو آپ لوگ غالباً نہیں جانتے وہ یہ کہ قلم سرب یا قلم سرمہ
یا قلم فرنگی (مذکر) : پنسل (Pencil) کو کہتے ہیں۔
میں : جی، قرآن شریف میں آپ کے نام کی سورۃہے۔ کیا آپ اس پر روشنی ڈالیں گے۔
قلم صاحب : ہاں بالکل۔ قرآن شریف میں اﷲ پاک نے 68 واں سورۃ کو سورۃ القلم
نام رکھا ہے، جسے سورۃ نون بھی کہتے ہیں۔ یہ مکی سورۃ ہے۔ اس سورۃ میں 52
آیتیں ہیں، جس میں تین مضامین بیان ہوئے ہیں۔
۱۔ مخالفین کے اعترازات کا جواب۔
۲۔ ان کو تنبیہ اور نصیحت۔
۳۔ رسول اﷲ ﷺ کو صبر و استقامت کی تلقین۔
میں : جی، آپ اسلامی ادب میں کیا مقام رکھتے ہو؟
قلم صاحب : (مسکراکر) ادب میں خامہ یا الفاظ کا کوئی خاصہ مقام نہیں ہوتا۔
مگر ہاں، ان کے استعمال کیے جانے والے زاوئیہ تصور پر مبنی ضرور ہوتا ہے۔
ایک مثال دیتا ہوں۔ کیا تم غنیتہ الطالیبین یا پھر زین المجالس پڑھے ہو؟
میں : جی نہیں۔
قلم صاحب : خیر، اگر فرصت ملے تو کم از کم زین المجالس کتاب لو، اور اس کے
ہر مجلس کا پہلا شعر پڑھو۔ دیکھو کہ مجھے کس تصور سے استعمال کیا گیا ہے۔
میں : جی ، تصوف میں آپ کا کیا مقام ہے؟
قلم صاحب : تصوف میں، عقل اوردل۔ وہ خامہ جس سے باعتقاد مسلمانان لوح پر
لکھا جاتا ہے۔ لوح اور قلم اکٹھا استعمال ہوتا ہے۔
میں : جمالیات میں آپ کا کیا مقام ہے؟
قلم صاحب : جمالیات میں مجھے انسان کے چہرے کے بالوں کی تشبیہہ دی گئی۔ خاص
طور ذیل کے لحاظ سے؛
٭ (مونث) وہ بال جو کنپٹیوں پر خوبصورتی کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
٭ داڑھی کے اوپر کے بال جو سرکے بالوں کے نیچے چھوڑ دیتے ہیں۔
٭ قلمیں بڑھانا (متعدی) : قلموں کو لمبا ہونے دینا یا بڑھنے دینا۔
٭ قلمیں بنانا(متعدی) بننا (لازم) بنوانا : کنپٹی کے بال ترشوانا۔
٭ قلمیں تراشنا (متعدی) ترشنا (لازم) ترشوانا : قلمیں کٹوانا۔
٭ قلمیں چھوڑنا (متعدی) قلمیں بڑھانا۔ قلموں کو بڑھنے دینا۔
٭ قلمیں رکھنا (متعدی) : کنپٹیوں کے بال یا داڈھی کے اوپر کے بال رکھنا۔
٭ قلمیں کاٹنا (متعدی) کٹنا (لازم) کٹوانا : قینچی یا استرے سے قلموں کو
کٹواکر خوبصورت بنانا۔
میں : جی، کاشتکاری اور زراعت میں آپ کے کیا معنی ہیں؟
قلم صاحب : اچھا، یہ لو، کاشتکاری یا باغبانی میں میرے کیا معنی ہیں؛
٭ قلم (صفت) : کٹا ہوا، بریدہ، تراشیدہ۔ (قلم ۔ تراشنا)
٭ وہ سبز شاخ جو کاٹ کر زمین میں نئے پودے تیار کرنے کے لیے لگاتے ہیں۔
٭ شاخ جو ایک درخت کی دوسرے پر لگاتے ہیں، اور جب جم جائے تو کاٹ دیتے
ہیں۔نیا درخت تیار ہوجاتا ہے۔
٭ قلم لگانا (متعدی) : سبز شاخ کاٹ کر زمین میں لگانا۔ ایک شاخ کا دوسری پر
پیوند کرنا۔
٭ قلم لگنا (لازم): سبز شاخ کا جڑ نکالنا یا اگنا۔
٭ قلم لینا (متعدی) : قلم لگانے کے لیے مچھلداردرخت کی شاخ لینا۔
٭ قلم مارنا (متعدی) : کاٹ ڈالنا۔ قلمزد کرنا۔منسوخ کرنا۔
٭ قلم ہونا (لازم) : کٹنا؛ ترشنا۔ درخت کی شاخ کا کٹنا۔
٭ قلمی (صفت) : ہاتھ کا لکھا ہوا۔ قلم سے نسبت رکھنے والا۔ قلم کا۔ قلم کی
طرح لمبا۔ پھل کا درخت جس میں قلم لگایا گیا ہو۔ ایسے درخت کا پھل۔۔
٭ قلمی آم (مذکر) : پیوندی آم۔
٭ قلم نرگس (مونث) : نرگس کی شاخ۔
میں : اوزار کے روپ میں آپ کو ہم کیسے جانیں؟
قلم صاحب : یہ اچھا سوال ہے۔ کہیں میں اوزار ہوں تو کہیں دوسری جگہ قلم نما
ہی شکل رکھتا ہوں ؛
٭ بالوں کی کوچی ، جس سے مصور رنک بھرتے ہیں۔
٭ شیشے یا بلور کا تراشا ہوا ٹکڑا۔
٭ وہ لکڑی جس کے ایک سرے پر ہیرے کی کنی جڑی ہوتی ہے۔ اس سے شیشہ کاٹتے
ہیں۔
٭ پتلی اور لمبی شیشی جس میں شراب یا عطر رکھتے ہیں۔
میں : آپ طبیعات اور حیاتیات میں کیا شکل رکھتے ہیں؟
قلم صاحب : یہ جاننا بھی ضروری ہے، یہ سنو!
