تقسیمِ ہندوستان کا تصور علامہ اقبالؒ سے
بہت دیرپہلے ہندوستانی دانشوروں کے ذہنوں میں موجود تھا۔ مختلف افراد کی
طرف سے برِصغیر کی تقسیم کے لیے مختلف اوقات میں مختلف تجاویز منظرِ عام پر
آتی رہیں جو قراردادِ پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔سب سے پہلے خطہ میں
مسلم جمہوریہ کا تصور سیّد جمال الدین افغانی کے ذہن میں اُبھرا۔ڈاکٹر
اشتیاق حسین قریشی ’’ہسٹری آف دی فریڈم موومنٹ ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
سید جمال الدین افغانی ایک ایسی مسلم ریاست کے خواہاں تھے جس میں موجودہ
پاکستان ، افغانستان اور روسی ترکستان مسلم علاقے شامل ہوں۔اس کے بعد 1917
ء میں ڈاکٹر عبدالجبار خیری اور پروفیسر عبدالستار خیری ٗ 1920 ء میں
عبدالقادربلگرامی اور ٹائمز آف انڈیا کے سابق ایڈیٹر مسٹر فریزر ، 1923 ء
میں سردار گل محمد خان ، 1924 ء میں مسلم دشمن تنظیم ہندو مہا سبھا کے ایک
رہنمالالا لاجپت رائے ، 1928 ء میں سرآغا خان اور پھر 1930ء میں مسلم لیگ
کے پلیٹ فارم سے سب سے پہلے علامہ اقبال نے ’’برصغیر کے اندر مسلم برصغیر‘‘
کی تجویز پیش کی۔ جی ہاں ’’برصغیر کے اندر مسلم برصغیر‘‘لیکن اس کا یہ مطلب
ہر گز نہیں ہے کہ آپ آزاد مسلم ریاست نہیں چاہتے تھے۔جب آپ نے خطبہ الٰہ
آباد میں اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ’’ ذاتی طور پر میں ان
مطالبات سے آگے جانا چاہتا ہوں‘‘تو اُن کے ذہن میں آزاد مسلم ریاست کاتصور
موجود تھا۔ازاں بعد جنوری 1933ء میں انگلستان کے چار مسلمان طلباء محمد
اسلم ، خان عنایت اﷲ خان، شیخ محمد صادق اور چوہدری رحمت علی نے گول میز
کانفرنس کے مسلم مندوبین پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ایک پمفلٹ Now Or Never
(اب یا کبھی نہیں) شائع کیا جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ اگر مسلمانوں
کو ہندو اکثریتی فیڈریشن میں شامل کردیا گیا تو ملک میں امن و سکون قائم
نہیں رہ سکے گااور مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان پر
مشتمل آزاد مسلم ریاست قائم کی جانی چاہیئے۔ اُنہوں نے ریاست کا نام
’’پاکستان‘‘ بھی تجویز کیا۔8 مارچ 1940 ء کو انہی طلباء کے نمائندہ چوہدری
رحمت علی نے مزید کہا کہ بنگال اور آسام پر مشتمل دوسری آزاد مسلم ریاست
’’بانگِ اسلام‘‘ اور تیسری ریاست حیدر آباد میں عثمانستان کے نام سے قائم
کی جائے۔اگرچہ ان دنوں چوہدری صاحب کی کاوشوں کو کماحقہٗ قابلِ قدر نہ
سمجھا گیالیکن پھر بھی اول الذکر ریاست کے لیے پاکستان کا لفظ اتنا مقبول
ہوگیا کہ پھر یہ دھرتی پاکستان ہی کہلائی۔
اِن حالات نے سیاسی زمین ہموار کردی تھی اور اب یہ محسوس کیا جانے لگا تھا
کہ برصغیر میں آزاد مسلم ریاست کا قیام ناگزیر ہو گیا ہے۔مسلم لیگ 1939 ء
میں ہی یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ آئندہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوگا۔لہٰذا سر
سکندر حیات اور نواب شاہنواز خاں ممدوٹ نے لاہور کے لیے ایک مجلسِ
استقبالیہ قائم کردی۔تاریخ 22 تا 24 مارچ مقرر کی گئی اور یہ فیصلہ بھی کیا
