ڈی جی رینجر ز سندھ میجر جنرل بلال اکبرنے
اتوار کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں دہشتگردوں اور جرائم
پیشہ افراد کے خلاف آپریشن معیاد اور رفتار کی قید سے آزاد ہے۔ جب کہ کچھ
عرصہ قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا آئی ایس پی آر کی طرف سے یہ بیان
جاری کیا گیا تھا جس میں رواں سال کو پاکستان میں دہشتگردوں کا آخری سال
قرار دیا گیا تھا۔ جنرل راحیل کے بیان نے قوم کے حوصلے بلند کئے تھے ا ور
ان کے چہروں اور دلوں میں امید کی کرنیں پھوٹیں تھیں۔لیکن پھر زمینی حقائق
کا اعتراف کیا گیا اور یہ تسلیم کیا گیا کہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن اس
وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ملک میں انتہا پسند سوچ کا خاتمہ نہ کیا
جائے اور ظاہر ہے کہ اس کام کے لئے طویل وقت درکار ہے۔اس حقیقت سے اب کسے
انکار ہے کہ ملک میں مجموعی طور پر دہشتگردی کے واقعات میں بڑی حد تک کمی
آئی ہے اور کراچی اور جنوبی و شمالی وزیرستان سمیت ملک بھر میں دہشتگرد اب
چھپتے پھر رہے ہیں تاہم دہشتگردی کے اکا دکا واقعات اب بھی جاری ہیں۔ اگر
ماضی کے دریجوں میں جھانکا جائے تو یہ سچائی بھی ہمیں منہ چڑاتی دکھائی دے
گی کہ ہمارے ملک میں ایک خاص پالیسی کے تحت دہشتگردوں کو مختلف نام دے کر
مضبوط کیا گیا ہے اور بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنے اپنے انداز سے
ان دہشتگردوں کے وجود کے جواز بھی پیش کئے ہیں جبکہ اسٹبلشمنٹ کے کرتا
دھرتا افراد نے انہیں’’اسٹریٹیجک ایسیڈز‘‘ قرار دیا ہے لیکن اب صورت حال
خاصی مختلف ہے اور اب ان دہشتگردوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے جس کے
وہ اہل ہیں۔ میجر جنرل بلا ل اکبر کا اتوار کو ایک تقریب کے دوران اس بات
کا اعلان کہ دہشتگروں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن معیاد اور رفتار
کی قید سے آزاد ہے حقیقت کے بہت قریب دکھائی دیتا ہے اس میں یہ واضح اشارہ
ہے کہ نہ تو ابھی رینجرز سندھ سے جا رہی ہے اور نہ ہی یہ آپریشن ختم ہو رہا
ہے۔ جبکہ اس بیان میں یہ بات بھی بین السطور کہی گئی ہے کہ ابھی کراچی سے
دہشتگرد اور جرائم پیشہ افراد اور ان کی آماجگاہیں ختم نہیں ہوئی ہیں۔میجر
جنرل بلال اکبر نے اس بیان میں حقیقت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ کراچی اور
سندھ کے عوام تک یہ پیغام پہنچایا کہ دہشتگردوں کو اتنی آسانی سے مکمل طور
پر ختم نہیں کیا جا سکتا لہذا ان کے خلاف جاری اس آپریشن کو وقت اور رفتار
کی قید سے آزاد کرنا ہوگا۔ اس بیان میں یہ بھی ایک اشارہ ہے کہ جو سیاستدان
یہ سمجھتے ہیں کہ رواں سال کے آخر تک فوجی قیادت میں تبدیلی کے ساتھ سندھ
میں جاری دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن ختم ہو جائے گا یا
اس کی شدت میں کمی آجائے گی تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔سچائی تو یہی ہے کہ
دہشتگردوں اور انتہا پسندوں نے اس ملک میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لی ہیں
کہ اتنی آسانی سے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا نہ ممکن ہے۔ جیسے ہی حالات ساز
گار ہوں گے یہ فتنہ دوبارہ سر اٹھائے گااور دوبارہ سے دہشتگرد کاررائیوں
میں شدت آجائے گی۔یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ کراچی بین الاقوامی سازشوں کا
شکار ہے۔یہاں پر درجنوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اپنے اپنے طریقے سے کام کر
رہی ہیں جس کی وجہ سے کراچی کا امن مختلف طریقوں سے تباہ کیا جاتا ہے ۔
یہاں کی انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے ، بے روزگاری عروج پر ہے، شہری سہولتوں کے
حوالے سے کراچی کے شہری بد ترین استحصال کا شکار ہیں، ہر شعبے میں ناقابل
بیان صورت حال کی وجہ سے یہاں کے لوگ بیرون ملک جانے اور وہاں آباد ہونے کے
نئے نئے طریقے ڈھونڈھ رہے ہیں۔ کراچی کا سرمایہ کار یہاں سے اپنا سرمایہ
منتقل کررہا ہے ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کا امن
عارضی ہے جیسے ہی کراچی میں جاری آپریشن کی گرفت کمزور پڑے گی ، دہشتگرد
اپنا اپنا بارود اور کارتوس لے کر باہر آجا ئیں گے ا ور شہر کو ایک مرتبہ
پھر لہو لہو کر دیں گے۔ گویا عارضی امن مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ کراچی میں
امن کی بحالی اور جرائم کے خاتمے کا رینجرز جو کام کر رہی ہے وہ در اصل اس
کا نہیں پولیس کا کام ہے لیکن افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ رینجرز کی طرف سے
پولیس کو نہ قابل بھروسہ قرار دیاجا چکا ہے۔ رینجرز اپنے تھانے اور ایف آئی
درج کرنے اور انوسٹی گیشن کرنے کا بھی اختیار مانگ رہی ہے۔ رینجرز کا یہ
مطالبہ کتنا آئینی اور قانونی ہے یہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن سوال یہ ہے کہ
سندھ خصوصاً کراچی میں رینجرز کب تک قیام کریں گے۔ جب دنیا بھر میں شہروں
میں جرائم اور امن و امان کی صورت حال کو پولیس کے ذریعے کنڑول کیا جاتا ہے
تو سندھ یا کراچی میں ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ کیا پولیس کی تطہیر کر
کے اسے مکمل تربیت کی ضرورت ہے ؟ اور اگر ایسا ہے تو پھر رینجرز کو ہی یہ
ذمہ داری اٹھانی پڑے گی اور صوبائی حکومت کے ساتھ ملکر پولیس کی تربیت کر
کے اس کا قبلہ دوست کرنا پڑے گا ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا اور رینجرز خود ہی
تمام معاملات کی درستگی کی ذمہ داری اٹھا تی رہی تو صوبے میں سیاسی اور
عوامی سطح پر بے چینی پھیلنے کے خدشات رہیں گے لہذا ان ممکنہ خدشات کا
خاتمہ کرنا وفاقی حکومت اور دیگر مقتدر حلقوں کی ذمہ داری ہے۔
|