یہ مقبوضہ کشمیر کا علاقہ کولگام ہے۔ یہاں
آج اسی علاقے کے رہنے والے ایک نوجوان داؤد احمد شیخ کی نماز جنازہ ادا کی
جا رہی ہے۔ گزشتہ رات یہیں تھوڑے ہی فاصلے پر بھارتی فوج نے ہزاروں کی
تعداد میں آ کر علاقے کا محاصرہ کیا تھا اور پھر گھنٹوں لڑائی کے بعد جب
بھارتی فوج کو بار بار اپنے زخمی اور لاشیں اٹھانا پڑیں تو انہوں نے اس
مکان کو مارٹر گولوں سے تباہ ہی کر دیا جہاں دو کشمیری نوجوان مورچہ زن ہو
کر داد شجاعت دے رہے تھے۔ اس معرکہ آرائی میں جہاں بھارتی فوج پر گولیاں
برس رہی تھیں تو دوسری طرف سے کشمیری عورتیں، بچے اور بوڑھے انہیں پتھروں
سے ’’سنگسار‘‘ کر رہے تھے۔ ان لوگوں پر بھی بار بار زہریلی گیسوں کے ساتھ
ساتھ ڈنڈے اور گولیاں برسائی جاتی رہیں جن سے کتنے مظلوم لہولہان ہو کر گرے
لیکن انہوں نے بھارتی فوج کو پھر بھی مسلسل زچ کئے رکھا۔
آج کی نماز جنازہ میں اتنا بڑا ہجوم امڈ آیا ہے کہ اس سے قبل شاید ہی کبھی
اسے دیکھنے کو ملا ہو۔ یوں لگ رہا ہے کہ جیسے یہاں کا ہر فرد اس آرزو میں
ہے کہ وہ اس شہید کے جنازے میں شریک ہو جائے اور اس کے جسد خاکی کو کندھا
دے سکے۔ یہاں سبھی لوگ بھارت کے خلاف اور آزادی و اسلام کے حق میں نعرے
بلند کر رہے ہیں تو دوسری طرف قریب ہی شہید داؤد احمد شیخ کے گھر انوکھا
منظر ہے۔ یہاں شہید مجاہد کی والدہ محترمہ پرویز اختر سینکڑوں خواتین کے
جلو میں بیٹھی ہیں لیکن جواں سال بیٹے کا جنازہ رخصت کرنے والی اس ماں کی
آنکھوں میں کوئی آنسو نہیں، چہرے پر کوئی غم و اندوہ کے آثار یا رنج و ملال
تک نہیں ہے…… وہ سبھی آنے والی خواتین سے یوں ہنسی خوشی مل رہی ہیں جیسے آج
ان کے بیٹے کی شادی ہو رہی ہو۔ ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کی خاتون صحافی
اس کمرے میں آن پہنچی تو شہید داؤد کی والدہ عزم و حوصلے کے ساتھ تفاخرانہ
لہجے میں بات کرتے ہوئے کہنے لگیں ’’آج میرے بیٹے نے اپنی زندگی کا مقصد
پورا کیا۔ میرا بیٹا ہمیشہ ایک شہید کے طور پر مرنے کی آرزو کرتا تھا۔ اس
نے اﷲ اور رسولؐ کے احکامات کو پورا کرنے کے لئے گھر چھوڑا تھا۔ دو دن پہلے
میرا بیٹا مجھے ملنے آیا تھا۔ اس نے میرے ساتھ ملاقات میں یہی کہا تھا کہ
اب ہماری ملاقات جنت میں ہو گی۔ میرے بیٹے نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو
کر مجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی۔ میرا بیٹے کی خواہش تھی کہ
ڈاکٹر بنے لیکن وہ شہادت سے سرفراز ہو گیا۔‘‘
مقبوضہ کشمیر میں ایسے جذبات رکھنے والی یہ کوئی واحد خاتون نہیں ہیں بلکہ
اب تو یہاں کی ہر ماں ہی ایسے جذبات و خیالات رکھتی ہے۔ دور کیوں جائیں،
چندہفتے پہلے 11 فروری کے روز جب اہل کشمیر اپنے بابائے قوم شہید مقبول بٹ
کے جسد خاکی کے حصول کے لئے کشمیر سراپا احتجاج تھے، عین اس روز اسی مقبول
