ملک کا موجودہ منظر نامہ

ملک کا موجودہ منظر نامہ عجیب و غریب دیکھا ئی دے رہا ہے ۔ہر طرف بس ایک ہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر فلاں لفظ کا اظہار کر دیا تو محب وطن کہلاؤ گے اور اگر فلاں لفظ کا استعمال کر دیا تو غدارِ وطن میں شمار ہو گے ۔اور اگر ایسا ایسا نہیں کروگے تو تمہارا ٹھکانہ یہاں نہیں بلکہ تمہیں یہاں سے ہجرت کر لینی چاہئے وغیرہ وغیرہ ۔اس طرح کی فضول اور اول جلول باتوں میں نا صرف عام شہری ملوث ہیں بلکہ مسند اقتدار میں بیٹھے سیاسی لیڈران سے لیکر سماجی اور مذہبی لیڈران تک کو اپنے اپنے خیالات رکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور ان کی رائے جاننے کے لئے مختلف طرح کے ذرائع کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔خصوصا الیکٹرانک میڈیا تو اپنے اپنے چینل پر پورے دن بحث و مباحثہ کا پروگرام کر رہی ہے جس میں سماجی ،سیاسی اور مذہبی شخصیات سے اس پر بحث و تکرار کرائی جا رہی ہے ۔اس کے علاوہ ایک اور سوشل میڈیا فیس بک اور ٹیوئٹر کے ذریعے عام عوام اس بحث کو عالمی پیمانے پر پھیلانے کا کام کر رہے ہیں ۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت تو کیا خود عوام نے مہنگائی ،بے روزگاری ،کرپشن ،کالا دھن ،بد عنوانی سے منہ موڑ لیا ہے اور انہیں بس یہی فکر ہے کہ ہماری فکر غالب آجائے اور دیگر طبقے کی فکر کو کسی طرح بھی ہو سکے نیچے دیکھا دیا جائے اس کے لئے مختلف ذرائع کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔کہیں کسی یونیورسٹی میں گھس کر طلبہ تنظیم کے پروگرام کی ویڈیو ریکارڈنگ کرا کر اس میں ایڈٹ کے ذریعے ملک میں دہشت کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے تو کبھی اس پاداش میں طلبہ کو گرفتار کر کے کورٹ میں پیش کیا جاتا ہے اور وہاں عوام سے لیکر سیکورٹی تک وہ کھیل کھیلتے ہیں جس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے ۔اس طرح شروع ہوتا ہے ایک فکر کو دوسرے کے فکر پر غالب کرنے کوشش اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ عوام اور حکومت پارلیمنٹ تک میں کنہیا کنہیا کھیلنے میں لگے رہتے ہیں اور ملک کی تقریباً بینکوں کا بیس ہزارو کروڑ روپے لیکر کنگ فیشر کا مالک وجئے مالیہ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ اس پر کارروائی نہیں ہو رہی تھی بلکہ سب کنہیا کنہیا کھیلنے میں بد مست ہو گئے تھے ۔اس طرح ایک بڑا نقصان ملک کا ہوا اور نا جانے اس کنہیا کنہیا کھیل میں ہندوستان کے اندر کیا کیا عوام اور حکومت گنواتی ہیں ۔یہ ایک الف موضوع ہے ۔لیکن فطری جذبہ اظہار کو زبردستی اپنے الفاظ میں سب سے کہلوانے کا کھیل تو اپنے آپ میں خود جمہوریت کے خلاف ہے ۔یہاں ہر کسی کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اور جذبہ محبت کا اظہار کرنے کی آزادی ہے ۔لیکن یہاں تو صرف ایک ہی لابی ہے جو اپنی زبان میں ہی سب کو زبان ملا کر بات کرنے کی دعوت دے رہی ہے جو جمہوری ملک کے خطرناک ہے۔ہر کسی کے جذبہ محبت اور اس کے اظہار کا طریقہ الگ ہے ۔کوئی ملک کو خدا مانتا ہے تو کوئی ملک کو دیوی دیوتا مانتا ہے تو کوئی اسے اپنا پیارا وطن مانتا ہے ۔یہ وہ جذبات ہیں جس کے لئے کسی تعلیم یا کسی کے کہنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ فطری جذبہ اظہار ہے ۔جس طرح پرندے میں اپنے وطن سے محبت ہوتی اسی طرح انسان کے اندر بھی اپنے وطن سے محبت کرنے کا عنصر پایا جاتا ہے ۔فضول بحث و مباحثہ میں پڑ کر ملک و قوم کا پیسہ برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔کاش کوئی یہ مہم چلاتا کہ ملک میں کوئی بھوکا نہ رہے اور فلاں فلاں علاقے میں کوئی بھیک مانگنے والا نہیں ہے یا فلاں فلاں علاقے میں سارے لوگ خوشحال ہیں اور کوئی بے روزگار نہیں تو ایک ایک پیسہ ملک اور عوام کے لئے سود مند ثابت ہوتا ۔لیکن یہاں تو برباد ہی برباد ہے ۔ملک کی سب بڑی جمہوری مندر ایوان میں اس پر بحث کر کے وقت بر باد کیا جا رہا ہے اور نیوز چینل والے بھی اپنا وقت اور پیسہ کے ساتھ ساتھ اپنی توانائی برباد کر رہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس طرح کی بحثوں پر روک لگائے اور ملک میں بحث صرف اور صرف سائنس ،ٹکنالوجی ،زراعت و تجارت سے لیکر نوکری پیشہ سے متعلق ہو تاکہ اس کے کچھ مثبت نتائج سامنے آئیں اور لوگوں کی پریشانیوں سے نجات حاصل ہو ۔دنیا کے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہندوستان کا کوئی نمبر نہیں ہے جب کہ ڈنمارک کو دنیا کی سب سے خوشحال ملک ہونے کا شرف حاصل ہے ۔اس لئے اس موضوع پر بحث ہونی چاہئے کہ کس طرح ملک کی ترقی ہو اور کس طرح یہاں سے غربت ،افلاس اور بے روزگاری سے نجات حاصل ہو ۔کس طرح لاڈلی کو بچانے اور جہیز کو ختم کرنے کے لئے کوشش کی جائے ۔اگر اس طرح حکومت کام کرتی ہے تو وہ وقت دور نہیں جب ہندوستان میں ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوگا اور دنیا میں ہمارے ملک کی پہچان ایک سیکولر امن پسند اور ترقی یافتہ میں ہونے لگے گا ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 112511 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.