معاہدہ امرتسر اور ریاست جموں کشمیر

انقلابیوں کے ایک قبیل سے ہوں حق پہ ہے جو ڈٹ گیا اس لشکر قلیل سے ہوں
میں یوں ہی نہیں دست وگریباں زمانے سے میں جہاں کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں
کچھ عرصہ قبل اکھنور کے مقام پر انڈین کانگریس کی جانب سے مہاراجہ گلاب سنگھ کی سالگرہ کے حوالے سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا اس میں کانگریسی رہنما کرن سنگھ نے وہاں گلاب سنگھ کا مجسمہ نصب کیااور تقریب میں انہیں ہیرو قرار دینے کے حق میں تقریربھی کی، تقریب میں اس وقت کی مخلوط حکومت کے توسط سے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے کئی رہنما شریک ہوئے ، محترم کرن سنگھ اس تقریب کے کچھ عرصہ بعد امریکہ و کنیڈا کے مختصر دورہ پر گئے جہاں ان کی ملاقات لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب کے چند افراد سے ہوئی جس کے بعد وہ لوگ سوشل میڈیا کے زریعے اس مہیم کو آگے بڑھانے اور اپنے حلقہ احباب کو اس جانب لانے کی کوشش کرتے نظر آئے ،اگر اس سارے منظر نامے پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس علاقہ میں گلاب سنگھ اور ان کے جانشین راجگان کا ہیرو بنا کر پیش کئے جانے کے کیامحرکات ہو سکتے ہیں ۔اس حوالے سے ایک بات تو طے ہے کہ ریاست جموں کشمیر جو صدیوں سے محکوم و مظلوم اور اب فکری و جغرافیائی طور منقسم وانتشار کا شکار ہے تو اسے مذید تقسیم کرنے کی ایک مضبوط سازش تیار کی جا چکی ہے اور اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جموں خطہ کے اصل ہیرووں کی یادوں کو عوام کے دل و دماغ سے محو کر دیا جائے جنہوں نے غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف مذمت کی تھی ،یہ کوشش بظائر ڈاکٹر کرن اور ان کے کاسہ لیس کر رہے ہیں تا کہ کرن سنگھ مہاراجگان کا وارث ثابت کر کے خطہ میں جاگیردارانہ نظریات کا احیا کر کے یہاں کے عوام پرقدیم ظلم و جبر کا نظام مسلط کر دیا جائے اور اسی نئے فتنے کی بنیاد پر ریاست کو ہندوپاک میں تقسیم کیا جائے تاکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے بھارت کودنیا بھر میں ہوانیوالی حزیمت سے بچاکر اسے یونائٹڈ نیشن کی سکیورٹی کونسل میں مستقل نشت تک پہنچنے کی راہ ہموار کی جا سکے ،یہ تاریخ کو مسخ کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے ۔اس کی پاداش میں ماورائے تاریخ واقعات کو حقیقت کا رنگ دے کر ایک خود ساختہ تاریخ مرتب کرنے کا جرم سر زد ہونے جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں کئی سالوں سے گلاب سنگھ کا یوم پیدائش کا اہتمام اور کرن سنگھ کی جانب سے سات اکتوبر کو سرکاری چھٹی کا مطالبہ بھی ایک کڑی ہے ۔لیکن چند مراعات اور وقتی مصلحتوں کے باعث جموں کے تمام دانشوروں ادیبوں و باشعور سیاسی کارکنان اور مورخین کی جانب سے مجرمانہ خامشی و سرد مہری قابل افسوس ہے ۔ایسے تاریخی جرم پر خامشی کا خمیازہ ہمیشہ ا قوام کو ہی بھگتنا ہوتا ہے ۔تاریخ کے ماخذ کبھی جاگیر دار ووڈیرے نہیں ہوا کرتے تاریخ کے خالق ہمیشہ عوام ہی ہوا کرتے ہیں اور ان کی اس تخلیق میں اہم کردار ان کے اصل نمائندگان کا ہوتا ہے ناں کہ جابر و غاصب مطلق العنان جاگیرداروں یا ان کے نمائندوں کا ۔