بٹ شہید کی والدہ محترمہ شاہ مالی بیگم جن کی عمر اب 90سال سے زائد ہو چکی
ہے، کہہ رہی تھیں کہ ’’کشمیر کا ہر نوجوان اب مقبول بٹ بن چکا ہے اور مجھے
تو ہر گھر میں مقبول بٹ ہی دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘ کشمیری تحریک آزادی کو ماں
کہلانے والی عظیم والدہ نے کوئی ایک بیٹے مقبول بٹ کی قربانی پیش نہیں کی
ہے بلکہ مقبول بٹ کے بعد اس ماں کے یکے بعد دیگرے مزید تین بیٹے کشمیر کی
آزادی کیلئے جانوں کی بازی لگاچکے ہیں اور اب چار شہیدوں کی ماں اپنے
10سالہ پوتے کو لے کر میدان کارزار میں تحریک آزادی کا ایک متحرک استعارہ
بن کر کھڑی ہے۔ ان کشمیری ماؤں کو یہ حوصلہ آخر کون عطا کرتا ہے……؟ انہیں
دکھ دینے والے بھارتی نیتا شاید بھول جاتے ہیں کہ ظلم کی چکی جتنی تیز چلے
گی، ایسے جذبات کو ہر روز مہمیز ہی ملے گی۔
8مارچ کو ہر سال دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان
کے شہر لاہور کی سڑکوں پر کچھ خواتین اس روز ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال
رہی تھیں کہ انہیں ’’آزادیاں‘‘ مل رہی ہیں لیکن اسی روز مقبوضہ کشمیر کے
ضلع کپواڑہ کے علاقے کنن پوش پورہ میں جیسے غموں کی برسات جاری تھی۔ یہ وہی
علاقہ ہے جہاں آج سے ٹھیک 25سال پہلے ایک تاریک رات میں ہزاروں بھارتی
فوجیوں نے علاقے کا گھیراؤ کر لیا تھا۔ بھارتی فوج کے 68 بریگیڈ کے 4 راج
رائفلزنے 23 اور 24فروری کی درمیانی رات علاقے کا محاصرہ کر کے گاؤں کے
تمام مردوں کو گھروں سے باہر نکلنے کا حکم دیا تھا۔ یہاں کے باسی عبدالعزیز
نامی ایک شہری نے اس قیامت خیز رات اور انتہائی سخت کریک ڈاؤن کی یاد تازہ
کرتے ہوئے بتایا ’’مجھے یاد ہے کہ جب ہمارے گاؤں کے مردوں کو گھروں سے باہر
لاکر مصیبت کے پہاڑ توڑ ڈالے گئے۔ ہم جیسے ہی گھروں سے باہر آئے تو بھارتی
فوجیوں نے لاتوں، گالیوں اور لاٹھیوں سے ہمارا استقبال کیا۔ پھر بھی جب ان
کا جی نہیں بھرا تو انہوں نے ہمارے نوجوانوں کو انتہائی عذاب و عتاب کا
نشانہ بنایا۔ نوجوانوں کو عقوبت خانوں کی نذر کرنے کے بعد فوج کا اگلا حکم
تھاکہ ہم میں سے کوئی نوجوان یا بزرگ گھر نہیں جاسکتا۔ بستی یرغمال بنانے
کے بعد فوجی ہمارے گھروں میں داخل ہوگئے اور سیتا کے ان پجاریوں نے ہماری
ماؤں بیٹیوں کو اجتماعی طور اپنی ہوس کا نشانہ بنانا شروع کیا‘‘۔مقامی
لوگوں کے مطابق بھارتی فوجی اس بے بس گاؤں کی 140خواتین کو دوسرے دن صبح نو
بجے تک اجتماعی طور اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ بھارتی فوج نے 8سال تک کی
بھی معصوم بچیوں اور نوجوان خواتین کی عصمت لوٹنے پر ہی اکتفا نہیں کیا
بلکہ100برس کی بزرگ عورت کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بناکر انسانی حقوق کے
’پاسدار‘ ہونے کاجیتا جاگتا ثبوت فراہم کیا۔ فوج نے آگے بڑھ کر دو حاملہ