٭ کسی نمکین چیز کا ٹکڑا، جیسے قلمی شورے یا نوشادر کا۔ (Crystals)
٭ گائے بکری کی پنڈلی کی ہڈی۔
میں : آپ دیگر کھیل کود کے میدان میں کیسے پہچانے جاتے ہیں؟
قلم صاحب : خاص طور پر آتش بازی کے میدان میں میرا نام زیادہ استعمال
ہوتاہے۔
٭ ایک قسم کی آتشبازی
٭ قلم آتشباز (مذکر)
٭ قلم سے لڑنا(متعدی) : آتشبازی کی قلموں سے لڑائی کرنا۔
میں : حکومتی یا سرکاری امور میں آپ کو کیسے جانیں؟
قلم صاحب : سرکاری امور میں مجھے حاکم استعمال کیا کرتے ہیں، جیسے؛
٭ حکم، فرمان، سینگ
٭ قلمرو (مونث) : ملک۔ سلطنت۔
٭ قلمروِ ہندوستان (مونث) : ملک ہند۔
٭ قلم روشن رہے (دعا) : حکومت بنی رہے۔
٭ قلمدان بردار (مذکر) : سکریٹری۔ منشی۔ دوات دار۔
میں : ادب میں آپ کیا ہیں؟
قلم صاحب : ادب میں مجھے کچھ یوں سمجھا، لکھا اور پڑھا جاتا ہے؛
٭ ایک طرزِ تحریر
٭ قلم اٹھا کر لکھنا (متعدی) : بے سوچے جلد جلد لکھنا۔ گھسیٹ دینا۔
٭ قلم اٹھانا (متعدی) : لکھنے کا ارادہ کرنا۔ لکھنا
٭ قلم اٹھنا (لازم) : قلم پکڑا جانا، لکھا جانا۔
٭ قلم افشاں (مذکر) : سنہرا قلم۔
٭ قلمِ امواج (مذکر) : ایک قسم کی بحریں جس میں موجیں سی معلوم ہوتی ہیں۔
٭ قلم انداز (صفت) : لکھنے میں چھوڑ جانا۔ نہ لکھنا(کرنا ہونے کے ساتھ)۔
٭ قلم برداشتہ (صفت) : وہ جو قلم لے کر بغیر بہت سوچنے کے لکھا جائے (لکھنا
کے ساتھ)
٭ قلمدان دینا یا عنایت کرنا (متعدی) : عہدہ دینا۔ وزیر بنانا۔ منشی یا
سکریٹری بنانا۔
٭ قلمدان سپرد ہونا (لازم) : دیوان میر منشی یا وزیر ہونا۔
٭ قلمدان وزارت (مونث) : وزیر کا عہدہ (سپرد کرنا۔ یا ہونے کے ساتھ)
٭ قلم دوات (مذکر) : خامہ اور سیاہی رکھنے کا ظرف۔ سیاہی اور قلم۔
٭ قلمزد کرنا (متعدی)، یا قلمزد ہونا (لازم) : لکھے ہوئے کٹ جانا۔
٭ قلمزن (مذکر) : لکھنے والا۔ محرر۔ کاتب۔ نقاش۔
٭ قلم سینہ چاک (مونث) : نیزے کا قلم۔کیوں کہ اس کے بیچ میں شگاف دیا جاتا
ہے۔
٭ قلم فولاد (مذکر) : لوہے کا قلم۔ انگریزی قلم (عام قلم) جس کے آگے نِب
لگتی ہے۔
٭ قلم نکل جانا(لازم) : لکھا جانا۔ تحریر ہونا۔
٭ قلم کا یاری دینا (متعدی) : لکھنے کی قوت ہونا۔
٭ قلم کان پر رکھنا (متعدی) : منشی کا قلم کو کان اور سر کے درمیان
پھنسانا۔ منشی عموماً ایسا کرتے ہیں۔
٭ قلم کرنا (متعدی) کروانا : کسی عضو کا کٹوانا۔ درخت کی ٹہنیاں کٹوانا یا
چھنٹوانا۔
٭ قلم کشی (مونث) لکھنا۔ قلم کھینچنا۔
٭ قلم کشیدہ (صفت) : کٹا ہوا۔ بریدہ۔
٭ قلم کھینچنا (متعدی) : قلمزد کرنا۔ لکھنے سے باز رہنا۔
٭ قلم لکھنے سے قاصر ہونا (لازم) : لکھا نہ جاسکنا۔
٭ قلم میں زور ہونا (لازم) : تحریر کا زوردار ہونا۔