تاریخ جموں کا دیانتداری سے مطالعہ کیا جائے تو گلاب سنگھ کا دور تاریخ کا اتنا سیاہ ترین دور ہے کہ ریاست کے سبھی دریا ملکر بھی اس کی کالکھ کو دھو نہیں سکتے ۔مہاراجۂ گلاب سنگھ اور ان کے پیش رو مہاراجگان اور ان کے نمائندوں نے ظلم وجبر میں ہر جابرو ظالم کو پیچھے چھوڑاہے، اس خاندان کے بانی نے حصول ’’راج‘‘کے لئے جموں کشمیر کے مختلف خطوں میں بسنے والوں کا ایسابے دریغ استحصال کیا جس سے انسانیت تاقیامت شرمندہ رہے گی ۔ تاریخ عالم ایسے افراد سے بری پڑھی ہے جنہوں نے لشکر کشی ،وحشت وبربریت ،جبروتشدد،اور آمریت کے زریعے وسیع و عالمگیر سلطنتیں قائم کیں ۔چنگیز و ہلاکو نے وحشت و بربریت سے ایشاء اور یورپ کی ساری سرزمین کو تسخیر کیا سکندر اعظم نے یونان سے لیکر ہندوستان تک کے علاقے فتح کئے ۔مارا نے سارے عجم پر اپنا جھنڈا لہرایا ۔فرعانہ مصر نے عظیم سلطنت قائم کی نمرود نے سارے وسط ایشا میں حکومت قائم کی جرمنی کے بسمارک نے تقریباً سارے یورپ کو پاوں تلے روند کر عظیم جرمن سلطنت کی بنیاد رکھی ،نپولین نے یورپ کوخاک و خون میں نہلا کر فرانسییی پرچم لہرایا چین اور جاپان کے بادشاہوں نے عظیم سلطنتیں قائم کیں ،ہٹلرموسولینی نے وحشت و بربریت و نسل کشی کے ریکارڈقائم کئے لیکن دنیا میں تب سے آج تلک کبھی کسی نے کسی ایک کو بھی ہیرو تسلیم نہیں کیا نہ پکارہ،جموں کے مہاراجگان تو ان لوگوں کے پائے خاک بھی نہ تھے ۔تو پھر انہیں یا ان کے لواحقین کو جموں کا ہیرو کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ہندوستان میں کئی راجوں مہاراجوں نے غیر ملکی آقاؤں سے ساز باز کی اور وہاں کے عوام کو کچل کر ۵۶۵ ریاستیں قائم کیں ۔جنمیں گلاب سنگھ سمیت نظام حیدرآباد ،دھکن،نواب بھوپال ،مہاراجہ گوالیار ،مہاراجہ جہہ پور،مہاراجہ جودھ پور،مہاراجہ پٹیالہ،مہاراجہ کپور تھلہ،مہاراجہ بڑھودہ،مہاراجہ جونا گڑھ وغیرہ قابل زکر ہیں ان تمام نے ایک ہی طرز عمل سے یہ راج حاصل کئے انگریز سے معائدے کئے اور حاصل کردہ زمینوں کی حدود بھی متعین کیں تو آج کئی سو برس بعد ان تمام جاگیرداروں میں سے فقط ایک گلاب سنگھ نے ایسا کون سا عوامی فلاحی کارنامہ سر انجام دیا تھا کہ اسے ہیرو بنانے کی کوشش کی جائے۔۔۔؟ ان تمام ریاستوں کے مہاراجوں میں سے کسی ایک کو بھی ان کے عوام نے ہیرو نہیں مانا انہیں ظالم جابر اور لٹیروں کے خطابات ملے ۔ تاریخ جموں کے اوراق پلٹ کر دیکھئے جب مہاراجہ رنجیت نے جموں پر قبضہ کرنے کے لئے پیش قدمی کی توجموں میں اس کے خلاف زبردست مدافعت ہوئی اور ایک گوریلہ وار برپا ہوئی جس کی قیادت میاں ڈیڈو اور دوسرے ڈوگرہ سرفروش کر رہے تھے ۔