خواتین کی عصمت بھی تار تار کی۔ بھارتی فوج کے اس قہر کا پہلا شکار ایک
70سالہ بزرگ خاتون ’لسہ دید‘ بنی تھی۔ اس خاتون نے اپنی کسمپرسی کی داستان
سناتے ہوئے کہا کہ ’’رات کے گیارہ بج چکے تھے اور میں حسب معمول گھر میں
اکیلی نفل نماز ادا کررہی تھی کہ اسی دوران میں چار فوجی اہلکار کھڑکی توڑ
کر کمرے میں گھس گئے اور انہوں نے میرے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ میں کافی چیخی
چلائی لیکن سب بے فائدہ۔ بھارت کے ان سورماؤں نے میرے منہ میں کپڑا ڈال کر
میری آواز ہی بند کردی اور میرے بے ہوش ہو جانے تک ایک ایک کرکے گھنٹوں
میری عصمت کو تار تار کیا۔‘‘ اس بوڑھی اماں کابیٹا جموں کشمیر پولیس میں
ملازم تھا۔ وہ اس قیامت خیز رات کے وقت شمالی کشمیر میں کنٹرو ل لائن کے
قریبی گاؤں اوڑی میں ڈیوٹی دے رہا تھا۔اپنی ماں کی روداد سننے کے بعدوہ
اپنا دماغی توازن کھوبیٹھااور پاگلوں کی طرح گھومنے لگا اور وہ آج تک پاگل
ہے۔بھارتی فوجیوں نے بدترین ظلم ڈھاتے ہوئے 110سالہ ’جانہ دید‘ کی عصمت کو
بھی رات کی تاریکی میں تار تار کیا۔مقامی لوگوں کہتے ہیں اس المیہ کے 36
گھنٹوں بعد ہی جانہ دید قوت گویائی سے محروم ہوگئی۔ 19سال بیت جانے کے
باوجود کنن پوش پورہ کی خواتین اپنے گاؤں سے باہر نکلنے میں شرم محسوس کرتی
ہیں۔مذکورہ گاؤں کی کئی ایک خواتین نے روتے بلکتے آج بھی کہہ اٹھتی ہیں کہ
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم اب بے شرمی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ہمیں گھروں سے
باہر آنا اچھا نہیں لگتا تو سب سے بڑھ کر دکھ اس بات کا ہے کہ جو فوجی
اہلکار اس گھناؤنی حرکت میں ملوث تھے، وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔
کسی اور کو یاد ہو نہ ہو، کشمیری لالہ زاروں کو اپنے خون سے رنگین کرنے
والے ان جانبازوں کو تو اپنی ان ماؤں، بہنوں کی عزتوں کا تار تار کیا جانا
سب کچھ یاد ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ کشمیر کے جہاد کی تاریخ کا ایک تاریخی
معرکہ 22فروری کو جموں سرینگر شاہراہ پر پامپورہ مقام پر اس روز لڑا گیا
تھا جب اس دلدوز سانحہ کے 25سال مکمل ہوئے تھے اور کشمیری قوم کے حریت
رہنما، عوام اور متاثرہ خواتین 25 سال پہلے اپنے اوپر گزرے اس سانحہ پر
آنسو بہا کر دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کی کوشش میں مصروف تھے۔
پامپورہ کے اس تین روزہ معرکہ میں 40سے زائد ظالم قابض بھارتی سورمے ہلاک
ہوئے تو ان میں وہ دہشت گرد کیپٹن بھی شامل تھا جس نے چند روز پہلے پلوامہ
میں اپنے ہاتھوں سے گولی چلا کر یونیورسٹی طالبہ شائستہ کو شہید کر ڈالا
تھا۔ یہ سب دیکھ کر کشمیری قوم کیسے جئے کیسے مرے گی…… اور ہم ان کے ساتھ
کہاں اور کیسے کھڑے ہوں گے؟ ایک سوال ضرور ہے۔ |