٭ قلم نہ اُٹھ سکنا (لازم) : لکھا نہ جانا۔
٭ قلم ہاتھ میں نہ اٹھانا (متعدی) : لکھنے کا ارادہ نہ کرنا۔
٭ قلمی شورہ (مذکر) : صاف کیا ہوا شورہ جس کی سلاخیں سی بن جاتی ہیں۔
٭ قلمی کرنا (لازم) : لکھنا تحریر کرنا۔
٭ قلمیں (مونث) : جمع قلم کی۔
میں : دیگر فنون میں آپ کا استعمال کیسا ہوتا ہے؟
قلم صاحب : دیگر فنون میں کچھ یوں ہے؛
٭ قلمکاری (مونث) : نقاشی۔ رنگ بھرنا۔ مصوری۔ مہرکنی۔ کپڑے پر ایک قسم کا
کام۔
٭ قلمکار (مذکر) : محرر۔ منشی۔ نقاش۔ مصور۔ مہرکن۔ ایک قسم کا بافتہ جس پر
طرح طرح کے نقش و نگار بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
میں : آپ کے نام سے موسوم کچھ ضرب المثل یا محاورے ہوں تو بتائیے۔
قلم صاحب : یہ بھی ضروری ہے۔ ایک فارسی ضرب المثل سنو
٭ قلم اینجا رسید و سر بشکست : قلم نے اس جگہ پہنچ کے اپنا سر پھوڑ لیا۔
کوئی غمناک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
٭ قلم، تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔(Pen is mightier than the sword)
میں : جناب قلم بزرگ، آپ سے گفتگو میرے لیے کچھ علم حاصل کرنے سے کم نہیں۔
بڑی مہربانی آپ کی کہ آپ کی داستان سے ہمیں آراستہ کروایا۔ بہت بہت شکریہ۔
قلم صاحب : ارے میاں کوئی بات نہیں، اس کمپیوٹر، ٹیب، موبائل اور گیجز کے
دور میں تم آئے ہو اور ہماری تاریخ جاننے آئے وہ بھی زباندانی کو مضبوط
کرنے۔ ویسے ہمیں تو تم جیسوں پر ہی فخر ہے۔ جاؤ، ہماری دعا ہے کہ اردو ادب
تمہارا بھی نام لے گا، اور اپنی تاریخ میں تمہیں بھی جگہ دے گا۔
میں : نوازش جناب، میں کسی نام کے لالچ میں نہیں لکھ رہا۔ ویسے تاریخ میں
ادیب آپ جیسوں کو ہی بھول بیٹھے، ہم جیسے تنکوں کی کیا حیثیت۔
قلم صاحب : ایسا نہیں ہے برخوردار۔ میں اردو کا ایک روشن مستقبل دیکھ رہا
ہوں۔ مگر اے۔سی۔ کے کمروں میں نہیں، نا ہی کسی ادبی محفلوں میں۔ میں ان
جھونپڑوں میں، چھوٹے چھوٹے مدارس اور اسکولوں میں، دیہاتوں میں دیکھ رہا
ہوں۔ اردو کے پودے یہیں سے نکلتے ہیں۔ جب انہیں کچھ محافل مل جاتے ہیں تو
وہ اپنے انجام تک پہونچ جاتے ہیں جو ان کی اوقات ہے۔ مگر سچی ادب کی لہریں
اسی سمندر سے اٹھتی ہیں جس سمندر میں خالص لسانی نسبت ہو، خوشبوئے ادب ہو،
ناکہ ایوارڈس کے پیچھے دوڑ اور فنڈس کے پیچھے ہوڑ۔نہ عہدوں کی حوس۔ سر سید
اور عبدالحق کو تو جانتے ہی ہو۔ کچھ ان سے سیکھو۔
میں : بہت شکریہ جناب، ہماری خواہش ہے کہ آپ کی پیشن گوئی سچ ہو ۔ہم بھی
اپنے اجداد سے کچھ ضرور سیکھیں گے، اور ان کے نقش ِ قدم پر چلیں گے۔ خدا
خافظ۔ |