گیا کہ اجلاس بادشاہی مسجد کے پہلو میں موجود وسیع و عریض منٹو پارک میں
منعقد ہوگا۔لہٰذا 22 مارچ 1940 ء کو مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس
پورے جوش و خروش کے ساتھ منٹو پارک لاہور میں منعقد ہوا۔بقول چوہدری محمد
علی سٹیج تو اس جدوجہد کے لیے تیار تھی جس کے نتیجے میں تخلیقِ پاکستان کا
عمل ہونا تھا۔اگلے روز یعنی 23 مارچ کو اسلامیانِ ہندوستان کے تقریباََ ایک
لاکھ نمائندوں کے پُروقار اجتماع میں وزیرِ اعلیٰ بنگال جناب مولوی اے کے
فضل الحق نے ایک قراد داد پیش کی کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ء کے تحت
جوسکیم پیش کی گئی ہے وہ مسلمانانِ ہند کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے تاوقتیکہ
ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں جن علاقوں کے اندر مسلمانوں کو
اکثریت حاصل ہے وہ یکجا ہوکر ایسی آزاد ریاستیں بن جائیں جن کے اجزائے
ترکیبی خود مختار اور مقتدر ہوں۔قرارداد کی تائید چوہدری خلیق الزماں نے کی
اور دیگر اصحاب کے علاوہ مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگ زیب خان، حاجی سر
عبداﷲ ہارون ، نواب اسماعیل خان، قاضی محمد عیسیٰ اور آئی آئی چُندریگر نے
بھی اس کی حمایت کی۔
قدرت کو جب اپنے بندوں کی بھلائی منظور ہوتی ہے تو بگڑے کام بھی سنورتے
جاتے ہیں۔اسلامیانِ ہندوستان نے قراردادِ مذکورہ کوقراردادِ لاہور کے نام
سے موسوم کیالیکن ہندوؤں نے ’’راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا اور کہا کہ
’’نہیں جی ، یہ تو قرار دادِ پاکستان ہے ــ‘‘۔ اِسے تعمیر پاکستان کے لیے
سنگِ بنیاد کہیے۔ جی الانہ ’’ قائدِ اعظم جناح ـ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اِس
قرارداد کی منظوری سے ہندوؤں اور کانگریس کے دل دہل گئے۔ انہیں نوشتہ تقدیر
نظر آرہا تھا اور یقین ہو چلا تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کو خود مختار
ریاستوں میں تقسیم کرنے کی وکالت کر رہی ہے۔ہندوؤں اور کانگریس کے غیظ و
غضب کی انتہا نہ رہی ۔ہندو اخباروں نے قرارداد کی مذمت میں ان گنت اداریئے
لکھ مارے اور ہندو لیڈروں نے اس کے خلاف خوب دل کی بھڑاس نکالی۔اس کا مذاق
اُڑایا اور خاص طور پر قائدِ اعظم کو نشانہ بنایامگر اُنہوں نے اپنی پیشانی
پر شکن نہ آنے دی ۔اُنہیں خوشی تھی کہ مسلمان صحیح راستے پر گامزن ہو گئے
ہیں۔ ہندو اِس قرارداد کی مذمت کرتے اور حقارت کے ساتھ کہتے کہ اِس قرار
داد میں پاکستان کا مطالبہ کیا گیا ہے جو دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں
اور اُنہوں نے’’ 23 مارچ 1940 ء کی قراردادِ لاہور کو قرار دادِ پاکستان‘‘
کا نام دے دیا ۔ایس ایم اکرام ’’ ماڈرن مسلم انڈیا اینڈ دی برتھ آف پاکستان
‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’ایک طویل مدت تک مسلم لیگ قرارداد لاہور کو
قراردادِ پاکستان کا نام دینے میں محتاط تھی لیکن ہندو پریس نے غیر مسلموں
کو چونکانے کے لیے اسے قرار دادِ پاکستان کہنا شروع کیا۔ازاں بعد لیگی