اس وقت گلاب سنگھ اور اس کے والدنے ڈوگرہ سرفروشوں سے دھوکہ کر کے رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت و مراعات حاصل کی اور ڈوگرہ مذمت کو کمزور کیا اورمہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایجنٹ بن کر میاں ڈیڈو اور دوسرے ڈوگرہ سرفروشوں کو قتل کروایا، ڈوگرہ مدافعت کو کچلنے ،ڈوگرہ سرفروشوں کو قتل کروانے اور رنجیت سنگھ کی سلطنت کو جموں تک وسعت دینے کے عوض گلاب سنگھ کو رنجیت سنگھ کی فوج میں جنرل کے عہدے پر فائز کیا گیا بعد ازاں ملتان میں ایک معرکے میں کامیابی کے بدلے گلاب سنگھ کو جموں کی راج گدی عطا کی گئی اور یوں گلاب سنگھ رنجیت سنگھ کے گھوڑوں پر سوار ہو کر اپنے ہی ہموطنوں پر ظلم وجبر بن کر نازل ہوا تھااور اس کی جو شرائط طے کی گئیں تھیں انہیں قلم یہاں لکھنے سے قاصر ہے اس کے علاوہ گلاب سنگھ نے رنجیت سنگھ کی خوشنودی کی خاطر میاں ڈیڈو کے علاوہ مسرور،بلاور ،بسوہلی،بھمبر ،ٹکری،کرمچی ،کشتواڑ،بھدروہ ،سراج،راجوری،کوٹلی ،پونچھ،میر پور اور دوسرے علاقوں کے راجاؤں کے سر قلم کئے ملک بدر کیاان کی جلد کو کھرچ کھرچ کر انہیں ہلاک کیا ان کی کھالوں میں بھوسہ بھر کر درختوں پر لٹکا کر ظلم و بربریت کی مثالیں قائم کیں ،ان قبیح کارناموں کے مرتکبین کو ہیرو نہیں کہا جا سکتا ،بعد ازاں جموں کے ان راجوں کو لاہور دربار میں بڑی قربت حاصل ہوئی رنجیت سنگھ کے مصاحب خاص میں ان کا شمار ہوتا تھا۔گلاب سنگھ وہ سفاک شخص تھا جس نے راجہ سوچیت سنگھ جیسے وفادار بھائیوں کو بھی رنجیت سنگھ کی ایما پر طے وتیغ کرنے میں زرہ عار نہیں سمجھی ۔لیکن جونہی رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا ،انگلو سکھ لڑائی ہوئی تو جموں کے یہ نام نہاد ’’راجہ‘‘ لاہور دربار سے غداری کر کے انگریزوں سے جا ملے اور اس کے بعد ۷۵ لاکھ نانک شاہی جو تاوان جنگ کے طور پر انگریز نے لاہور دربار سے حاصل کرنا تھے موصوف نے ادائیگی کا وعدہ کر کے صوبہ کشمیر بھی حاصل کر لیا۔گلاب سنگھ نے ۱۶ مارچ ۱۸۴۶ کو ہونے والے بیع نامہ امرتسر کے توسط سے اپنی جاگیر کے رقبے میں اضافہ کیا اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ ایک سطحی فکر کا حامل پراپرٹی ڈیلر تھا جو من چاہے منافع کی خاطر انسانی خون پینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا ۔اس کی گواہی کئی مورخین نے اپنی تصانیف میں دی ہے کہ صرف پہلے سال اس نے فقط صوبہ کشمیر سے ۵۷ لاکھ نانک شاہی کمائے تھے ۔معائدہ امرتسر کے بعد اس نے ریاست جموں اینڈ کشمیر جس میں اینڈ’’و‘‘ کا لفظ جو کہ راجہ کی متعصب زہنیت کا عکاس تھاہی ساتھ ہی جموں میں چالیس فیصد اور وادی میں پچاسی فیصد اور پوری ریاست میں مجموعی طور پر پچہتر فیصد مسلم آبادی والی ریاست کو ’’کرشن بھگوان‘‘ والی ہندو ریاست کے طور پر ظاہر کیا جس کی گواہی ایک سو برس تک راج محل پر لہرانے والا پرچم چیخ چیخ کر دے رہا ہے اور پھر سب سے اہم کرشن بھگوان کے نام پر قائم اس ریاست میں مہاراجہ گلاب سنگھ نے نوے فیصد قوانین رنگ نسل ،مذہبی،لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات پر مشتمل بنائے جس کے باعث اس ریاست میں ایک سو برس حکومت کرنے کے باوجود یہاں ریاستی نیشنلزم وقوع پذیر نہ ہو سکا اور عوام اور راجہ کے درمیاں نفرتوں کی دیواریں بلند ہوتی رہی ،نتیجتاً جب چالیس کے عشرے میں ریاست پر بیرونی مداخلت ہوئی تو نوے فیصد لوگ راجہ کے ظلم وجبرو نفرت کے باعث اپنے حکمران کے خلاف ہو ئے اور ریاست دولخت ہوئی ۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 75345 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.