رہنماؤں نے یہ نام قبول کر لیا ۔شاید صحیح بات یہ ہے کہ 1940 کی قرارداد کو
قراردادِ لاہور کہا جاتا ہے اور 1946 ء کے مسلم لیجسلیٹو کنونشن کو قرار
دادِ پاکستان‘‘۔
گاندھی اور راج گوپال اچاریہ نے قراردادِ لاہور کو ہندوستان کی چیر پھاڑ
اور جسم کے دو ٹکڑے کر دینے سے تعبیر کیا۔ کبھی اسے مادرِ وطن کی بے حرمتی
اور کبھی روح کے کانپ جانے والا تصور قرار دیا۔کانگریس اور ہندو پریس کے
علاوہ سکھ رہنما ماسٹر تارا سنگھ نے کہا کہ اگر مسلم لیگ کو پاکستان بنانا
ہے تو اسے سکھ خون کے سمندر سے ہو کر گزرنا ہوگااورتو اور خود کانگریسی
مسلمانوں نے اس کی شدید مخالفت کی۔مولانا ابو الکلام آزاد نے تو یہاں تک
کہہ دیا کہ یہ مطالبہ سراسر اسلام کے خلاف ہے۔جمیعت العلمائے ہند ، مجلسِ
احراراور شیعہ پولیٹیکل کانفرنس کے اشتراک و تعاون سے معرضِ وجود میں آنے
والی آزاد مسلم کانفرنس نے بھی اِس مطالبہ کی شدید مخالفت کی۔اِس صورتِ حال
کو رئیس احمد جعفری نے بڑے خوب صورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
کہ پاکستان کی تجویز لاہور کے اجلاسِ عام نے جیسے ہی منظور کی ، سارے ہندو
پریس نے بالعموم اور شمالی ہند کے ہندو اخبارات نے بالخصوص آسمان سر پر
اُٹھا لیا۔ اب تک وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ مسلمان جائیں گے کہاں؟ اُنہیں اس
دیس میں رہنا ہے۔ ان کی تعداد ہمارے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ یہ جمہوریت کا
زمانہ ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے اور جب بھی گنتی
ہوگی کامیابی کا سہرا ہمارے سر بندھے گا۔اقلیت یعنی مسلم قوم منہ دیکھتی رہ
جائے گی اور اکثریت یعنی ہندو قوم سب کچھ لے جائے گی لیکن پاکستان کے نعرے
نے یہ طلسم توڑ دیا۔ اب مسلمان اپنا الگ وطن بنانے پر مُصر تھے۔
خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسمِ سامری
اور اب اس طلسم کے ٹوٹنے کا وقت آگیا تھا۔ پاکستان کا نام سنتے ہی ہندو
پریس نے ایک قیامت برپا کردی ۔گفتنی اور ناگفتنی سب کچھ ہی کہہ ڈالا۔ ابہام
اور غلط بیانی کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا گیا ۔ قائدِ اعظم نے ایک
معاملہ فہم اور دور اندیش سیاست دان کی طرح ضروری سمجھا کہ اگر واقعی کوئی
غلط فہمی ہے تو وہ رفع کردی جائے۔چنانچہ 20 مئی 1940ء کو آپ نے واضح کر دیا
کہ قدرت نے پہلے ہی سے ہندوستان تقسیم کر رکھا ہے اور اس کے حصے علیحدہ
علیحدہ ہیں۔ہندوستان کے نقشے پر مسلم ہندوستان اور ہندو ہندوستان پہلے ہی
سے موجود ہے۔۔۔۔ وہ ملک ہے کہاں جس کے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں اور وہ قوم ہے
کہاں جس کی قومیت فنا کیے جانے کو ہے۔ قائدِ اعظم نے قراردادِ لاہور کو
قابلِ عمل ہونا بھی ثابت کیا لیکن ہندو پریس اور کانگریس کے رویے نے بالآخر
قراردادِ لاہور کو پاکستان کا نام و مقام دے ہی دیا۔ مسلم لیگ کو بھی اِن
حالات میں ہندوؤں کا یہ رویہ پسند آیا اور یوں 23 مارچ 1940 ء کی قرار دادِ
لاہور نہ صرف قراردادِ پاکستان بن گئی بلکہ پاکستان کی تعمیر میں سنگِ
بنیاد بھی ثابت ہوئی۔ |